کیا ’قاتل روبوٹس‘ پر پابندی لگ سکے گی؟

ویب ڈیسک

مستقبل میں قاتل روبوٹ جنگوں کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کا ادارہ ان کے استعمال کو قانون کے تحت لانا چاہتا ہے لیکن یوکرینی جنگ کی وجہ سے یہ مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہونے جا رہے ہیں

یہ ڈرون کسی پیزا ڈیلیوری کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ دھماکہ خیز مواد سے لدا ہوا ہے۔ یہ ایک کیمرے اور سینسرز سے لیس ہے جبکہ چار روٹر بلیڈ اسے اُڑاتے ہیں۔ یہ ایک نام نہاد ”کامیکازے ڈرون‘‘ ہے، جو اپنے ہدف کو آزادانہ طور پر تلاش کر سکتا ہے اور خود کار طریقے سے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ الگورتھم ایسا ممکن بناتے ہیں۔ اپنے حملے کے دوران یہ ڈرون خود کو تباہ کرتا ہے اور اپنے پیچھے الیکٹرانک فضلے کا ایک چھوٹا ڈھیر چھوڑ جاتا ہے

یہ کسی سائنس فِکشن فلم کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ ”کامیکازے ڈرون‘‘ مینوفیکچرر کی پروموشنل وڈیو میں اسے ایسا کرتے دیکھا جا سکتا ہے

ایسے ہی ”قاتل ہتھیاروں‘‘ پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے 25 جولائی سے جنیوا میں تقریباً اَسی ممالک نے مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ ان مذاکرات کا انعقاد اقوام متحدہ کی کوششوں سے ہو رہا ہے

واضح رہے کہ انتہائی خطرناک اور خودکار ہتھیاروں یا ”لیتھل آٹونومس ویپنز‘‘ میں وہ تمام ہتھیار شامل ہیں، جو مشینوں سے کنٹرول ہوتے ہوں یا ان میں ایسی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہو، جو آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کی حامل ہوں یا ایسی مشینیں، جو کسی انسانی چہرے کو پہچان کر خود ہی گولی چلا دیں۔ دنیا کے کئی ممالک مصنوعی ذہانت کے حامل ”کلرز روبوٹس‘‘ بنا رہے ہیں یا اس کی تیاریاں کر رہے ہیں

جنیوا میں شروع ہونے والے مذاکرات میں سفارت کاروں کو کسی حد تک دباؤ کا سامنا ہے اور یہ دباؤ اس رپورٹ کے اجراء سے پیدا ہوا ہے، جو گزشتہ برس مارچ میں جاری کی گئی تھی۔ اُس رپورٹ کے مطابق ”لیبیا میں کیا گیا ایک ڈرون حملہ، وہ پہلا ایسا حملہ تھا، جس میں خود کار ڈرون نے اپنا ہدف خود تلاش کیا تھا۔“

واضح رہے کہ ایک سو بیس رکنی غیر جانبدار ممالک کی تنظیم نان الائینڈ موومنٹ (این اے ایم) نے وینزویلا کی قیادت میں ایسے ہتھیاروں پر لازمی پابندی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے

”کِلر روبوٹس‘‘ کے خلاف پہلی مرتبہ سن 2013ع میں مہم شروع کی گئی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر ایک سو ساٹھ تنظیموں نے آواز اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ انسانوں کو قتل کرنے والی آٹومیٹک مشینوں پر عالمی سطح پر پابندی لگائی جائے

ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق ”اب واضح ہو چکا ہے کہ طاقت کے استعمال میں انسانی کنٹرول کا دخل نکال دینا، انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرح اس معاملے پر بھی بین الاقوامی سطح پر ایکشن لینا لازمی ہو گیا ہے‘‘

خیال رہے کہ جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر میں عالمی برادری اس مسئلے پر 2014ع سے بات چیت کرتی چلی آ رہی ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری اس طرح کے خودکار قاتل ہتھیاروں پر پابندی کے معاملے پر عدم اتفاق کا شکار ہے۔ بعض ممالک اس طرح کے ہتھیاروں پر مکمل پابندی کے حق میں ہیں، تو بعض ان کی تیاری پر کسی قسم کی پابندی کی مخالفت کر رہے ہیں

سب سے بڑھ کر امریکہ، روس اور چین ایسی کسی بھی پابندی یا اس ٹیکنالوجی کو پابند کرنے والے قوانین کے مخالف ہیں۔ ان طاقتور ممالک کو ڈر ہے کہ اس طرح ان کو فوجی اور اسٹریٹیجک حوالے سے نقصان پہنچے گا

ایسے میں ”قاتل روبوٹس‘‘ پر پابندی لگائے جانے کی فی الحال کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے یورپی ریاستیں فوج میں زیادہ پیسہ لگا رہی ہیں اور خاص طور پر ایسا جدید ہتھیاروں میں کیا جا رہا ہے۔ جرمنی اپنی فوج میں ایک سو ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ایسے منصوبوں میں بھی، جن کے تحت مستقبل کے ایسے جنگی طیارے (ایف سی اے ایس) تیار کیے جا رہے ہیں، جو مصنوعی ذہانت کے ساتھ کام کرتے ہیں

مبصرین کے مطابق جنیوا مذاکرات میں ماضی کے برعکس جرمنی جیسے ملک کی بھی پوزیشن تبدیل ہوئی ہے اور اب یہ ملک بھی ایسے ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close