بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی داستانیں، جنہیں سن کر آنکھوں میں سیلاب آ جائے۔۔

ویب ڈیسک

اُس دن گوٹھ پیپڑی میں پانی گھٹنوں سے اوپر تھا۔ پچھتر سالہ احمد یار کبھی ایک جانب دوڑ رہے تھے تو کبھی دوسری طرف۔ ان کا غم دوہرا تھا۔ ابھی ایک دن پہلے ان کے لاڈلے بیٹے کا گھر سیلابی ریلے میں بہہ گیا تھا۔ اب انہیں اپنے بیٹے اور اس کے بیوی بچوں کی کوئی خیر خبر نہیں مل رہی تھی

”تم نے ہمارے آدمی دیکھے ہیں؟“ ایک سے پوچھا، دوسرے سے پوچھا، تیسرے سے پوچھا، ہر ایک نے یہی جواب دیا ”نہیں ادا، ہم نے نہیں دیکھے۔“
ان کے بیٹے کی کسی کو خبر نہ تھی

نم آنکھوں سے احمد یار بتستے ہیں ”پھر میں سمجھ گیا کہ پانی اسے لے گیا ہے“

اس کے بعد مایوس ہوکر انہوں نے اپنے بیٹے، بہو اور ان کے دو بچوں کی لاشوں کی تلاش شروع کی

وہ بتاتے ہیں ”میں نے تین لاشیں اپنے ہاتھوں سے نکالیں۔ میرا بیٹا تھا، میری بہو تھی اور اس کی چھوٹی سی بیٹی، جو کندھے سے لگی تھی۔۔ تینوں کی لاشیں ایک ساتھ نکالیں۔ ایک ہاتھ سے لاش کھینچی، دوسرے سے پانی سے باہر نکالی۔ پھر اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔۔ میں نہیں جانتا کب کیا ہوا، کب جنازہ پڑھا، کب دفنایا۔۔ میرے پوتے کی لاش آگے چلی گئی تھی۔۔ چار لاشیں تھیں، کیا مجھے دکھ نہیں ہو گا؟ میرے جگر کے ٹکڑے تھے“

وہ کبھی گھر کے باہر کچے مہمان خانے میں تعزیت کے لیے آنے والوں کے پاس بیٹھتے ہیں اور کبھی اداسی سے بھری آنکھیں لیے خالی صحن کے چکر لگاتے ہیں۔ صحن کی ایک طرف ٹہنیوں اور گھاس پھوس جوڑ کر سایہ بنایا گیا ہے، جس کے نیچے چارپائیوں پر عورتیں اور بچے بیٹھے تھے

احمد یار کا کہنا ہے ”مجھے دو دن پہلے ہوش آیا ہے۔ یہاں ہماری مدد کو کوئی نہیں آیا۔ پورا گاؤں تباہ ہو گیا۔ بند ٹوٹا اور سب بہہ گیا، اولاد بہہ گئی مگر حکومت آئی نہ کوئی مدد آئی۔ تم لوگ آئے ہو، اور تو کوئی نہیں آیا“

گوٹھ پیپڑی لسبیلہ کے علاقے لاکھڑا میں چھوٹی سی بستی ہے۔ لاکھڑا حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے۔ یہاں پہنچنے کے لیے مرکزی پل ٹوٹا تو پورے علاقے کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ اب یہاں عارضی راستے بنائے گئے ہیں لیکن بارش ہوتے ہی یہ راستے بھی استعمال کے قابل نہیں رہتے۔اور گوٹھ پیپڑی واحد بستی نہیں جہاں نقصان ہوا

یہاں سے کچھ کلومیٹر آگے جائیں تو سیلاب کی تباہ کاریاں اور مفلوج زندگی مزید واضح ہونے لگتی ہے

گوٹھ سدوری کو کچا راستہ جاتا ہے، جس کے دونوں طرف کپاس تیار کھڑی تھی۔ یہ کھیت اب بھی ہیں مگر یہاں کپاس کی فصل نہیں بچی۔ گوٹھ میں داخل ہوں تو وہاں گھر بھی نہیں بچے۔ سامان ہے نہ مال مویشی۔۔ بس جان بچ گئی، وہی غنیمت ٹھہری

یہ بلوچستان کے ان سینکڑوں دیہات میں سے ایک ہے، جہاں حالیہ سیلاب اور بارشوں نے تباہی مچائی۔ یہ ان علاقوں میں سے بھی ایک ہے جہاں سول انتظامیہ پہنچی نہ فوج نہ کوئی امداد

لسبیلہ کے دور دراز گوٹھوں میں کئی عمر رسیدہ افراد کے مطابق
’سیلاب آتے رہتے ہیں مگر ایسا سیلاب ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔‘

گوٹھ سدوری میں چالیس خاندان آباد ہیں۔ جن مکانوں میں یہ خاندان آباد تھے، وہ اب ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں

محمد صالح بتاتے ہیں ’جو کچھ زندگی میں کمایا تھا وہ پانی بہا لے گیا، جو پانی سے بچ گیا وہ مکانوں کے ملبے تلے دب گیا ہے۔ اب وہ بھی کسی کام کا نہیں۔‘

یہ صرف محمد صالح کی ہی نہیں، بلکہ اس گوٹھ کے ہر فرد کی کہانی ہے

محمد صالح کی بیوی، جو سیلاب کے بعد پکی سڑک کے پاس ایک خیمے میں رہ رہی ہیں، وہ گوٹھ آئی تھیں تاکہ مکان کے ملبے سے ملنے والے برتن اور دیگر سامان دھو سکیں۔ ان میں کچھ بیٹی کے جہیز کا سامان بھی ہے

انہوں نے اپنی حالت زار پر بات کرتے ہوئے کہا ’ہم تو غریب لوگ ہیں، بیٹی پیدا ہوئی تو اس کا جہیز بنانا شروع کر دیا تھا۔ اب پندرہ سال کی ہے اور تین مہینے بعد اس کی شادی ہے۔ اب جہیز کا سارا سامان برباد ہو گیا ہے۔‘

محمد صالح کی بیوی نے وہیں کچھ فاصلے پر کھڑی کپڑوں کی ایک الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’الماری بھی بنائی تھی وہ بچ گئی ہے، اب سوکھنے کے لیے باہر کھڑی کی ہوئی ہے۔‘

ملک بھر میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور اس کے ساتھ آنے والے سیلاب نے کئی علاقوں میں معمول کی زندگی کو درہم برہم کر دیا تھا مگر بلوچستان تباہی کا مرکز بن گیا

پاکستان بھر میں ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جن میں سب سے زیادہ تعداد بلوچستان میں تھی۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے اور اب بھی ریلیف کیمپوں میں موجود ہیں

لسبیلہ، آواران اور بعض دیگر علاقوں میں کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں اب سے دو دن پہلے تک رسائی ہی ممکن نہیں تھی۔ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد شہریوں کی امداد کے لیے فضائی سہولت بھی تقریباً ختم ہو گئی ہے

جب امداد ہے نہ مدد کی کوئی امید، تو ان دیہات کے رہنے والے خود ہی کوشش کر رہے ہیں کہ زندگی دوبارہ شروع کر سکیں لیکن یہ ایک مشکل مرحلہ ہے

جب اسی گوٹھ کے رہائشی محمد عثمان سے پوچھا گیا کہ ان کا جو دو کمروں کا کچا مکان گرا ہے، اس کو بنانے میں کتنا خرچہ آئے گا؟

انھوں نے بتایا ”دو سے ڈھائی لاکھ روپے لگ جائیں گے۔ ابھی تو دو وقت کی روٹی نہیں ہے۔ مکان کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ فی الحال یہ جھونپڑی بنا رہا ہوں“

لیکن پھر ان کی نظر اوپر بادلوں پر پڑی، جو اب گہرے ہو رہے تھے۔ ”ابھی یہ پھر بادل آ رہے ہیں۔ پھر بارش ہوگی اور پھر یہ سب بہہ جائے گا۔ ہم بہہ جائیں گے۔ ہمارا تو کوئی آسرا نہیں ہے نا اب!“

سیلاب میں محمد عثمان کی زندگی بچنا کسی معجزے سے کم نہ تھی۔ ان کا ایک ہی بچہ ہے، جس دن سیلاب آیا وہ بھاگتے دوڑتے اپنی بیوی اور بچے کو ایک نسبتاً بلند ٹیلے پر بٹھا آئے

انہوں اس دن کے متعلق بتایا ”پھر میں نے سوچا واپس جا کر راشن اٹھا لیتا ہوں۔ راشن اٹھانے آیا تو پانی گھٹنوں سے اوپر آ گیا تھا۔ مجھے اور کچھ سمجھ نہیں آیا تو ایک درخت پر چڑھ گیا۔ میں دو دن درخت پر بیٹھا رہا۔ نیچے ہر طرف صرف پانی ہی پانی تھا، جیسے سارے علاقے کا پانی یہاں آ گیا ہو۔ دو دن میرے پاس کھانے کو کچھ تھا نہ پینے کو۔ مجھے لگتا تھا میں یہیں مر جاؤں گا۔ کسی کو میری خبر نہیں تھی، کوئی گوٹھ میں آ نہیں سکتا تھا۔“

محمد عثمان نے اڑتالیس گھنٹے ایک درخت پہ بیٹھ کر گزارے۔ دو دن بعد جب پانی کم ہوا تو وہ نیچے اترے اور گھر والوں کی تلاش میں نکلے۔ انھیں علم نہیں تھا کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو جس ٹیلے پر بٹھا کر آئے تو وہ زندہ ہوں گے یا نہیں

وہ کہتے ہیں ’میں جب گاؤں والوں کو ڈھونڈتا روڈ تک پہنچا تو بیوی بچے مل گئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ میں پانی میں بہہ کر مر گیا ہوں۔ مجھے دیکھ کر میری بیوی کی جان میں جان آئی کہ اس کا والی وارث آ گیا ہے۔ وہاں درخت پر جب مجھے موت کا خیال آتا تو یہی سوچتا کہ میرے بچے کا کیا ہوگا۔‘

محمد عثمان معجزانہ طور پر بچ تو گئے مگر ابھی ان کی زندگی مشکل ہے۔ وہ ملبے سے سامان ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ کچھ بنیادی چیزیں ہوں جن سے گھر چل سکے

ان ساری مشکلات کے ساتھ ، ایک اور مشکل بھی سر اٹھا رہی ہے، اب سیلاب کے بعد یہاں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بچے طرح طرح کے عارضوں کا شکار ہیں اور ماؤں کے پاس دعا کے سوا کوئی دوا نہیں ہے

صالح کی بیوی نے گدلے پانی سے بھرے برتن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”کوئی مدد آئی ہے نہ کوئی ڈاکٹر آیا۔ یہ بچے کی گردن پر دانے دیکھو، پورے جسم پر پھیل رہےہیں۔ یہ دوسرا پانچ سال کا ہے اور اس کو متلی اور قے کی شکایت ہے۔ مچھر اتنے زیادہ ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہاں جائیں۔ اور پینے کا پانی یہ ہے“

محمد صالح بتاتے ہیں کہ ان کی نوے من گندم تھی جو گوٹھ والوں نے آئندہ چھے مہینوں کے لیے ذخیرہ کر رکھی تھی۔ ’گندم پانی میں بہہ گئی ہے۔ ہم کسان لوگ ہیں اور ہمارے کپاس کی کھڑی فصل تباہ ہو گئی ہے۔ اب نہ جیب میں پیسے ہیں نہ کھانے کو راشن ہے۔ ایسے میں ہم کیا سوچیں، کون سا مستقبل ہے اور کیا کرنا ہے؟‘

بعض دیہات ایسے ہیں، جہاں غیر سرکاری تنظیمیں پہنچیں اور سیلاب متاثرین تک راشن پہنچایا گیا ہے مگر یہ انتہائی محدود پیمانے پر صرف ان علاقوں میں ممکن ہو سکا جہاں پہنچنے کے لیے رابطہ سڑکیں بحال تھیں

گوٹھ سدوری اور اس سے ملحقہ دیگر دیہات میں محمد صالح جیسے سیلاب متاثرین کا بنیادی مطالبہ ایک ہی ہے کہ حکومت اگر مالی مدد نہیں کرنا چاہتی، تو کم ازکم راشن اور دوائیاں ہی فراہم کر دے

محمد صالح کہتے ہیں ”یہاں ایک وقت کا راشن ملتا ہے تو دوسرے کا نہیں ملتا۔ اگر راشن ہی مل جائے تو ہم ایک فکر سے آزاد ہو جائیں اور یہ کچا مکان دوبارہ کھڑا کرنے کا سوچیں۔۔ ابھی تو پیٹ کی روٹی کی فکر ختم نہیں ہوتی۔۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ہم بھی پاکستانی ہیں، ہم بھی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہیں۔ ہمارا کچھ خیال کر لو!“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close