ناراض بلوچوں کا اسلحے کے زور پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا: حکومت

ویب ڈیسک

حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم شاہ نے کہا کہ صوبے میں ہونے والے حالیہ بد امنی کے واقعے میں سکیورٹی فورسز کے افراد پر حملہ ہوا اور اس کے بعد اس کو لاپتہ افراد کے مسئلے سے منسلک کیا گیا

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ زیارت میں لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کے کزن کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کا دھرنا شروع ہوا

انہوں نے مزید کہا کہ لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور ان کے کزن کے قتل کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گیا

انہوں نے کہا ’ہم لاپتہ افراد کی تو بات کرتے ہیں لیکن ہم ان شہدا کی بات کب کریں گے؟ کیا ان کے گھر والے یا ماں باپ نہیں ہیں؟‘

ترجمان بلوچستان حکومت فرح عظیم شاہ نے کہا: ’ناراض بلوچ بھائی بھول جائیں کہ وہ اسلحے کے زور پر کوئی مسئلہ حل کرسکتے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان کی مثال سب کے سامنے ہے، بات چیت کے ذریعے ہی ہر مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے

فرح عظیم شاہ کا کہنا تھا ’ہم، یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ، وزیراعظم اور صدر مملکت بھی اپنے عہدوں پر فائز ہیں تو صرف اور صرف عوام کی ترقی اور تحفظ کے لیے ہیں۔‘

فرح عظیم شاہ نے زیارت کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’ظہیر نامی شخص اتنے سالوں کے بعد آکر کہتے ہیں کہ وہ ایران کی جیل میں تھے۔ یہاں ماما قدیر جیسے لوگ ریاست اور اس کے ان اداروں پر الزام تراشی کررہے ہیں جن کی وجہ سے ہم رات سکون کی نیند سوتے ہیں۔‘

فرح شاہ کے بقول: ’چند لوگ بیرونی سازشوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ان سازشوں کو سمجھیں۔ سازشوں کا آلہ کار بننے سے ان کی اپنی سرزمین کا نقصان ہورہا ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان فوج نے 14 جولائی کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں بتایا گیا کہ زیارت سے کوئٹہ واپس جانے والے مقتول لیفٹیننٹ کرنل لئیق مرزا بیگ کو 10 سے 12 ’دہشت گردوں‘ کے ایک گروپ نے اغوا کیا۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ڈی ایچ اے کوئٹہ میں خدمات انجام دینے والے آرمی افسر لئیق اپنے کزن کے ہمراہ زیارت میں قائد اعظم کی تاریخی رہائش گاہ دیکھنے کے بعد واپس کوئٹہ آ رہے تھے جب انہیں اغوا کیا گیا۔

بیان کے مطابق: ’معلومات ملنے پر آرمی کی فوری ری ایکشن فورس بھاگنے والے دہشت گردوں کے پیچھے تعقب میں گئی۔ پھر ان کا منگی ڈیم کے قریب ٹھکانے کا سراغ لگایا گیا۔‘

سکیورٹی فورسز نے ایس ایس جی دستوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سوچا سمجھا سرچ آپریشن شروع کیا۔ 13 اور 14 جولائی کی درمیانی شب کو چھ سے آٹھ دہشت گردوں کے ایک گروپ کو سکیورٹی فورسز کی ایک ٹیم نے قریبی پہاڑوں میں ایک نالے میں جاتے ہوئے دیکھا

بلوچستان میں زیارت آپریشن میں ہلاک ہونے والے نو افراد میں ایک شخص کو انجینیئر ظہیر احمد کے طور پر شناخت کیا گیا تھا

انجینیئر ظہیر احمد زندہ ہیں اور انہوں نے جمعرات کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ایران میں گرفتار ہونے کے بعد ایرانی سکیورٹی فورسز کی حراست میں تھے

بیان میں مزید کہا گیا کہ ممکنہ گھیرے کا احساس ہونے پر حملہ آوروں نے لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کو گولی مار دی اور فرار ہونے کی کوشش کی۔ فائرنگ کے تبادلے میں دو حملہ آور مارے گئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close