سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے قریب دریائے سندھ پر بنے قدیم سکھر بیراج میں گذشتہ کئی دنوں سے تیرتی ہوئی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سکھر پولیس کے مطابق گذشتہ آٹھ دنوں کے دوران سکھر بیراج میں تیرتی ہوئی ملنے والی لاشوں کی تعداد ستائیس ہو چکی ہے
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس سکھر ریجن جاوید جسکانی نے اتوار کو پاکستان کی مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا ”گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سکھر بیراج کے دروازوں کے پاس تیرتی ہوئی بارہ لاشیں ملی ہیں، جن میں بیشتر لاشیں ناقابلِ شناخت تھیں“
پولیس کے مطابق ملنے والی ستائیس لاشوں میں سے تین لاشیں ہندو خواتین کی تھیں
اس حوالے سے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سکھر سنگھار ملک کا کہنا ہے ”اتوار کو ملنے والی لاشوں میں سے ایک لاش ایک ہندو خاتون کی تھی، جن کو ان کی موت کے بعد عقیدے کے مطابق دفنانے یا جلانے کے بجائے پانی میں بہا دیا گیا تھا۔ اور پولیس کی جانب سے مکمل تصدیق کرنے کے بعد اس لاش کو دوبارہ پانی میں بہا دیا گیا“
سنگھار ملک نے بتایا ”ملنے والی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھیجا گیا، جس کے بعد ایدھی کے امدادی ادارے کے حوالے کر دیا گیا تاکہ ان کو امانتاً دفنایا جا سکے کیونکہ جن لاشوں کی شناخت نہیں ہوتی انہیں امانتاً دفنایا دیا جاتا ہے“
ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک کی جانب سے سکھر بیراج میں ملنے والی لاشوں کے بعد اعلیٰ حکام کے لیے بنائی جانے والی رپورٹ کے مطابق موجودہ وقت میں دریائے سندھ میں طغیانی ہے اور کچے میں سیلابی صورت حال ہے، جس کے باعث ممکنہ طور پر کچے کے قبرستانوں سے لاش بہہ کر سکھر بیراج پہنچی ہونگی
دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر مٹی کی دیواروں سے بڑے بند بندھے ہوئے ہیں تاکہ جب دریا میں طغیانی ہو تو دریا کا پانی باہر نکل کر سیلاب کا سبب نہ بنے۔ ان دیوار نما بندوں کے درمیان دریا کا فاصلہ کہیں زیادہ چوڑا تو کہیں کم ہو جاتا ہے
دونوں کناروں پر موجود ان بندوں کے درمیاں کئی جگہ پر بائیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے، جیسے دریا سندھ کے دائیں جانب موجود شمالی سندھ کے ضلع شکارپور کی تحصیل خان پور اور دریا کے بائیں جانب سکھر کی تحصیل پنوعاقل سے لگنے والے کنارے کا فاصلہ بائیس کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ کہیں دریا کے دونوں بندوں کے درمیان کا فاصلہ فقط دو کلومیٹر ہے جیسے سیہون کے قریب لکی شاہ صدر کے مقام پر ہے
واضح رہے کہ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر موجود دیوار نما ان بندوں کے درمیان والے علاقے کو کچے کا علاقہ کہا جاتا ہے
کچے کی اس زرخیز زمین پر سندھ اور پنجاب میں زراعت کی جاتی ہے۔ کچے کے علاقے میں زراعت سے منسلک کسانوں کے متعدد دیہات کچے یہاں مستقل پائے جاتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں لوگ رہتے ہیں
کچے کی ان بستیوں میں رہنے والے لوگوں نے یہاں قبرستان بھی بنا رکھے ہیں۔ پولیس رپورٹ کے مطابق سیلابی صورت حال کے بعد کچے کے ان قبرستانوں سے ممکنہ طور پر لاشیں نکل کر بہتی ہوئی سکھر بیراج تک چلی گئی ہیں
ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک کی مرتب کردہ پولیس رپورٹ کے مطابق ان لاشوں میں کچھ لاشیں طبی موت مرنے والے ہندوؤں اور سکھوں کی بھی ہوسکتی ہے جنہیں مذہبی عقیدے کے مطابق مرنے کے بعد ان کے لواحقین دفنانے کے بجائے پانی میں بہا دیتے ہیں
کیا ہندو دھرم میں مرنے والوں کو پانی میں بہانے کا رواج ہے؟ یہ جاننے کے لیے کراچی کے اڈیرو لال مندر کے شیوادھاری اور پنڈت گوسوامی مہاراج وجے بتاتے ہیں ”ہندو مذہب کے عقیدے میں مرنے والوں کی ’اگنی سنسکار‘ یا جلانے کی رسم عام ہے“
ان کے مطابق ”جلانے کے علاوہ ہندو دھرم کے عقیدے کے مطابق ’جل گھاٹ‘ یا جل ارپن یعنی مُردے کو بہتے پانی میں بہا دینے کی رسم بھی موجود ہے۔’جل گھاٹ‘ بھی ہندو دھرم میں ’کریا کرم‘ یعنی آخری رسومات کا ایک حصہ ہے۔ لیکن بھارت کی طرح پاکستان میں ندیوں کی بہتات نہیں ہے کہ یہ رسم ادا کی جائے۔ سندھو ندی ہی واحد بڑی ندی ہے مگر اس میں بھی پانی نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان میں ’جل گھاٹ‘ یا ’جل ارپن‘ کم ہوتا ہے“
اس حوالے سے یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ لاشوں کی اکثریت الٹنے والی کشتی سواروں کی ہیں
یاد رہے کہ 18 جولائی کو پنجاب کے علاقے مچھکو کے قریب دریائے سندھ میں باراتیوں کی ایک کشتی دریائے سندھ میں الٹنے سے بیس افراد ہلاک ہو گئے اور تیز افراد لاپتہ ہوگئے۔ جن میں اکثریت خواتین کی تھی
حکام کے مطابق کشتی میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ بتائی جا رہی ہے اور وہ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے
سکھر بیراج پر نامعلوم لاشیں اور تھانوں کی حدود کا تنازع
سکھر کے مقامی لوگوں کے مطابق مون سون بارشوں کے بعد جب سکھر بیراج پر سیلابی صورت حال ہوتی ہے تو اس وقت تیرتی ہوئی لاشیں ملتی ہیں اور لاشوں کے ملنے کا یہ سلسلہ گذشتہ کئی کئی سالوں سے جاری ہے
ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک کے مطابق اس طرح کی نامعلوم افراد کی لاشیں ہرسال تیرتی ہوئی سکھر بیراج میں نظر آتی ہیں۔ گذشتہ سال سکھر بیراج سے اکتیس لاشیں ملیں تھیں
سکھر کے سینیئر صحافی ممتاز بخاری کے مطابق دو سال قبل سکھر بیراج سے چھتیس لاوارث لاشیں ملی تھیں
ممتاز بخاری کے مطابق سکھر بیراج پر ملنے والی لاشوں میں سے کچھ لاشیں ممکنہ طور پر اس کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی ہوسکتی ہیں
واضح رہے کہ 1932 میں تعمیر ہونے والا سکھر بیراج دریائے سندھ پر بننے والا پہلا بیراج ہے۔ جس کے کُل 66 دروازے ہیں
سکھر بیراج کے یہ 66 دورازے سکھر ضلع کے دو پولیس تھانوں کے حدود میں بٹے ہوئے ہیں
ممتاز بخاری کہتے ہیں ”گیٹ نمبر ایک سے 34 تک سکھر شہر کے تھانے اے سیشن کی حدود میں آتا ہے جبکہ گیٹ نمبر 35 سے گیٹ نمبر 66 تک روہڑی تھانے کی حدود میں آتے ہیں
سکھر میں عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ دونوں تھانوں کے درمیان تنازعے کے باعث سکھر بیراج میں تیرتی ہوئی لاشوں کو نہیں نکالا جاتا
امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان سراج الحق نے ہفتے کی شام کو سکھر بیراج پر تیرتی ہوئی لاشوں کی وڈیو اپنے ٹوئٹر اور فیسبک پر وڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ”آج سکھر بیراج سےگزرنا ہوا۔ تین دنوں سے یہاں تین لاشیں تیر رہی ہیں۔ اور تھانہ روہڑی اور تھانہ سکھر میں حدود کےاختلاف کی وجہ سے اب تک ان لاشوں کو نکالا نہیں جاسکا۔ کیسا خراب طرزحکمرانی اور سنگدلی ہے“
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس سکھر ریجن کے تعلقات عامہ کے عہدیدار فرحان سرور اس بات کو رد کرتے ہیں
ان کے مطابق ”ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ایسا تب ہو جب پانی میں کہیں سے تیر کر آنے والے لاش کو باہر نکالنا پولیس کا کام ہو۔ یہ کام ضلعی انتظامیہ، سول ڈیفینس یا پھر محکمہ آبپاشی کا ہے، جن کا بیراج پر کنٹرول ہے“
انہوں نے کہا ”پولیس لاش پانی سے باہر نکلنے کے بعد اس کا پوسٹ مارٹم کرانے یا تفتیش کرنے کی پابند ہے۔ مگر اس وقت کوئی شعبہ نہیں نکال رہا تو مجبوری میں پولیس لاشیں نکال رہی ہے۔ اس وقت سکھر میں کوئی سرکاری غوطہ خور نہیں ہیں۔ اس لیے کچھ نجی افراد کو رقم دے کر لاش نکالی جاتی ہے“
تھانوں کی حد بندی کو 1978 میں فوت ہونے والے سندھی زبان کے نثر نویس نسیم کھرل نے اپنی ایک کہانی ”چوٹیہوں در“ (چونتیسواں دروازہ) میں ایک ایسی ہی کہانی میں بیان کیا تھا۔ جس میں بیراج کا پانی ناپنے والے گیج ریڈر کو ایک ایسی ہی لاش گیٹ نمبر 34 پر دکھائی دیتی ہے تو وہ ایک تھانے کو اطلاع کرنے جاتے ہیں، تب تک لاش پانی میں بہہ کر دوسری تھانے کی حد والے دروازے میں چلی جاتی ہے۔ جس پر دوسرا تھانا بھی ان کی فریاد نہیں سنتا اور تنگ آکر گیج ریڈر گیٹ کھول کر لاش کو بہا دیتا ہے
سکھر بیراج کے قریب دریا کے کنارے لب مہران کے مقام سے متصل ایک جگہ کا نام لانچ موڑ ہے، جہاں مقامی لوگوں کے مطابق ماضی میں محکمہ آبپاشی کی لانچیں رکھی جاتی تھیں ایسی کسی ایمرجنسی میں استعمال کیے جاتے تھے
سوشل میڈیا پر ایک وائرل وڈیو میں دیکھا گیا ایک مقامی صحافی ایک غوطہ خور کا انٹرویو لے رہا ہے، جس میں مقامی غوطہ خور محمد علی میرانی نے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیراج میں تیرتے ہوئے لاشیں نکال رہے ہیں اور انہیں پولیس کی جانب سے کچھ رقم دی جاتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کو سرکاری غوطہ خور کے طور ہر نوکری دی جائے
اس وڈیو کے بعد صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو کا کہنا ہے ”میں نے وائرل وڈیو دیکھی ہے اور محمد علی میرانی کو سرکاری غوطہ خور مقرر کردیا گیا ہے“
جب ان سے پوچھا گیا کہ بیراج محکمہ آبپاشی کے زیرانتظام ہے تو وہاں غوطہ خور اور کوئی لانچ کیوں نہیں ہے؟ جس پر انھوں نے کہا کہ یہ معلومات ان کے پاس فی الحال نہیں ہے، وہ جلد ہی معلومات لیں گے۔