بغاوت کے مقدمے میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے بدھ کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا، جہاں سماعت کے بعد عدالت نے انہیں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا
سماعت کے دوران کمرہ عدالت کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی، جبکہ میڈیا کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی
پیشی کے موقع پر شہباز گل نے میڈیا سے مختصر گفتگو میں کہا ”مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے“
اس موقعے پر شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ جسمانی ریمانڈ کے بجائے جوڈیشل ریمانڈ دیا جائے
تاہم عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کی جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی اور انہیں دو روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے سماعت جمعے (12 اگست) تک ملتوی کردی
اے آر وائی نیوز کے ہیڈ آف نیوز کی ’گرفتاری‘
اس سے قبل اسی کیس میں مزید کارروائی کے دوران اے آر وائی چینل کے مطابق ان کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کو کراچی سے مبینہ طور پر گرفتار کیا گیا تھا
اے آر وائی سے منسلک صحافی کاشف عباسی نے منگل کو رات گئے ٹوئٹر پر چینل کے ہیڈ آف نیوز عماد یوسف کی کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع ان کے گھر سے گرفتاری کی خبر دی
کاشف عباسی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’آے آر وائی نیوز کے سینیئر نائب صدر عماد یوسف کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے اٹھا لیا گیا ہے۔ آدھی رات کو لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھانا مضحکہ خیز ہے۔ ان کا اور دیگر افراد کا نام دوپہر کو (گرفتاری کے لیے) دیا گیا۔ یہ مکمل طور پر ہراسانی اور برا کام ہے۔‘
دوسری جانب اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سلمان اقبال نے پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل کے اس بیان کی مذمت کردی ہے، جس میں انہوں نے مبینہ طور پر ملکی اداروں کے خلاف بات کی تھی
اے آر وائی نیوز کے گذشتہ شب پروگرام میں میزبان کاشف عباسی نے سلمان اقبال کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمارا ادارہ اس بیان کی مذمت کرتا ہے۔‘
8 اگست کو شہباز گل کے بیانات آن ایئر کیے جانے کے بعد نہ صرف اے آر وائی کی نشریات بند کر دی گئی تھیں بلکہ گذشتہ روز شہباز گل کو بغاوت کے مقدمے میں گرفتار بھی کیا گیا تھا
شہباز گل کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ کراچی کے علاقے ملیر میں میمن گوٹھ پولیس سسٹیشن میں اسی حوالے سے بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے
میمن گوٹھ تھانے کے موجود ڈیوٹی افسر نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا کہ اس معاملے وہ کوئی بات نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا: ’اگر ہماری پولیس نے کسی کو گرفتار کیا ہوگا تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے، تب پتہ لگ جائے کہ گرفتاری ہوئی ہے یا نہیں۔‘
اے آر وائی کی شہباز گل کے بیان کی مذمت
ان تمام واقعات کے بعد گذشتہ رات اے آر وائی کے سی ای او نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں شہباز گل کے بیان کی مذمت کی اور کہا کہ ان کے بیان کو چینل سے نہ جوڑا جائے
اپنی ٹویٹس کے ایک سلسلے میں سلمان اقبال کا کہنا تھا ’جب سے اے آر وائی کا قیام عمل میں آیا ہے، ہمارا ایک ہی نظریہ اور ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے ہمارا عظیم وطن پاکستان۔ ہم آج بھی اسی نظریے پر قائم ہیں، دشمن چاہے بیرونی ہو یا اندرونی اےآر وائی نے ہر حالت اور ہر قیمت پر اپنے ملک اور افواج کا دفاع کیا ہے۔‘
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’اے آر وائی اپنی عظیم فوج کی قربانیوں اور ملک کے لیے اس کی خدمات کو ہمیشہ سامنے لاتا رہا۔ میں حیران ہوں کہ جو چینل اور سیاسی قوتیں ماضی میں ملک، ریاست اور فوج پر حملے کرتے رہے، آج وہ اے آر وائی پرالزام تراشی کررہی ہیں۔ حکومت ہمیں سیاسی انتقامی کارروائی کانشانہ بنانا چاہتی ہے توضرور بنائے لیکن مجھے اور میرے ادارے کو فوج اور ملک دشمن قرار نہ دے۔‘
سلمان اقبال نے مزید کہا کہ ’اے آر وائی نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو اپنے پلیٹ فارم سے بات کرنے کا موقع دیا، ایسا ہی ایک معاملہ پیر کے روز ہوا جب گل صاحب نے اپنی رائے دی، حکومت غلط طور پر ایک سیاسی شخصیت کی ذاتی رائے اے آر وائی سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
پاکستان میں بغاوت کے مقدمات کی تاریخ پر ایک نظر
پاکستان میں بغاوت کے الزام میں مقدمات کا اندراج نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی انہونی ہے۔ کئی سیاسی رہنماؤں نے بغاوت کے الزام میں مقدمات کا سامنا کیا ہے اور اب اس فہرست میں تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کا نام بھی شامل ہو گیا ہے
شہباز گل پر ریاستی ادارے کے خلاف عوام کو اکسانے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور وہ اسی الزام میں گرفتار ہیں۔ شہباز گل کے خلاف جو مقدمہ درج کیا گیا ہے کچھ اسی طرح کا مقدمہ تقریباً 19 برس پہلے مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید ہاشمی کے خلاف اکتوبر 2003 میں درج کیا گیا تھا
اس مقدمے میں جاوید ہاشمی کو تیئیس برس قید کی سزا ہوئی تھی تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا
ان کے علاوہ کئی قد آور سیاسی شخصیات نے اپنے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمے کا سامنا کیا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے اس الزام سے بری ہوگئے۔ یہ مقدمات جمہوری اور فوجی حکومت کے دوران قائم کیے گئے
پاکستان کے قیام کے کچھ عرصہ بعد بغاوت کے الزام میں مقدمے درج ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ پہلا مقدمہ مارچ 1951 میں درج ہوا جو ’پنڈی سازش کیس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ اس مقدمے میں میجر جنرل اکبر خان، شاعر فیض احمد فیض، بائیں بازو کے رہنما سجاد ظہیر اور میجر اسحاق سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ لیاقت علی خان کے قتل کے تین برس بعد بھی چلتا رہا
سابق صدر جنرل ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ایک سازش کا انکشاف ہوا اور اس پر بغاوت کا مقدمہ شیخ مجیب الرحمان سمیت دیگر افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ یہ کیس ’اگرتلہ سازش کیس‘ کے نام سے مشہور ہوا لیکن بعد میں شیخ مجیب اس مقدمے سے بری ہو گئے
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن لیڈر خان ولی خان کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی اور سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کی۔ ولی خان سمیت ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں میرغوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری اور سابق گورنر ارباب سکندر خان سمیت دیگر کے خلاف حیدر آباد جیل میں ٹرائل شروع ہوا اور اسی وجہ سے اسے ’حیدر آباد سازش کیس‘ کا نام ملا۔ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹربیونل تحلیل ہو گیا اور اس ٹرائل کا سامنا کرنے والوں کو معافی دے دی گئی
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ن کے قائم مقام صدر جاوید ہاشمی نے فوج کے حوالے سے خط کو بنیاد بنا کر پریس کانفرنس کی اور اسی پر ان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا، جس میں انہیں تیئیس برس کی سزا ہوئی اور بعد میں سپریم کورٹ سے انہیں رہائی ملی
اس مقدمے کے بعد بغاوت کے الزام میں مقدمات کے اندراج کا سلسلہ رک گیا لیکن نواز شریف کے تیسرے دورے حکومت میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ایک تقریر کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت اور اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا اور اسی مقدمے میں الطاف حسین کو سزا سنائی گئی
تاہم الطاف حسین کے بیرون ملک ہونے کی عدالتی سزا پر عمل نہیں ہو سکا۔ عدالت نے الطاف حسین کے نام اور ان کی تصویر کی اشاعت اور اسے نشر کرنے پر پابندی بھی لگائی
جاوید ہاشمی کے علاوہ مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف کو بھی ریاست مخالف بیان دینے پر لاہور میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ضمانت مسترد ہونے پر گرفتار بھی کیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد لاہور کی ضلعی عدالت نے ضمانت منظور کی اور رہا کرنے کا حکم دیا
بغاوت کا الزام پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر پر بھی لگا ہے۔ 2020 میں ان کی ایک تقریر کو اشتعال انگیز قرار دے کر کراچی میں مقدمہ درج کیا گیا اور اسی سال اس مقدمے میں انہیں ضمانت مل گئی
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر پر بھی متنازع بیان پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اس مقدمے میں سابق وزیراعظم نواز شریف بھی نامزد ہوئے۔ تاہم یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا
بغاوت کے مقدمات کے اندراج کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق اور بےنظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام بھی فوجی افسروں کے خلاف کارروائی ہوئی
تاہم سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف ملک کے واحد جرنیل ہیں جن پر آئین توڑنے کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوئی اور انہیں سزا سنائی گئی۔ ان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے نہ تو سزا پر عمل ہو سکا اور اس سزا کے خلاف اپیل زیر التوا ہے۔