ماہانہ تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار روپے بجلی کا بل ادا کرنے والے صدر ٹاون کراچی کے رہائشی سعید سربازی کو جولائی کے مہینے کا بل آٹھ ہزار روپے موصول ہوا۔ سعید سربازی وائٹ کالر جاب کرتے ہیں اور ان کے گھر میں بجلی کا استعمال بھی زیادہ نہیں
ان کے گھر میں صرف وہ اور ان کی بیوی ہی رہتے ہیں۔ ایک فریج، دو پنکھے، دو تین بلب اور ہفتے میں ایک دو مرتبہ استری اور واشنگ مشین استعمال ہوتی ہے
سعید کے لیے جولائی کے مہینے کا بجلی کا بل بہت زیادہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں ”میرے گھر میں جولائی کے مہینے میں 297 یونٹ بجلی استعمال ہوئی تھی تاہم آٹھ ہزار روپے بل بہت زیادہ ہے“
اسلام آباد میں رہائش پذیر نوید زمان بھی جولائی کے مہینے کے بل سے بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ انہوں نے بتایا ”میرا جولائی کا بل تیرہ ہزار روپے سے زائد رہا“
نوید زمان کا کہنا ہے ”گزشتہ مہینے 378 یونٹ بجلی استعمال کرنے پر میرا بل 10605 روپے آیا تھا اور جولائی کے مہینے میں مَیں عید پر گاؤں گیا تو ایک ہفتہ میرا گھر بند رہا اور بجلی کا استعمال 343 رہا تاہم میرے بجلی کے بل میں اضافہ ہوا جو تیرہ ہزار سے اوپر چلا گیا“
نوید زمان کہتے ہیں ”گھر میں ایک اے سی، ایک فریج اور دو تین پنکھے چلتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جولائی کے مہینے میں اے سی کا استعمال بھی زیادہ نہیں رہا تاہم پھر بھی بل زیادہ رہا“
کراچی میں جوس کارنر چلانے والے یاسر بھی بجلی کا بل زیادہ آنے پر خاصے پریشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا جولائی کا بل تو زیادہ آیا ہے تاہم اس کے ساتھ ان کے بل میں تین ہزار ریٹیلر ٹیکس بھی لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انہیں زیادہ اضافی بل ادا کرنا پڑا
پنجاب کے ضلع میانوالی کے خان زمان نے بتایا کہ ان کی دکان کے بجلی کے بل کے ساتھ بھی تین ہزار روپے ریٹیلر ٹیکس لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان کا بجلی کا بل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے
پاکستان بھر میں بجلی کے صارفین جولائی کے مہینے میں بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق بجلی کے بلوں میں ہونے والا اضافہ جولائی کے مہینے کے بل میں ہوا جبکہ اس مہینے انہوں نے بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کو بھی برداشت کیا
پاکستان میں بجلی کے شعبے کے امور کے تجزیہ کار بل میں اضافے کی مختلف وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں سب سے بنیادی فرق فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج نے ڈالا، جس کی وجہ سے جولائی کے بل بہت زیادہ آئے
فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج سے بجلی کے بل میں کتنا اضافہ ہوا؟
پاکستان میں بجلی کے شعبے کے امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئیر صحافی خلیق کیانی کہتے ہیں ”جولائی کے مہینے کے بل میں تقریباً فی یونٹ آٹھ روپے کا فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج نظر آیا، جس کی منظوری نیپرا نے دی تھی“
انہوں نے کہا ”بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمدی فیول جیسے گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس اضافے کو فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کی صورت میں صارفین سے وصول کیا گیا“
توانائی کے شعبے کے ماہر فرحان محمود کہتے ہیں ”پاکستان میں بجلی کی پیداوار مہنگی ہوئی اور اپریل اور مئی کے مہینوں کی فیول کاسٹ کو جولائی کے مہینے میں وصول کیا گیا، جس کی وجہ سے بجلی کے بل میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا“
فرحان محمود نے بتایا ”گزشتہ چند مہینوں میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی تھی کیونکہ ڈیموں میں پانی کم تھا اس لیے درآمدی ایندھن پر زیادہ انحصار کرنا پڑا، جو پچاس سے ساٹھ فیصد بجلی کوئلے، گیس اور فرنس آئل سے بنانا پڑی جو بیرون ملک مہنگی ہونے کی وجہ سے پاکستان کو مہنگی پڑی“
اس کے ساتھ روپے کی قیمت میں کمی کی وجہ سے اس کی لاگت مزید بڑھ گئی تھی اور اس سارے کا اثر فیول ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں بجلی کے بلوں میں نظر آیا
◼️ سبسڈی کے خاتمے کی وجہ سے بجلی کتنی مہنگی ہوئی؟
خلیق کیانی نے نئی حکومت کی جانب سے بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کو بھی جولائی کے بلوں میں اضافے کی وجہ قرار دیا
انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پیٹرول و ڈیزل پر دی جانے والی سبسڈی کے ساتھ بجلی پر بھی پانچ روپے فی یونٹ سبسڈی کا اعلان کیا تھا تاہم نئی حکومت آنے کے بعد اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے دباؤ پر بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کا بھی خاتمہ کیا گیا، جس کی وجہ سے بیس ٹیرف میں اضافہ ہوا اور جولائی کے بلوں میں سبسڈی کے خاتمے کا بعد کا اثر نظر آیا
یاد رہے کہ مارچ میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے بجلی پر سبسڈی کے بعد بیس ٹیرف 16 روپے فی یونٹ سے گر کر گیارہ روپے فی یونٹ ہو گیا تھا
فرحان محمود نے بتایا کہ سابقہ حکومت نے بجلی کے بنیادی نرخ کو منجمد کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اس وقت بجلی کے بلوں میں کچھ کمی دیکھی گئی تھی، تاہم موجودہ حکومت نے جب سبسڈی کا خاتمہ کیا تو اس کا ایک واضح اثر بھی بجلی کے بل میں نظر آیا اور جولائی کے بل میں کم یونٹ کے استعمال کے باوجود زیادہ ادائیگی کرنا پڑی
بجلی کے بلوں میں ریٹیلر ٹیکس کیا ہے؟
دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کے جولائی کے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج اور سبسڈی کے خاتمے میں آنے والے اضافے کے ساتھ تین ہزار روپے ریٹیلر ٹیکس بھی لگ کر آیا، جس کی وجہ سے انہیں زیادہ بل ادا کرنا پڑا
خلیق کیانی نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں ریٹیلر ٹیکس کا اعلان کیا گیا تھا، جو اب جولائی کے مہینے میں لگ کر آیا جس کی وجہ سے کمرشل میٹروں پر بجلی کے بل میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا
انھوں نے کہا کہ حکومت چھتیس ہزار روپے سالانہ اور تین ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ریٹیل سطح پر فل اینڈ فائنل ٹیکس لینا چاہتی ہے، جس کی شروعات جولائی کے بل میں کی گئی ہے
واضح رہے کہ پاکستان میں تاجر تنظیموں کی جانب سے اس ٹیکس کے نفاذ اور اسے بجلی کے بل کے ساتھ وصول کرنے کے خلاف احتجاج جاری ہے اور حکومت سے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے
بجلی کیا مزید مہنگی ہوگی؟
پاکستان میں جولائی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کے بعد آنے والے مہینوں میں بجلی کے بل میں مزید اضافے پر خلیق کیانی نے بتایا کہ جون کے مہینے کا فیول ایڈجسٹمنٹ ابھی وصول کرنا باقی ہے، جو آنے والے مہینے میں ہوگا، تاہم اس کے ساتھ اب بجلی کے بیس ٹیرف یعنی بنیادی نرخ میں بھی اضافہ اگلے چند مہینوں میں بلوں میں اضافی رقم کی صورت میں نکلے گا
انہوں نے بتایا کہ کہ 26 جولائی سے 3.50 روپے فی یونٹ بیس ٹیرف کا اطلاق ہو گیا ہے، جو اگست کے بلوں میں نظر آئے گا اسی طرح 3.50 روپے فی یونٹ کے ایک اور اضافے کا اطلاق اگست کے مہینے میں ہو گا جو ستمبر کے بلوں میں نظر آئے گا
پھر ایک اور اضافہ ستمبر، اکتوبر میں ہوگا جس سے ملک میں بیس ٹیرف میں اضافہ ہوگا اور یہ بجلی کے بل میں اضافے کا سبب بنے گا
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ 17 فیصد کے حساب سے لگنے والا سیلز ٹیکس بھی نئے اضافی ٹیرف کی وجہ سے صارفین کے لیے بجلی کو مہنگا کرے گا
فرحان محمود نے بتایا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کا اثر اکتوبر تک نظر آئے گا، جب صارفین سے فیول کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ بل وصول کیا جائے گا
انہوں نے کہا کہ کیونکہ اب بارشیں ہو رہی ہیں اور پانی سے بجلی زیادہ پیدا ہوگی اس لیے بجلی کی پیداوار میں پن بجلی کا حصہ بڑھنے سے بجلی کی پیداوار کی مجموعی لاگت میں تھوڑی سی کمی اکتوبر کے بعد ہوگی، تاہم حکومت کی جانب سے بیس ٹیرف کو مرحلہ وار بڑھانے سے بجلی کے بلوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں
خلیق کیانی نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں گیس، کوئلے اور فرنس آئل کی زیادہ قیمت کی وجہ سے حکومت کو بجلی کی پیداوار کی بڑھی ہوئی لاگت لوگوں کو منتقل کرنی پڑ رہی ہے تاہم اس سے بجلی کی چوری بھی بڑھے گی
انہوں نے کہا کہ اگر بجلی کی قیمت میں یوں ہی اضافہ جاری رہا تو اندازوں کے مطابق پاکستان کی مزید بیس سے پچیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے چلی جائے گی۔