بھارت: چار فوجی افسران ’پاکستانی جاسوس کے واٹس ایپ گروپ کے ممبر‘ ہونے پر معطل

ویب ڈیسک

بھارتی سپریم کورٹ میں ملٹری انٹیلیجنس کے چار افسران کا ایک ایسا کیس آیا ہے، جنہیں ایک مبینہ ’پاکستانی جاسوس‘ کے واٹس ایپ گروپ سے جوڑا جا رہا ہے

رپورٹس کے مطابق جب بھارتی فوج نے ان افسران کے خلاف ایکشن لیا تو یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا تاہم افسران کو یہاں سے بھی ریلیف نہ ملا۔ اب ان کے وکلاء نے اس پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے

ان چار فوجی افسران نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ان کے رازداری کے حق کی حفاظت یقینی بنائی جائے، تاہم سپریم کورٹ نے ان کی استدعا کو مسترد کر دیا

ان افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مبینہ پاکستانی جاسوس کے واٹس ایپ گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کے فون اور لیپ ٹاپ تحقیقات کے دوران ضبط کر لیے گئے تھے

ان کے خلاف تحقیقات میں بھارتی فوج کو معلوم ہوا کہ وہ مبینہ طور پر اس واٹس ایپ گروپ میں شامل تھے، جہاں کئی دیگر نامعلوم غیر ملکی شہری بھی موجود ہیں

ان پر الزام ہے کہ اس واٹس ایپ گروپ میں جنسی نوعیت کا غیر اخلاقی رویہ اختیار کیا جا رہا تھا۔ اس پر انہیں فوج سے معطل کر دیا گیا ہے

اس حوالے سے موصول ہونے والی مزید تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگرتنا پر مشتمل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ ان چار افسران میں ملٹری انٹیلیجنس کے تین کرنل اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں

اس کیس میں معطل ہونے والے فوجیوں کی نمائندگی کرنے والے پیشے سے وکیل امِت کمار سابق کرنل رہ چکے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں کہا کہ ان کے مؤکلین کو حق رازداری کی عدم فراہمی اور طریقہ کار پر عمل نہ ہونے پر اعتراض ہے

ایڈووکیٹ کرنل (ر) امت شاہ نے میڈیا کو بتایا ”میں بہت جلد سپریم کورٹ کے 14 جولائی کے حکم کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کروں گا“

ان کا کہنا تھا ”یہ نظرثانی کی اپیل آرمی ایکٹ کے سیکشن 50 (بی) کی تشریح کے حوالے سے ہوگی۔ یہ نیچرل جسٹس پر مبنی ہوں گی۔ وسیع تبدیلیاں ہوں گی اور اس کیس میں تمام ریکارڈز طلب کیا جائيں گے“

معطل افسران نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں سوال کیا تھا کہ آیا انہیں بھارتی آئین کے تحت باقی شہریوں کی طرح بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں؟

اس درخواست میں انہوں نے الزام لگایا کہ فوج کی تحقیقات میں رازداری کے حق کی خلاف ورزی کی گئی۔ ان چار افسران کو تحقیقات کے دوران اپنے عہدوں سے معطل کیا گیا تھا

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ایسے کوئی شواہد موجود نہیں کہ ان چار میں سے ایک بھی افسر نے کسی پاکستانی جاسوس سے بات چیت کی ہو

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ آیا اس گروپ میں کوئی پاکستانی جاسوس بھی تھا

اس پر سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا ”ہم معطل فوجی افسران کی درخواستیں وصول نہیں کرتے۔ جب تحقیقات جاری تھی تو یہ ضروری تھا کہ انہیں معطل کرنے سے پہلے اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا“

عدالتی حکم کے مطابق ”ریگولیشن 349 کے تحت ایسے کسی طریقہ کار کی پیروی ضروری نہیں تھی۔ درخواست گزاروں کو تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے بھی معطل کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ایڈووکیٹ جنرل تشار مہتا نے بتایا کہ کورٹ آف انکوائری کی تشکیل کی گئی اور جانچ جاری ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق اس وقت تک درخواست گزار کسی ریلیف کے مستحق نہیں“

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’قانون اور آرمی ایکٹ کے طریقہ کار کے تحت درخواست گزاروں کا کیس خارج کیا جاتا ہے۔ درخواست کو ابھی کے لیے مسترد کیا جا رہا ہے۔‘

ان چاروں فوجیوں کے وکیل ایڈووکیٹ امت کمار نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’تحقیقات شروع ہونے سے قبل ان چار افسران کو غیر قانونی طور پر ان شواہد کی بنیاد پر معطل کیا گیا، جو مبینہ طور پر افسران کے بورڈ نے جمع کیے تھے‘

انہوں نے بتایا کہ فوج نے چاروں افسران کے موبائل فون اور ڈیٹا کو ایک بے ضابطہ طریقے سے ضبط کیا گیا اور ان کی ذاتی گفتگو کو بلیک میل کرنے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا حالانکہ انھوں نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اس ملک کی خدمت کی۔‘

اس کے باوجود امت کمار نے کہا ’اگر وہ قصوروار پائے جاتے ہیں تو انہیں پھانسی دی جانی چاہیے‘

ایڈووکیٹ جنرل تشار مہتا نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ چاروں افسران کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، تاہم فوج کے قوانین اور دیگر اصولوں کے تحت ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی

امت کمار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ ان افسران کے فون اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز پر کی جانے والی ذاتی گفتگو اور ڈیٹا کو منظر عام پر نہیں لایا جانا چاہیے

درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چاروں افسران کو پینسٹھ روز تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے، جبکہ قانون کے تحت حراست میں لیے جانے کے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر چارج شیٹ پیش کرنا ضروری ہے

درخواست میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ”بھارتی فوج کی تاریخ میں پہلی بار درخواست گزاروں کو بغیر تحقیقات اس طریقے سے معطل کیا گیا ہے جبکہ ان کے خلاف نہ تو کوئی کیس درج کیا گیا اور نہ ہی کوئی تحقیقات شروع ہوئی تھی“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close