افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بین الااقوامی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ یا آئی سی سی) اس معاملے پر سولہ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ’ابتدائی مراحل‘ میں ہے، جس کی ایک وجہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی بدولت پیدا ہونے والا سفارتی تعطل ہے
جرمنی اور افغانستان میں کام کرنے والے غیر جانبدار ادارے افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک کی حال ہی میں جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق بین الااقوامی فوجداری عدالت نے سولہ سال قبل افغانستان میں ہونے والے جنگی جرائم کا جائزہ لینا شروع کیا تھا لیکن یہ جائزہ ابھی تک ’ابتدائی مراحل‘ میں ہے
دس ماہ قبل آئی سی سی کے وکیل استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا کہ عدالت اس تفتیش کو جلد مکمل کرنے کی منظوری دے
رپورٹ کے مطابق بین الااقوامی عدالت کے جج اس مخمصے میں ہیں کہ اس وقت افغانستان کی نمائندگی کون کر رہا ہے اور کیا سابقہ افغان حکومت کی جانب سے جاری کردہ درخواست، جس میں اس تفتیش کو موخر کرنے کا کہا گیا تھا، ابھی تک قانونی حیثیت رکھتی ہے؟ سابقہ انتظامیہ نے موقف اپنایا تھا کہ ملک کے اندر ان واقعات کے حوالے سے اندرونی تحقیقات کی جا رہی ہیں
اگست 2021 سے افغانستان میں طالبان کی حکومت ’امارات اسلامی‘ قائم ہے، جسے عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا لیکن دنیا بھر کے کئی ممالک میں ابھی تک افغانستان کی نمائندگی وہی سفارتی عملہ کر رہا ہے جو سابقہ حکومت نے تعینات کیا تھا
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بین الااقوامی فوجداری عدالت کے استغاثہ کریم خان اگست 2021 میں اشرف غنی حکومت کی اس درخواست پر غور کر رہے تھے جو انہوں نے اس تفتیش کو موخر کرنے کے لیے دائر کی تھی لیکن اسی دوران ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ستمبر 2021 تک ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم نے ابھی تک اس بارے میں ’حتمی فیصلہ‘ نہیں کیا کہ وہ اشرف غنی انتظامیہ کے اس موقف کو تسلیم کریں گے کہ افغانستان میں اندرونی طور پر ان واقعات کی تحقیق کی جا رہی تھی
کریم خان کے مطابق اس حوالے سے افغانستان کی ریاست سے مزید شواہد کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کی وضاحت ہو سکے کہ افغان انتظامیہ نے اس حوالے سے کافی معلومات فراہم کی ہیں
ابھی تک نیدرلینڈز میں واقع افغان سفارت خانہ آئی سی سی اور افغانستان کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ افغانستان اور بین الااقوامی فوجداری عدالت کے درمیان بامعنی رابطے جو 2016 میں قائم ہوئے تھے، تب سے اب تک رابطوں کا کام نیدرلینڈز میں موجود یہ سفارت خانہ ہی سرانجام دیتا رہا ہے
افغان سفارت خانہ اور بین الااقوامی فوجداری عدالت دونوں ہی دی ہیگ شہر میں واقع ہیں۔ سابقہ حکومت سے کیے گئے معاہدے کے مطابق عدالت اسی سفارت خانے کے ذریعے کابل سے رابطہ رکھے گی۔ تین ستمبر 2021 کو عدالت کے استغاثہ نے تفتیش کے آغاز سے متعلق درخواست کے حوالے سے افغانستان سفارت خانے کو ہی آگاہ کیا تھا
بین الااقوامی فوجداری عدالت میں کی جانے والی تفتیش میں پری ٹرائل چیمبر کے ججز اہم کردار ادا کرتے ہیں، جس میں آئی سی سی استغاثہ کو کسی تحقیق کو جاری رکھنے کی منظوری دینا بھی شامل ہے
اپریل 2019 میں پری چیمبر ٹرائل کے ججز نے سابق استغاثہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں انہوں نے افغان تنازعے میں مبینہ جنگی جرائم کا ذمہ دار افغان فورسز، طالبان، حقانی نیٹ ورک، امریکی فوج اور سی آئی کو قرار دیا تھا تاہم مارچ 2020 میں اپیل چیمبر نے پری چیمبر ٹرائل ججز کے اس فیصلے کو واپس لے لیا تھا لیکن تفتیش شروع ہونے سے قبل ہی صابق صدر اشرف غنی کی حکومت نے اس تفتیش کو موخر کرنے کی درخواست دائر کر دی تھی
سابق افغان حکومت نے یہ درخواست روم سٹیچو کی شق 18 (دو) کے تحت دائر کی تھی
یاد رہے کہ اس حوالے سے اشرف غنی انتظامیہ نے موقف اپنایا تھا کہ اس معاملے میں عدالت کی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسانیت کے خلاف ان جنگی جرائم کی تحقیق افغانستان میں اندرونی طور پر کی جا رہی تھی
بین الااقوامی فوجداری عدالت کے ضوابط کے مطابق ان جرائم کے خلاف تحقیق کی بنیادی ذمہ داری متعلقہ ریاست کی ہے۔ افغان انتظامیہ نے اپنی درخواست کی حمایت میں ہزاروں صفحات کی دستاویزات پیش کی تھیں، جو دری اور پشتو زبان میں تھیں
ان دستاویزات میں ایک سو اسی ایسے واقعات کا ذکر تھا، جن کے حوالے سے تفتیش کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا
گذشتہ سال حکومت میں آنے کے بعد طالبان نے بین الااقوامی عدالت سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ گو کہ نیدرلینڈز میں واقع افغان سفارت خانہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کو غیر سرکاری طور پر اس بات سے مطلع کر چکا ہے کہ استغاثہ نے ان واقعات کی تفتیش کو دوبارہ شروع کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔
عدالت میں افغانستان کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟
بین الااقوامی فوجداری عدالت کے ججز چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر افغانستان کی جائز حکومت سے رابطہ کریں، تاہم عدالت اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتی کہ افغانستان کی نمائندگی کرنے کا حق کس کو حاصل ہے
تاہم نیدرلینڈز میں واقع افغان سفارت خانے کو معاہدے میں رابطے کا باضابطہ ذریعہ تسلیم کرنے کے باوجود حیثیت نہ دینا ججز کی جانب سے ایک ایسی سیاسی سوچ کا اظہار ہے جو ان کے مینڈیٹ کا حصہ نہیں ہے۔ روم سٹیچو کے مطابق ’کسی بھی ریاست کے ساتھ رابطہ اس کے نامزد کردہ سفارتی ذریعے سے ہی کیا جانا چاہیے۔‘
استغاثہ اور رجسٹرار کا موقف
عدالت کے ججز کے برعکس آئی سی سی کے استغاثہ اور رجسٹرار دونوں کا ماننا ہے کہ نیدرلینڈز میں واقع افغان سفارت خانہ ہی حکومت کے ساتھ رابطے کا مناسب ذریعہ ہے
گذشتہ ستمبر میں کی جانے والی اپنی درخواست کے مطابق کریم خان نے افغان سفارت خانے کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ وہ ان تحقیقات کی بحالی کی دررخواست کرنے جا رہے ہیں۔ افغان سفارت خانے کے ایک عہدیدار نے بھی ان کی جانب سے یہ اطلاع موصول ہونے کی تصدیق کی ہے
استغاثہ کے مطابق موجودہ حالات میں اس حوالے سے پایا جانے والا ابہام اس معاملے کی قانونی حیثیت کو متاثر کر رہا ہے
بین الااقوامی قوانین اور حکومت کو تسلیم کیے جانے کا معاملہ
بین الااقوامی قانون کے مطابق کسی ملک میں حکومت کی تبدیلی اس ملک کی تسلیم شدہ قانونی حیثیت کو تبدیل نہیں کرتی۔ بین الااقوامی فوجداری عدالت کے جج بھی اس اصول سے واقف ہیں۔ کسی بھی نئی ریاست کو تسلیم کیا جانا نئی حکومت کو تسلیم کیے جانے سے مختلف معاملہ ہے
بین الااقومی قانون میں کسی نئی ریاست کو تسلیم کیے جانے سے متعلق چند مفروضوں پر مبنی ضوابط موجود ہیں لیکن کسی نئی حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق کوئی شق وجود نہیں رکھتی
افغانستان میں ہونے والے ان جنگی جرائم کی اندرون ملک تحقیقات کے حوالے سے کابل میں موجود صحافی احمد(سکیورٹی مسائل کی وجوہات پر مکمل نام نہیں ظاہر کیا جا رہا) نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان میں تمام فریقین جن میں امریکی اور نیٹو افواج، سابقہ حکومتی افواج، طالبان اور داعش ان جرائم میں ملوث رہے ہیں لیکن کوئی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔‘
احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’سابقہ حکومت کے دوران طالبان بھی کئی حملوں میں ملوث رہے اور بعد میں سامنے آنے والے شدت پسند گروہ داعش نے بھی کئی حملے کیے ہیں۔‘
احمد کے مطابق ملک کے اندر ہونے والی یہ تحقیقات بھی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں کیونکہ جج اور سماجی کارکن اپنی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا شکار ہیں۔ جب کہ میڈیا چینلز اور صحافی بھی کھل کر مسائل کو بیان نہیں کر سکتے۔‘
جمعے کو کابل کے اسٹیڈیم میں ہونے والے دھماکے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیا اس دھماکے سے جڑے حقائق کو بھی آزادانہ طریقے سے بیان نہیں کر سکا کیونکہ ان پر انتظامیہ کا دباؤ ہے اور صرف وہی خبریں جاری کی جاتی ہیں جو انتظامیہ کے موقف پر مبنی ہوتی ہیں‘
متاثرین کیا کہتے ہیں؟
ایک جانب بین الااقوامی فوجداری عدالت جب ’افغانستان کے جائز حکمرانوں‘ کی تلاش میں مصروف ہے، وہیں دوسری جانب یہ طویل انتظار ان جرائم کے متاثرین کی تکلیف میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے
بین الااقوامی فوجداری عدالت کی رجسٹری نے پانچ مہینوں کے دوران ان جرائم کے متاثرین سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی تاکہ افغانستان کی اندرونی تحقیقات کے حوالے سے ان کا موقف معلوم کیا جا سکے۔ یہ دوسرا موقع تھا جب اس عدالت نے ان متاثرین کو سنا اور ان کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ عدالت میں کسی بھی کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے یہ قدم اٹھانا ضروری تھا۔ عدالت کی جانب سے جنوری 2018 میں متاثرین سے پہلی بار رابطوں کے دوران چھ ہزار سے زائد متاثرین نے ان تحقیقات کو مکمل کرنے کی حمایت کی تھی
رپورٹ کے مطابق 24 اپریل 2022 کے اس دوسرے مرحلے کے دوران 11 ہزار 150 مزید متاثرین اور 130 خاندانوں نے عدالت کو ان تحقیقات کو جاری رکھنے کی اجازت دی تھی
رپورٹ میں متاثرین سے منسوب بیان میں کہا گیا کہ ’آئی سی سی ہی افغان جنگ کے جنگی جرائم متاثرین کے لیے انصاف کی واحد عدالت ہے۔‘ متاثرین چاہتے ہیں کہ یہ تحقیقات ’فوری طور پر بحال کی جائیں اور انہیں جاری رکھا جائے۔‘
افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے مراحل کو 2006 سے 2017 کے ابتدائی مرحلے اور اس کے بعد کے سالوں میں تقسیم کیا گیا تھا
لیکن 2019 میں پری ٹرائل چیمبر نے درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا تھا کہ ابتدائی مرحلے کی تحقیق میں کامیاب تفتیش کرنے اور مجرموں کو تعین کیے جانے کے امکانات بہت کم تھے۔ اس فیصلے کو 2020 میں ایک اپیل کے بعد تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن اسی دوران افغانستان کی سابق حکومت نے تحقیقات کو موخر کرنے کی درخواست دائر کر دی تھی
لیکن اب بین الااقوامی فوجداری عدالت کے استغاثہ اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس تفتیش کو بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ صرف طالبان اور داعش خراسان کے جرائم سے متعلق ہو گی۔ اس کے باوجود عدالت کے جج دس ماہ سے اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے، جس کے باعث یہ تحقیقات گذشتہ سولہ سال سے مسلسل تاخیر کا شکار ہیں۔