پشاور میں تین بچیوں کو ریپ کے بعد پراسرار طور پر قتل کرنے والا ملزم گرفتار

ویب ڈیسک

پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ پشاور میں تین بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے

جمعرات کو پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”بچیوں سے زیادتی کا کیس ہمارے لیے چیلنج تھا۔ تیسرے وقوعہ سے ہمیں کچھ سراغ ملا۔ پہلے کے دو واقعات سے ملزم کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا“

انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے جمعرات کی صبح پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گرفتار ملزم کا تعلق پشاور کے علاقے سفید ڈھیری سے ہے، جس کا ڈی این اے جائے وقوعہ سے ملنے والے نمونوں سے میچ کر گیا ہے جبکہ ملزم نے تینوں بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

انہوں نے بتایا ”ملزم کا نام سہیل ہے اور اس کا تعلق پشاور سے ہی ہے۔ سہیل زری کا کام کرتا ہے“

ان کا کہنا تھا ”ملزم واردات کے بعد کپڑے تبدیل کرتا ہے۔ تینوں جرائم میں مماثلت اتوار کا دن تھا“

یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں گذشتہ تین ہفتوں کے دوران نو عمر بچیوں کو مبینہ طور پر پے در پے ریپ کرنے کے تین واقعات پیش آئے۔ ان میں سے دو واقعات میں مبینہ ریپ کے بعد بچیوں کو قتل کر دیا گیا تھا، جبکہ ایک کیس میں بچی زندہ حالت میں ملی تھی

یہ تینوں واقعات اتوار کے روز ہی پیش آتے تھے اور ان کے بعد شہر میں خوف و ہراس کی فضا تھی

آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا ”تین جولائی، 10 جولائی اور سترہ جولائی کو ہر واقعہ اتوار کے دن پیش آیا، یہ پولیس اور تمام شہریوں کے لیے ایک چیلنج تھا“

ان کا کہنا تھا کہ پولیس پر بہت دباؤ تھا کہ درندہ صفت ملزم کو ہر حال میں گرفتار کرنا ہے

انہوں نے بتایا ”ملزم زری کا کام کرتا ہے اور پشاور میں ہی اس کی دکان بھی ہے۔ اس نے اس بابت بھی بتایا ہے کہ وہ واردات اتوار کے روز ہی کیوں کرتا تھا“

آئی جی کے مطابق ”آخری واردات 17 جولائی کو ہوئی جہاں سے ہمیں کچھ لیڈز ملیں۔ پہلی وارداتوں میں لیڈز نہیں مل رہی تھیں۔ ان لیڈز پر ہم نے کام کرنا شروع کیا، ہزاروں گھنٹوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور ہزاروں نمبروں کی جیو فنسنگ اور سینکڑوں مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ ہوئی“

یاد رہے کہ آخری واقعہ گذشتہ ہفتے پشاور کے علاقے کالا باڑی میں پیش آیا تھا، جبکہ اس سے پہلے ہونے والے دو واقعات ریلوے کالونی اور ایک گلبرگ میں بھی پیش آیا اور یہ تمام علاقے پانچ کلومیٹر کی حدود میں واقع ہیں

اس سے قبل پولیس نے کہا تھا کہ یہ کسی ’سائکو پیتھ‘ کا کام ہو سکتا ہے

پولیس ذرائع نے رواں ہفتے بتایا تھا کہ اب تک ان کو صرف ایک بچی کی میڈیکل رپورٹ موصول ہوئی ہے، جس میں ریپ ثابت بھی ہو گیا ہے جبکہ باقی دو واقعات کی میڈیکل رپورٹ ابھی تک نہیں آئی

لرزا دینے والے واقعات

17 جولائی کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں صدر کے پرہجوم علاقے کالا باڑی میں مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد سات برس کی بچی حبہ کا گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا۔ ان کی لاش ایک مسجد کے پاس ملی تھی

اسی مسجد میں ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھے پشاور کے پچپن سالہ نسیم شاہ نے اپنی پوتی سے آخری ملاقات کو یاد کرتے ہوئے بتایا تھا ”میں تو گھر جا رہا تھا۔ اس نے کہا بابا روٹی کھا کر جانا۔ میں نے اسے دس روپے اور ایک ٹافی دی تو وہ بہت خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی۔ مجھے کیا معلوم تھا راستے میں کوئی بھیڑیا گھات لگا کر بیٹھا ہوگا“

واقعے کے دن کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ”اتوار کا دن تھا۔ میں عام طور پر اتوار کو کام پر نہیں جاتا لیکن اس دن جانا پڑا تو جلدی واپسی کا ارادہ تھا۔ جس جگہ میری ڈیوٹی تھی قریب ہی میرے بیٹے کا گھر ہے۔ میری پوتی بھی میری ڈیوٹی کی جگہ پر آ گئی۔ مجھے کہنے لگی میں کھانا لاتی ہوں، جانا نہیں۔ اس نے دس روپے مانگے تو میں نے ساتھ ایک ٹافی بھی دی۔ وہ خوشی خوشی چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد پتا چلا وہ اپنے گھر نہیں پہنچی۔ مجھے کیا معلوم تھا کوئی بھیڑیا چھپا بیٹھا ہوگا۔ ہم اسے تلاش کرتے رہے پھر معلوم ہوا کہ اس کی لاش مسجد کے ساتھ کھلی جگہ پر پڑی تھی“

بچی کے غمزدہ دادا کا کہنا تھا ”اس ظالم نے گلا گھونٹ دیا، ایک معصوم بچی کو پھانسی دے دی۔۔ کیا گزری ہوگی میری بچی پر۔۔ سوچ کر ہی دل پریشان رہتا ہے“

یہ بتاتے ہوئے نسیم شاہ کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور چہرہ چادر میں چھپا لیا اور دبی دبی سسکیوں سے رونے لگے

نسیم شاہ کے مطابق وہ چراٹ سے پشاور منتقل ہوئے تھے اور پینتیس سال سے ایم سی ایس میں بطور چوکیدار کام کر رہے ہیں

اس المناک سانحے کے بعد نسیم شاہ اب پشاور منتقل ہونے کے فیصلے پر بھی پچھتا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے ”ہمارا گاؤں تو غریبوں کا گاؤں ہے۔ سوچا تھا یہاں پشاور شہر میں زندگی بہتر ہوگی لیکن معلوم نہیں تھا کہ اپنا گاؤں تو اس سے کہیں بہتر تھا“

”اگر اس طرح کے علاقے میں ایسا کام ہوتا ہے تو اس سے تو چراٹ کے پہاڑ اچھے تھے۔ وہاں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں تو کوئی حیا نہیں، کیسے ایک بچی کو مسل ڈالا“

ایسا پہلا کیس تین جولائی کو سامنے آیا تھا، جب پشاور چھاؤنی میں واقع ریلوے کوارٹرز میں ایک دس سالہ بچی ماہ نور اس ظلم اور سفاکی کا نشانہ بنی

پولیس تھانہ شرقی (ایسٹ) میں درج ایف آئی آر کے مطابق ماہ نور کے والد نے بتایا ”چھاؤنی کے ریلوے کوارٹرز میں مَیں نے اپنی دس سالہ بیٹی کو دکان سے سودا لینے کے لیے بھیجا تھا۔ جب کافی دیر تک بچی واپس نہیں آئی تو اس کی تلاش شروع کی گئی، جس کے دوران محلے کے ایک کونے سے بچی کی نیم برہنہ لاش ملی، جس کے سر پر زخم کے تازہ نشان تھے. بچی کے گلے میں دوپٹہ موجود تھا، جس سے بچی کا گلہ گھونٹا گیا تھا“

ابھی پولیس حکام ماہ نور کیس کی تفتیش میں مصروف تھے کہ ایک ہفتے بعد 10 جولائی کو گلبرگ کے علاقے میں ایک اور واقعہ پیش آیا

پولیس تھانہ گلبرگ میں درج ایف آئی آر کے مطابق بچی کے والد نے بتایا کہ وہ اپنے فلیٹ میں موجود تھے، جب اچانک ان کی اہلیہ نے فلیٹ کی کھڑکی سے نیچے دیکھا تو ان کو بچی زمین پر گری نظر آئی، جب بچی کے والد فوری طور نیچے پہنچے تو ان کی پانچ سالہ بیٹی نیم برہنہ حالت میں بے ہوش پڑی تھی۔بچی کو ہسپتال منتقل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچی کے ساتھ ریپ کیا گیا ہے

بچی کے والد نے بتایا ”میں ایک پسماندہ علاقے سے روزگار کے لیے پشاور آیا تھا۔ میرا ایک بیٹا اور بیٹی اور بھی ہیں اور اب خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی بچوں کو اپنے آپ سے دور نہیں دیکھ سکتے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close