حکومتی مشیر کے دورہ واشنگٹن سے وزارتِ خارجہ کا اظہار لاتعلقی.. آخر قصہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی طارق فاطمی کو بظاہر ’معیشت کی بحالی کی کوششوں کے سلسلے میں‘ امریکا کا تعاون حاصل کرنے کے لیے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھیجا گیا، لیکن حیران کن طور پر بعدازاں اسے ’نجی دورہ‘ قرار دیا گیا، جس سے ایک طرف واشنگٹن کے سفارتی حلقے تذبذب کا شکار ہیں تو دوسری جانب سفارتی اور سیاسی حلقے حیرت کا اظہار کر رہے ہیں

واضح رہے کہ طارق فاطمی گزشتہ ہفتے امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچے تھے، جہاں انہوں نے پاکستانی سفیر سمیت سفارت خانے کے حکام کے ساتھ گفتگو کی

انہوں نے 21 جولائی کو امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے ان کے دفتر میں ملاقات کی، اسی روز وینڈی شرمین نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک مختصر پیغام پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے لکھا ”میں نے وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی طارق فاطمی سے ملاقات کی تاکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بڑھا کر تعلقات کو وسعت دینے کے اہداف کے لیے ہمارے اشتراک کی توثیق کی جا سکے“

انہوں نے مزید لکھا ”امریکا مل کر کام کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے پچھتر سال کا جشن منانے کا منتظر ہے“

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا کہ ملاقات کے دوران گفتگو افغانستان، علاقائی استحکام اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں پاکستان اور دنیا بھر میں خوراک کی سلامتی پر پڑنے والے تباہ کن اثرات پر مرکوز تھی

پاکستانی سفارتخانے نے بھی اسی حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کی اور پاکستان میں میڈیا نے بھی اس ملاقات کی کوریج کی

کچھ حلقوں کی جانب سے قیاس کیا گیا کہ طارق فاطمی کو رواں سال ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا

لیکن اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب شاید بات نہ بننے پر 22 جولائی کو اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ملاقات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا

ایک نیوز بریفنگ کے دوران اس ملاقات کے ایجنڈے سے متعلق سوال پر ترجمان وزارت خارجہ نے کہا ”طارق فاطمی واشنگٹن کے ’نجی دورے‘ پر ہیں، امریکی حکام کے ساتھ ان کی ملاقات میں دفتر خارجہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا“

اس ملاقات کے حوالے سے ترجمان وزارت خارجہ کی جانب سے یہ بیان امریکی فریق کے لیے اضطراب کا سبب بنا اور واشنگٹن کے حلقوں نے تشویش ظاہر کی

امریکی دارالحکومت میں پاکستان کا ایک ایسے ملک کے طور پر تاثر ابھر رہا ہے، جہاں ملک کے اندرونی سیاسی خدشات اکثر دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر غالب آ جاتے ہیں، چاہے وہ تعلقات امریکا جیسی سپر پاور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں

امریکا میں خدمات سرانجام دینے والے دو سابق پاکستانی سفارت کاروں نے نشاندہی کی کہ ایسا دوسری بار ہوا ہے، اس سے قبل کیبل گیٹ تنازع کے دوران ایسا ہوا اور اب ایک سینئر پاکستانی عہدیدار کے واشنگٹن کے دورے کے بعد یہ معاملہ دیکھنے میں آیا ہے

دونوں سینئر پاکستانی سفارت کاروں میں سے ایک کے بقول ”پہلے واقعے میں ایک خفیہ سفارتی کیبل کا استعمال ایک ایسی حکومت کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کیا گیا جسے عدم اعتماد کے اقدام کا سامنا تھا، دوسرے معاملے میں حکومت بظاہر معیشت کی بحالی کے لیے کوششوں میں تعاون کے لیے ایک سینئر عہدیدار کو واشنگٹن بھیجتی ہے لیکن پھر اس سے انکار کر دیتی ہے، بظاہر ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ حکومت کو کچھ حلقوں کے ناراض ہونے کا خدشہ ہے“

سفارتی ذرائع نے اس مضحکہ خیز پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”سرکاری بیانات میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، تردید سمیت ایسا کچھ بھی نہیں جس کی وضاحت کی ضرورت ہو“

واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات پڑھانے والے حسن عباس نے اس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ”خاص طور پر موجودہ صورتحال میں ڈپٹی سیکریٹری کے طور پر سینئر عہدیدار سے نجی ملاقات کا امکان بہت کم ہے، ایسی ملاقاتیں ریاستی تعاون کے بغیر نہیں ہوتیں“

انہوں نے کہا ”پاکستان کا اپنا مؤقف اس طرح تبدیل کرنا ملک میں ادارہ جاتی ہم آہنگی کے بارے میں غیر ضروری سوالات ایک ایسے وقت میں اٹھاتا ہے، جب پاکستان کو معاشی استحکام اور افغانستان کے حوالے سے علاقائی پالیسی کے لیے ہر قسم کی حمایت کی ضرورت ہے‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close