بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں ہونے والی حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں
ان کے گھر یا تو مکمل طور پر سیلاب میں بہہ گئے ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ اپنے گھروں سے محرومی کے دکھ کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں مستقبل کے حوالے سے خدشات نے انہیں مزید پریشان کر دیا ہے
ایک سکول میں بنائے گئے ایسے ہی عارضی کیمپ کے سامنے کھڑے اکبر بلوچ نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ”ہمیں تشویش ہے کہ خدا نہ کرے مستقبل میں بھی اس قسم کی موسلا دھار بارشیں جاری رہیں تو کیا ہوگا“
انہوں نے بتایا ”بڑے بزرگ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے پچھلے تیس سے پینتیس برسوں میں ایسی بارشیں اور سیلاب نہیں دیکھے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ہم نے اتنی شدید بارشیں دیکھی ہیں“
اس عارضی کیمپ میں تقریباً پچیس خاندان مقیم ہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے بچے باہر گندگی میں کھیلتے رہتے ہیں جبکہ وہ خود چائے بنانے یا کھانا پکانے کے لیے آگ لگانے کی غرض سے لکڑیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں
اسکول کے اندر پینتالیس سالہ شیر محمد رسی کی چارپائی پر بیٹھے نظر آئے، جبکہ ان کا سب سے چھوٹا بچہ مسلسل چیخ رہا تھا
ان کا سب سے چھوٹا بچہ صرف آٹھ ماہ کا اور سب سے بڑے کی عمر چودہ سال سے ہے
سات بچوں کے والد شیر محمد کہتے ہیں ”اب ہم اللہ کے رحم و کرم پر ہیں“
انہوں نے بتایا ”بارش نے میرے گھر کو تباہ کر دیا۔ میرے سب مویشی کھو گئے، میرے کھیت تباہ ہو گئے۔ صرف ہم زندہ بچے ہیں اور کچھ نہیں بچا ہے۔۔“
تاہم وہ اپنے اہل خانہ کی سلامتی پر خوش ہیں۔ انہوں نے کہا ”خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرے بچوں کی جان بچائی“
اگرچہ بے گھر ہونے والوں کا یہ دستہ نسبتاً محفوظ مقام پر پہنچ چکا ہے، لیکن کئی دور دراز کے ایسے علاقے بھی ہیں، جو ابھی تک کسی محفوظ مقام تک نہیں پہنچ سکے اور نہ ہی امدادی ٹیموں کی ان تک رسائی ممکن ہو سکی ہے، کیونکہ ہیلی کاپٹروں کا استعمال زیادہ تر اعلیٰ سطحی عہدے داروں کے فضائی دوروں کے لیے ہی کیا جاتا ہے
کیمپ میں موجود لوگ محفوظ مقام پر پہنچنے کے باوجود اپنے بے گھر ہونے کے کرب سے نکل نہیں پائے اور مستقبل قریب میں اسی طرح کی تباہی کے بارے میں بھی فکر مند ہیں
اکبر بلوچ کہتے ہیں ”اس سے پہلے کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوسکتا ہے، اس لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی، جس کے نتیجے میں یہ ساری تباہی ہوئی ہے“
قدرتی آفات کی اطلاع اور اعدادوشمار دینے والی سرکاری ایجنسی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق مون سون کی غیرمعمولی شدید بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے پاکستان میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران کم از کم 549 افراد ہلاک ہوئے ہیں، خصوصاً بلوچستان کے دور دراز علاقوں نے سب سے زیادہ تباہی دیکھی ہے
این ڈی ایم اے کے مطابق ہلاکتوں کے علاوہ سیلاب سے تقریباً پچاس ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ سرکاری اداروں اور فوج نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کیمپ قائم کیے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کو منتقل کرنے اور خوراک اور ادویات فراہم کرنے میں مدد کر رہے ہیں
این ڈی ایم اے کے مطابق گذشتہ مہینے میں تین دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ بارشیں ہوئیں، یعنی گذشتہ تیس برسوں کی اوسط سے 133 فیصد زیادہ بارش ہوئیں، جبکہ بلوچستان میں سالانہ اوسط سے 305 فیصد زیادہ بارش ہوئی
بخت بی بی اور تاج محمد کا دکھ
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں 28 جولائی کو ہونے والی طوفانی بارشوں اور پھر اس کے بعد سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے سینکڑوں خاندان مشکلات سے دوچار ہیں لیکن ان میں بخت بی بی اور تاج محمد کی مشکلات دوسروں سے بظاہر کئی گنا زیادہ ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بیوہ اور دوسرا جسمانی طور پر معذور ہے
سیلابی ریلے نے دونوں کے گھروں کو منہدم کر دیا ہے اور وہ اب کسی طرح رہنے کے قابل نہیں اور ان کے پاس گھروں کی دوبارہ تعمیر کے وسائل بھی نہیں
بے بسی کی تصویر بنی بخت بی بی نے بتایا کہ شوہر کی موت کے بعد سات بچوں کو پالنا، ان کے لیے کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن اب سیلاب نے ان کے سر سے چھت بھی چھین لی ہے
تباہ شدہ گھر کی زمین پر کچھ بکھری اشیا کے پاس بیٹھی بخت بی بی نے بتایا ’سیلابی پانی ان کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔۔۔ میں اور میرے بچے پانی میں بہنے لگے لیکن ہمسایوں نے ہمیں بچا لیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ بیٹوں میں سے ایک پیروں سے معذور جبکہ ایک کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اور باقی دو بیٹے چھوٹے ہیں
انہوں نے بتایا ’میرے شوہر پہلے ہی فوت ہو گئے تھے جبکہ معذور بیٹا شادی شدہ ہے جس کے چار بچے ہیں۔ وہ درزی ہے لیکن اسے کبھی روزگار ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں تین کمرے اور ایک جھونپڑی تھی جو سب سیلابی پانی میں منہدم ہو گئے اور گھر کے برتن اور بستر بھی پانی بہا لے گیا
بخت بی بی نے بتایا کہ پہلی رات انہوں نے مسجد میں گزاری۔ پہلے روز ہمیں کھانے پینے کی کچھ اشیا دی گئیں مگر اس کے بعد سرکار کی جانب سے کچھ نہیں ملا بلکہ دیگر لوگوں نے کھانے پینے کے لیے امداد کی ہے‘
دونوں ہاتھوں اور آنکھوں سے معذور تاج محمد دکھ اور کرب سے کہتے ہیں ”لوگوں کے عطیات اور امداد سے بچوں کے لیے جو گھر مشکل سے بنایا تھا، اب وہ بھی نہیں رہا“
سیلاب کے باعث ان کے آس پڑوس کے گھرانے بھی ان کی مدد کے قابل نہیں رہے ہیں
صرف نوشکی نہیں بلکہ بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ 26 اضلاع میں سے اکثر میں متاثرین مشکل صورتحال سے دوچار ہیں
لسبیلہ میں لوگوں کی مشکلات دوسرے علاقوں میں کہیں زیادہ ہیں۔ نوشکی اور لسبیلہ کی طرح سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ تر لوگ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ ریلیف سے مطمئن نہیں
دیگر علاقوں کی طرح نوشکی میں بھی بارشیں ہوتی رہی ہیں لیکن 28 جولائی کی شام کو ہونے والی طوفانی بارش نے جو تباہی مچاہی، علاقہ مکینوں اور مقامی صحافیوں کے مطابق اس کی مثال نوشکی شہر کی تاریخ میں نہیں ملتی
نوشکی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی شاہ نظر بادینی کے مطابق انھوں نے نوشکی شہر میں بارشوں اور سیلاب سے تباہی کے ایسے مناظر نہیں دیکھے
لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی پیر بخش کلمتی نے بتایا کہ لسبیلہ میں متعدد علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سےلوگوں کی مشکلات ابھی تک بہت زیادہ ہیں
اس ساری تباہی کے بیچ ضلع چاغی کے علاقے دشت گوران میں تین لڑکیوں کی ہلاکت کے واقعے نے سب کو رنجیدہ کر دیا۔ یہ آپس میں بہنیں تھیں جن میں سے ایک سیلابی پانی میں ڈوب گئی تو اس کے بعد دونوں بہنیں اسے بچانے کے لیے پانی میں کود گئیں اور وہ بھی ہلاک ہو گئیں
اسی طرح ضلع مستونگ میں دو خواتین سیلابی ریلے میں بہہ گئی تھیں۔ ان میں سے جب ایک پانی میں گر گئی تھی تو اسے بچانے کی کوشش کے دوران دوسری خاتون بھی پانی میں بہہ کر ہلاک ہو گئی
بلوچستان کے مجموعی 34 اضلاع میں سے 26 اضلاع طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں بعض اضلاع جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں جبکہ بعض بہت زیادہ متاثر ہیں
جو اضلاع زیادہ متاثر ہوئے ان میں لسبیلہ، جھل مگسی، کچھی، نوشکی، پنجگور، قلات، کوئٹہ، پشین اور قلعہ سیف اللہ شامل ہیں۔