ہمارے موبائل فون صرف رابطے کا ذریعہ نہیں رہے بلکہ ان کی اندرونی یادداشت (انٹرنل میموری) میں ہماری نجی زندگی، خاندان، کاروبار اور مالی رازوں کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس چھوٹی لیکن اہم ڈیوائس کی حفاظت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
ایک دہائی قبل تک موبائل فون کے خریداروں کی تشویش کیمرے کے معیار، میموری اور اسکرین کے معیار تک مرکوز تھی لیکن اب ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ مینوفیکچررز سیکیورٹی کی سطح، ڈیوائس کے ناقابل تسخیر ہونے اور پرائیویسی پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں
سب سے اہم جز جس کی جانچ پڑتال کے بعد موبائل فونز کے سکیورٹی لیول کا موازنہ کیا جا سکتا ہے وہ ڈیوائس کا آپریٹنگ سسٹم ہے۔ اس لیے موبائل فون بنانے والے ہمیشہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کی ڈجیٹل سکیورٹی پر توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں
اینڈرائڈ یا آئی او ایس میں سے زیادہ محفوظ کون؟
دو آپریٹنگ سسٹمز، اینڈرائڈ اور آئی او ایس، آج کے اہم موبائل پلیٹ فارمز ہیں اور ہر ایک کے صارفین کے الگ الگ حلقے موجود ہیں
اینڈرائڈ اور آئی فون دونوں آپریٹنگ سسٹم خطرات اور کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے اپنی پرائیویسی اور سکیورٹی فیچرز کو مسلسل اپ ڈیٹ کر رہے ہیں، لیکن ان دونوں میں سے ہر ایک کے اپنے حفاظتی طریقے ہیں
ایپل نے اپنے آپریٹنگ سسٹم کو بہت زیادہ محفوظ رکھا ہے اور کسی دوسری کمپنی کو ایپل کے آپریٹنگ سسٹم کے سورس کوڈ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ایک طرف یہ طریقہ کارآمد ہے کیونکہ سائبر کرائم کرنے والے اس تک پہنچ نہیں سکتے۔ دوسری طرف، یہ خطرناک بھی ہے، کیونکہ آزاد محققین اور ماہرین بھی اس نظام کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کر سکتے اور سورس کوڈ کو چیک نہیں کر سکتے
اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم اور اس کی اپ ڈیٹس زیادہ تر اوپن سورس کوڈ ہیں۔ یہ نقطہ نظر اسمارٹ فون مینوفیکچررز اور سافٹ ویئر ڈویلپرز کو اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم میں تبدیلیاں کرنے اور اپنے صارفین کی ضروریات کے مطابق تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے
اوپن سورس کوڈ ڈویلپرز کے لیے آسانی اور مسائل سے نمٹنے میں مددگار ہوتا ہے، تاہم اوپن سورس کوڈ ہیکرز یا مال ویئر کے لیے اینڈرائڈ ڈیوائسز میں داخل ہونے کا گیٹ وے ہو سکتا ہے
دونوں آپریٹنگ سسٹمز میں، کچھ پروگرام صارفین کے نیٹ ورک ٹریفک کو ان کے علم کے بغیر ٹریک کرتے ہیں اور مثال کے طور پر، اشتہارات دکھانے کے لیے صارف کے ذاتی ڈیٹا کا استعمال کرتے ہیں۔ آئی او ایس نے اینڈرائڈ سے پہلے اس مسئلے کو حل کرنا شروع کر دیا تھا
آئی فون پر، صارفین کی پرائیویسی کی حفاظت کرنے والی خصوصیات iOS 12 کی ریلیز کے بعد سے موجود ہیں۔ اس خصوصیت میں بعد کے ورژنز میں زیادہ بہتری آئی، یہاں تک کہ یہ iOS 15 میں یہ ایپل کی اہم خصوصیات میں سے ایک بن گئی
یہ فیچر صارفین کو ایپ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آئی فون آپریٹنگ سسٹم میں اس فیچر کا ایک فائدہ یہ ہے کہ پروگرامز صارفین کے انٹرنیٹ رویے کے بارے میں نہیں جان سکتے اور اسی لیے آئی فون پر ناپسندیدہ یا بدنیتی پر مبنی اشتہارات کو روک دیا گیا ہے
دوسری جانب یہ خصوصیت صرف کچھ اینڈرائڈ آلات پر دستیاب ہے۔ مثال کے طور پر، سام سنگ کے نئے آلات میں ایک پرائیویسی ڈیش بورڈ ہے، جسے صارفین ایپ کی حدود کو سیٹ اور مانیٹر کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں
اینڈرائڈ 12 اور اس کے بعد کے ورژن میں، ایپس کی فون تک رسائی کی سطح کو چیک کرنے کے لیے کچھ فیچرز شامل کیے گئے ہیں۔ یہ فیچر اینڈرائڈ میں اس طرح کام کرتا ہے کہ صارفین اشتہارات کے ڈسپلے کو کنٹرول یا بلاک کر سکتے ہیں۔ تاہم، کچھ ایپس اب بھی پس پردہ کام کرتی رہتی ہیں
ایپل نے چھ جولائی 2022ع کو اعلان کیا تھا کہ وہ 2022ع کے اواخر تک ’لاک ڈاؤن موڈ‘ فیچر متعارف کرائے گا، جو کہ سکیورٹی کی زیادہ سے زیادہ ممکن سطح ہے۔ ایپل کے مطابق اس فیچر کو جاری کرنے کا مقصد ان لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، جو ایڈوانس مال ویئر یا حکومت کے زیر اہتمام گروپس کا نشانہ بنتے ہیں
یہ خصوصیت سپائی ویئر کے ممکنہ داخلے کے مقامات کو محدود کرتی ہے۔ اس خصوصیت کے ساتھ، پیغامات، فیس ٹائم کالز اور دیگر دعوت ناموں میں زیادہ تر منسلکات کو بلاک کر دیا جائے گا۔ جب تک کہ یہ کسی ایسے شخص کی طرف سے نہ ہو، جس سے آپ نے پہلے ہی رابطہ کیا ہو یا دعوت نامے کا اشتراک کیا ہو
شاؤمی، ہواوے یا سام سنگ ؛ کون سا فون محفوظ ہے؟
چین میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرگرم کمپنیوں کی شفافیت ہمیشہ شکوک و شبہات سے بھرپور رہی ہے۔ شاؤمی ان کمپنیوں میں سے ایک ہے، جسے بہت سے پرائیویسی ماہرین شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
شاؤمی فونز کے حوالے سے دو اہم چیزیں ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ ہارڈ ویئر کے بارے میں ہے۔ شاؤمی کمپنی موثر ہارڈ ویئر کے ساتھ ڈیوائسز تیار کرتی ہے، جن میں سے سبھی کی قیمت سام سنگ یا ایپل کے ماڈلز سے کم ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ایران جیسے ممالک میں بہت سے لوگوں نے شاؤمی کو استعمال کرنے پر توجہ دی ہے
دوسرا نکتہ سافٹ ویئر کی بحث اور صارف کی رازداری پر کمپنی کی توجہ ہے
2020ع میں، سائبر سکیورٹی کے محقق گیبی سرلیگ نے جانا کہ شاؤمی فونز صارف کی ویب براؤزنگ کی تاریخ کو ٹریک کرتے ہیں، سرچ انجن کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرتے ہیں، اور لوگوں کی لوکیشن کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ تمام ڈیٹا شہر بیجنگ میں میزبان سرور کے ذریعے سنگاپور اور روس بھیجا جاتا ہے۔ تاہم، شاؤمی نے ابھی تک اس دعوے کو باضابطہ طور پر قبول نہیں کیا ہے
ہواوے سمارٹ فونز کی صورتحال شاؤمی ڈیوائسز جیسی ہے۔ یہ کمپنی اپنے آلات میں نئی خصوصیات اور صلاحیتیں پیش کرتی ہے اور جدید ترین ہارڈ ویئر کے استعمال کے لحاظ سے قابل قبول کارکردگی رکھتی ہے
کمپنی کے فون ہیکرز کو ڈیوائس میں گھسنے سے روک سکتے ہیں، لیکن سکیورٹی اور ٹیکنالوجی کے کارکن اور صحافی صارفین کی پرائیویسی کے تحفظ اور ہواوے کے زیر کنٹرول ہونے کے بارے میں فکر مند ہیں
ماہرین کی جانب سے ہواوے ڈیوائسز کو محفوظ ٹیکنالوجیز کی درجہ بندی نہ کرنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس کمپنی نے چینی حکومت کو نگرانی کا سامان فراہم کیا اور 2015ع میں چینی حکومت سے ایک سو ارب ڈالر کی سبسڈی حاصل کی
حالیہ برسوں میں سام سنگ موبائل فونز نے سکیورٹی کو بہتر بنانے اور سائبر خطرات سے نمٹنے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ سام سنگ کا اپنا سکیورٹی سسٹم ہے، جس کا سب سے بنیادی کام پاس ورڈ، فنگر پرنٹس اور بائیو میٹرک لاک سمیت حساس ڈیٹا کی حفاظت کرنا ہے
یہ صارفین کو مال ویئر اور نقصان دہ پروگراموں سے بھی بچاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو ناکس کہا جاتا ہے اور اسے گلیکسی ڈیوائسز پر لاگو کیا گیا ہے
ناکس کے کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب آپ کسی چیز کو ’محفوظ فولڈر‘ میں ڈالتے ہیں تو پہلے اس پر کارروائی کی جاتی ہے اور پھر ’نکس والٹ‘ سٹوریج میں بھیجی جاتی ہے۔ جہاں یہ آپ کے عام ڈیٹا سے زیادہ محفوظ ہے
اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی میں سام سنگ ایک سکیورٹی ’ہائپر وائزر‘ فراہم کرتا ہے جو ڈیوائس کا کنٹرول نقصان دہ سافٹ ویئر کے ہاتھ میں نہیں جانے دیتا، اس طرح پورے سسٹم کی حفاظت ہوتی ہے
ہائپر وائزر ایک ایسا پروگرام ہے، جو کمپیوٹر پر ایک یا زیادہ ورچوئل مشینوں کو چلانے اور ان کا انتظام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے
یقیناً، موبائل فون بنانے والے جدید ترین ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے اپنے صارفین کے صارف کے تجربے کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں
لیکن یہ واضح رہے کہ موبائل فون کی سکیورٹی کی سطح مختلف عوامل پر منحصر ہے، جن میں سے ایک سب سے اہم ہے صارفین کی درستگی اور آن لائن سرگرمیوں میں لوگوں کی چوکسی۔ مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص کسی غیر محفوظ اٹیچمنٹ پر کلک کرتا ہے، یا کسی غیر محفوظ ادائیگی کے نظام میں لاگ ان ہوتا ہے تو خطرہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے اور یہ بات موبائل فون بنانے والوں کے ہاتھ میں نہیں ہے
ایک اور قابل ذکر نکتہ موبائل فون کی حفاظت اور صارفین کے جغرافیائی خطے کے درمیان تعلق ہے۔ مثال کے طور پر، دنیا کے بہت سے سیاستدان اور صدور آئی فون استعمال کرتے ہیں لیکن ایران میں آئی فون سروسز پر پابندی ہے
یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بہت سے معاملات میں کسی مخصوص فون کے سکیورٹی لیول کو اپنی مرضی کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ بہت سے ممالک کے سرکاری اہلکار بظاہر ایک ہی عام موبائل فون استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے فون پر معلومات کے تبادلے میں خصوصی حفاظتی اقدامات ہمیشہ شامل کیے جاتے ہیں
نوٹ: اس رپورٹ کی تفصیلات دا انڈیپینڈنٹ میں شائع ایک فیچر سے لی گئی ہیں، جنہیں عوام کی آگاہی کے لئے شائع کیا جا رہا ہے۔ فیچر میں دی گئی معلومات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔