لاہوری دوستوں کو اپنی ہیرامنڈی کا تشخص ’مسخ‘ ہونے کا قلق

وسعت اللہ خان

آپ بھلے اتفاق کریں کہ اختلاف، راج کپور کے بعد اِس وقت پدم شری سنجے لیلا بھنسالی ہندی فلم انڈسٹری کا سب سے نمایاں شو مین ہے۔ ہر شے کو مبالغہ آرائی کی حد تک گرینڈ اسکیل پر بنانا اِس کا شوق اور شناخت ہے۔ اس کی پہلی اور آخری ترجیح یہ ہے کہ پردے پر ہر ہر فریم کتنا پُرشکوہ لگے گا اور کون کون سے بڑے ستاروں کو جمع کر کے خالص کمرشل انٹرٹینمنٹ تخلیق کرنا ہے (میں نے انٹرٹینمنٹ لکھا ہے، انفوٹینمنٹ نہیں)۔

اسکرپٹ میں مکالماتی مصالحہ تیز ہونا چاہیے۔ موسیقی کا تڑکا اوسط فلم سے زیادہ ہو۔ فلمی کیک پر حسن، شاعری، تجسس، چست فقرے اور ہوش ربا کاسٹیوم کی اضافی کریم ہو تو کیا کہنے۔ پروٹین اور چکنائی سے لبالب ایسی انٹرٹینمنٹ کا مقصد زندگی سے لڑ لڑ کے تھکے ہارے ناظر کو حقائق کی چلچلاتی دھوپ سے کچھ دیر کے لیے بچا کے ایک متبادل افسانوی طلسماتی دنیا کی سیر کرانا ہے اور بس۔۔

اب اس کھیل میں سکہ بند حقائق اور صحتِ تاریخ کی بحث کہاں سے آ گئی؟ جس شے کا وجود ہی نہیں، اس پر تنقید کیسی؟ مگر لوگ اتنے سادے اور پیارے ہیں کہ وہ کسی بھی تخلیق کا غیر مشروط لطف لینے کے بجائے، اس میں وہ وہ اجزا تلاشنے میں لگ جاتے ہیں کہ جن کا کہانی سے کوئی لینا دینا نہیں اور جب یہ اجزا نہیں ملتے تو پھر البرٹ پنٹو کو غصہ آ جاتا ہے۔

اس تناظر میں سنجے لیلا بھنسالی پرانا پاپی ہے۔ جیسے سنہ 2013 میں شیکسپئر کے ڈرامے رومیو جولیٹ کو جب اس نے ’رام لیلا‘ کے نام سے فلمایا تو ادھم مچ گیا کہ فلم میں تو رام جی دور دور تک نہیں ہیں تو پھر رام لیلا نام کی کیا تُک ہے؟ یہ تو دھرم کا اپمان ہے۔

دلی اور الہ آباد ہائی کورٹس نے اسٹے آرڈرز جاری کر دیے۔ چنانچہ فلم کا نام بدل کر ’گولیوں کی راس لیلا رام لیلا‘ رکھنا پڑا۔ تب جا کے نمائش کی اجازت ملی اور سنہ 2013 میں سب سے زیادہ کمائی (دو سو کروڑ) کرنے والی پانچویں ہندی فلم بن گئی۔

سنہ 2015 میں مراٹھا حکمران پیشوا باجی راؤ اور مستانی کی کہانی پر پھر بقول شخصے ’بوال مچ گیا‘۔ باجی راؤ کے ورثا نے تاریخ توڑنے مروڑنے اور تخلیقی آزادی کے پردے میں مبالغہ آرائی سے کام لینے کے الزام میں ممبئی ہائی کورٹ میں پیٹیشن ڈال دی مگر عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔ میاں بھنسالی اس فلم کے ذریعے سو کروڑ کلب کے بہترین ڈائریکٹر کا نیشنل فلم ایوارڈ جیب میں ڈال کے آگے بڑھ گئے۔

سب جدید مؤرخ جانتے ہیں کہ پدماوتی نام کی راجپوت رانی ایک افسانوی کردار ہے، جسے ملک محمد جائسی نے سولہویں صدی میں رانی پدماوت کے نام سے تخلیق کیا، مگر کچھ راجپوتوں نے اس بے غیرتی کا قلع قمع کرنے کے لیے تلواریں نکال لیں۔

راجستھان میں شوٹنگ کے دوران سنجے لیلا بھنسالی اور ان کے فلمی یونٹ کی راجپوت کرنی سینا کے سورماؤں نے جم کے پٹائی کی۔ دو بار سیٹ کو آگ بھی لگی اور کہانی کی ہیروئن دپیکا پادوکون کے سر کی قیمت بھی لگ گئی۔ پدماوت ریلیز ہوئی تو سنہ 2018 کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندی فلم بن گئی۔

جب حسین زیدی نے ’مافیا کوئین آف بمبئی‘ کتاب لکھی تو واہ واہ ہوئی، لیکن بھنسالی نے اس کتاب سے متاثر ہو کر سنہ 2022 میں ’گنگو بائی کاٹھیاواڑی‘ ریلیز کی، تب بھی کچھ پڑھے لکھوں نے اعتراض کیا کہ یہ وہ کماٹھی پورہ (بمبئی کا ریڈ لائٹ ایریا) تو نہیں دکھایا گیا جو کتاب میں ہے۔ پھر بھی یہ فلم گیارہ فلم فئیر ایوارڈ لے مری۔

نیٹ فلیکس کی ’ہیرا منڈی‘ پر بیسیوں اعتراضات ہو رہے ہیں۔ پہلی بار میرے بہت سے لاہوری دوستوں کو اپنی ہیرامنڈی کا تشخص ’مسخ ‘ ہونے کا قلق بھی ہے۔ ہر طرح کی دوربین و خودردبین نکل آئی ہے۔ کچھ تبصرے تو اتنے دردناک ہیں گویا بھنسالی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے دو ارب روپے کا قرضہ لے کے اس ’غیر مستند‘ فلم پر ضائع کر دیا ہو۔

کچھ پیارے دوست ٹکسالی گیٹ، ٹبی گلی، شورش کاشمیری کی ’اس بازار میں‘، فوزیہ سعید کی ٹیبو: ریڈ لائیٹ ایریا داستان اور اقبال حسین کی مصور کردہ موٹی بھدی مظلوم کردارنیوں کی ٹیلی اسکوپ سے نیٹ فلکس کی ہیرامنڈی دیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ’ہیرا منڈی ہوندی سی ساڈے ویہلے‘ کے نوستالجیا گذیدہ کچھ ’افسردیے‘ بالا خانوں سے جھانکتی عورتوں کی پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کے ذریعے نیٹ فلیکس کی توجہ اپنے تئیں ’ہمارے اصلی ورثے‘ پر مبذول کرا رہے ہیں۔۔ مگر جس مارکیٹ کے لیے بھنسالی نے ایک ہی فلم کو آٹھ ٹوٹوں میں تقسیم کر کے پیش کیا۔ اس مارکیٹ کے لوگ ’جو ہے جہاں ہے‘ کی بنیاد پر ’انجوائز‘ لے رہے ہیں۔

قصور ہمارا بھی نہیں۔ ہمیں تاریخ افسانہ بنا کر اور افسانہ تاریخ کی پوشاک میں اتنی مقدار میں پلایا جا چکا ہے کہ اصل اور نقل کو الگ الگ دیکھنا محال ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہم کسی بھی تخلیق کا چسکا لینے سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں۔

آج بھی بہت سے بچوں کے لیے یہ صدمے والی خبر ہے کہ سکندرِ اعظم مسلمان نہیں تھا۔

جس انارکلی، شہزادہ سلیم اور مہابلی کو ہم اور آپ جانتے ہیں، وہ امتیاز علی تاج کے ذہن کی پیداوار ہے۔ اکبر اور شہزادہ سلیم فارسی بان تھے۔ اتنی مسجع مقفع اُردو سنتے تو تاج صاحب کے ساتھ ساتھ کے آصف اور دلیپ کمار کو بھی ہاتھی کے پاؤں تلے رکھ دیتے۔ مگر ہم سنجے لیلا بھنسالی کو ایسی رعایت دینے کو ہرگز تیار نہیں اور یہ کھوجنے پر بھی تیار نہیں کہ پنجاب سول سیکرٹیریٹ کے علاقے میں موجود انار کلی کے مقبرے میں دراصل کون استراحت فرما ہے۔

اگرچہ حقیقی ہیرا منڈی میں آج آپ کو کھنڈریت و ویرانی کاٹے گی۔ عام دوکانیں، گودام، دستکاریوں کے چھوٹے چھوٹے کام گھر اور ایک آدھ طبلہ سارنگی ٹھیک کرنے والا کاریگر ملے گا۔ بادشاہی مسجد کی سمت کھلنے والے کثیر المنزلہ کھوٹھوں میں چند ریسٹورنٹ کھل گئے ہیں جو خوب بزنس کر رہے ہیں۔

اگر وہاں آج بھی کوئی ایک آدھ پھول و گجرہ فروش، تازہ نوٹوں کی گڈیاں بیچنے والا، نائیکہ، غزل اور ٹھمری کا کوئی معروف گائیک و گائیکہ، ڈھولچی، چرب زبان دلال، میوزیشن، نجیب الطرفین کنجر، اصلی نسلی مراثی اور کلاسیکل بھکاری ملے تو سنجے لیلا بھنسالی کو بھی آگاہ کر دیجیے گا۔

ہم نے خود اپنے ہاتھوں، تاریخ کے روشن دان، زمینی حقائق اور حقیقی کردار مسخ کر دیے۔ اس کے بعد تاریخ غلط پیش کی جا رہی ہے یا درست اور کون کس کہانی سے کیا کھلواڑ کر رہا ہے؟ کیا فرق پڑتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close