علی نواز سومرو کا تعلق سندھ کے پسماندہ ضلع عمر کوٹ سے ہے، وہ دونوں ہاتھ اور پاؤں سے محروم ہیں
علی نواز سومرو اس وقت اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی میں زیر تعلیم ہیں
ان کا عزم ہے کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کے لیے کچھ کریں
اپنے تعلیمی سفر کی مشکلات کے بارے میں علی نواز سومرو بتاتے ہیں ”میں نے اپنے آبائی علاقے میں تین چار اسکولوں میں داخلہ لینا چاہا مگر مجھے داخلہ نہیں دیا گیا اور کہا گیا کہ آپ معذور ہیں۔ آپ کی وجہ سے باقی طلبہ ڈسٹرب ہوں گے“
علی نواز سومرو نے اس سب کے باوجود بھی ہمت نہیں ہاری اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور آج اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف سوشیالوجی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں
آنکھوں میں روشن مستقبل کا خواب لیے علی نواز سومرو کہتے ہیں ”جب میں یونیورسٹی پہنچا تو انتظامیہ نے بھی نہ صرف میرا پرتپاک استقبال کیا بلکہ ہاسٹل میں الگ روم کے ساتھ وہ تمام سہولیات بھی فراہم کیں جو مجھے درکار تھیں“
گاؤں کے جس اسکول کی جانب سے علی نواز کو مسترد کیا گیا تھا، وہاں سے انہیں اب موٹیویشنل لیکچر دینے کی آفر آتی ہیں
اس حوالے سے انہوں نے بتایا ”2010ع میں میری ملاقات جنرل (ر) راحیل شریف سے ہوئی۔ میری موٹیویشنل اسٹوری سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی تھی اور تب سے آج تک وہ اسکول، جہاں میں باقی طلبہ کے لیے ڈسٹربنس قرار دیا گیا، وہاں سے خود مجھے دعوتیں موصول ہوئیں، لیکن میرے پاس وقت نہیں کہ میں وہاں جا کر موٹیویشنل لیکچر دوں“
علی نواز سوشیالوجسٹ بننا چاہتے ہیں، تاکہ غریب لوگوں کی مدد کر سکیں
انہوں نے بتایا ”میں ایک ایسی تنظیم بنانا چاہتا ہوں، جس کے تحت میں ان لوگوں کی مدد کر سکوں جو سڑکوں پر معذوری کی وجہ سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ سب تعلیم حاصل کریں اور اپنے لیے خود کمائیں“
علی نواز بتاتے ہیں ”میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ اگر دوسرے لوگ ایم پی اے، ایم این اے بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ میں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں“
دونوں ہاتھ پاؤں سے محروم علی نواز سومرو اپنے روزمرہ کے تمام کام خود کرتے ہیں، جن میں کھانا کھانے اور کپڑے تبدیل کرنے سے لے کر یونیورسٹی کے اسائمنٹ بنانا بھی شامل ہے
انہوں نے بتایا ”میں نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے کام کرنا خود شروع کیے یعنی کپڑے وغیرہ بدلنا، کیونکہ ان کاموں کے لیے ماں باپ کے علاوہ ہمہ وقت میری مدد کو کوئی تیار نہیں ہوتا تھا، اس لیے ضروری تھا کہ میں اپنے کام خود کروں“
علی نواز اپنے جیسے لوگوں کو پیغام دیتے ہیں ”آپ معذور نہیں بلکہ باقی لوگوں سے الگ ہیں۔ ہمت کریں، آگے آئیں، پڑھیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں“