یقیناً بڑھاپا ایک حقیقت ہے اور بوڑھے افراد کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آنا چاہیے۔ تو کیا لوگ خود کو بوڑھا ماننے سے انکار کر کے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ در حقیقت ممکن ہے کہ یہ ایک معقول حکمت عملی ہو، ایک ایسا طرز عمل جو آپ کی زندگی میں شادمانی اور اطمینان پیدا کرے
سنہ 2003 میں محققین ہنّا کوپر اور سر مائکل مرموٹ نے ایک وسیع الجہتی تحقیق کی، جس میں شرکا سے ایک مرتبہ پھر پوچھا گیا کہ بڑھاپا کب شروع ہوتا ہے؟
ظاہر ہے کہ مختلف جواب ملے مگر جب چھ سے نو سال بعد ان لوگوں سے پھر رابطہ کیا گیا تو کوپر اور مرموٹ نے پایا کہ جو لوگ سمجھتے تھے کہ بڑھاپا جلدی شروع ہوتا ہے ان میں دل کا دورہ پڑنے، دل کی بیماریاں لاحق ہونے اور صحت کی عام خرابی کے خدشات زیادہ تھے
تو سوال یہ ہے کہ بڑھاپا شروع ہونے کے لیے آپ جس بھی عمر کا تعین کرتے ہیں اس کا آپ کی صحت پر اتنا زیادہ اثر کیسے پڑتا ہے؟
ایک خیال یہ ہے کہ بڑھاپا شروع ہونے کی عمر کے بارے میں سوال کسی شخص کے بارے میں آپ کی توقع سے زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ یہ سوال لوگوں کو اپنی جسمانی صحت کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دے اور اگر صحت اچھی نہ ہو یا زندگی گزارنے کا انداز اچھا نہ ہو، تو ممکن ہے انہیں محسوس ہو کہ بڑھاپا جلد آنے والا ہے
جو لوگ کہتے ہیں کہ بڑھاپا کم عمر سے شروع ہو جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر علاج کروانا اور اپنی صحت کا خیال رکھنا چھوڑ دیں اور سوچیں کہ یہ تو ہونا ہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ خیال کریں کہ بوڑھے لوگ کمزور ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر آہستہ چلنا شروع کر دیں، حالانکہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کی خاطر انہیں ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے
ہو سکتا ہے کہ انہیں عمر کی وجہ سے چیزیں یاد نہ رہیں اس لیے وہ اپنی یادداشت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمر رسیدگی (بوڑھا ہونا کے عمل) کے بارے میں منفی خیالات کی وجہ سے جسم پرانی سوزش کا شکار ہو جائے جس کے نتیجے میں طویل المیعاد عوارض لاحق ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا بڑھاپے کے تصور کے مطابق زندگی گزارنے سے مکمن ہے کہ ان مسائل میں اضافہ ہی ہو، جن کا انسان کو خوف رہتا ہے
یہی بات یقیناً اس کے برعکس بھی سچ ہو سکتی ہے۔ وہ لوگ جو سوچتے ہیں کہ بڑھاپا دیر سے شروع ہوتا ہے، اپنی صحت اور فِٹنس کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اور خود کو تندرست رکھنے کے لیے عملی اقدامات کرتے ہیں۔ وہ خود کو جوان سمجھتے ہیں اور ان کا طرزِ عمل بھی ویسا ہی ہوتا ہے، جو مزاج میں اچھی تبدیلی لاتا ہے
صرف کوپر اور مرموٹ کی تحقیق ہی بڑھاپے سے متعلق مثبت سوچ کے فوائد کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ ییل اسکول آف پبلک کی بیکا لیوی نے بھی اوہایو لانگیچیوڈنیل اسٹڈی آف ایجنگ اینڈ ریٹائرمنٹ نامی تحقیق سے بعض قابل غور نتائج اخذ کیے ہیں
اوہایو اسٹڈی کے دوران ایک ہزار ایسے افراد کے بارے میں معلومات یکجا کی گئیں، جن کی عمریں کم سے کم پچاس برس تھیں
انہوں نے دریافت کیا کہ عمر بڑھنے کے بارے میں جن شرکا کے خیالات مثبت تھے، وہ مذکورہ تحقیق میں حصہ لینے کے بعد اوسطاً 22.6 سال مزید زندہ رہے جبکہ وہ افراد جن کا رویہ بوڑھا ہو جانے کے بارے میں منفی تھا، اوسطاً محض پندرہ سال زندہ رہے
اس بارے میں ایک نئی تحقیق جرمنی میں یونیورسٹی آف گریفسوالڈ سے وابستہ سوزین ورم نے کی ہے جو مسئلے کی بالکل صحیح نشاندہی میں مددگار ہو سکتی ہے اور ان کے اخذ کردہ نتائج ان لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے، جو بڑھاپا شروع ہونے کے بارے میں زیادہ منفی سوچ کے حامل ہیں
ان کے جلدی مرنے کا خدشہ اوسطاً کسی دوسرے سے زیادہ نہیں مگر جو لوگ بڑھاپے کو مثبت انداز سے دیکھتے ہیں اور، مثال کے طور پر، سمجھتے ہیں کہ یہ نئی چیزیں سیکھنے اور کرنے کا وقت ہے، ان کی اوسط عمر لمبی ہوتی ہے
اس تحقیق کے مطابق اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ بڑھاپے کے جسمانی اثرات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اب بھی ذہنی طور پر ترقی کر سکتے ہیں
ان میں سے کسی بھی تحقیق کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم طلسماتی طور پر بڑھاپے کو آنے سے روک سکتے ہیں یا جوانی واپس لا سکتے ہیں۔ بصارت، سماعت، یادداشت، پٹھوں میں جان، ہڈیوں کی مضبوطی، شفایابی کا عمل، غرض تمام قُوتیں بالآخر انحطاط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور بوڑھے افراد میں بیمار پڑنے کا خدشہ یقیناً زیادہ ہوتا ہے
یہ تمام بڑی تحقیقات اوسط پر مبنی ہوتی ہیں، اس لیے یہ کہنا کہ آپ ادھیڑ عمر کے نہیں ہوئے کا مطلب یہ نہیں کہ سب لوگ بیمار ہی نہیں پڑیں گے مگر سائنس کے صحافی ڈیوِڈ روبسن کی کتاب ’دی ایکسپیکٹیشن ایفیکٹ‘ میں ہمارے لیے کچھ مفید اشارے موجود ہیں
ان کا کہنا ہے کہ جوانی کے چلے جانے پر افسوس کرنے کی بجائے ہمیں ان تجربات اور علم پر دھیان دینا چاہیے جو عمر بڑھنے کے ساتھ ہمیں حاصل ہوتا ہے اور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مختلف معاملات سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت میں عمر کے ساتھ کتنی بہتر آئی ہے
عمر رسیدہ افراد جب بیمار پڑیں تو انہیں نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اپنی صحت بہتر رکھنے کی کوشش اور اس سوچ کو کبھی بھی ترک نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اب بھی بہت کچھ کرنے کے قابل ہیں
اگر ہم یہ رویہ اپنا لیں تو ہمارے زیادہ عرصے تک زندہ رہنے اور اس وقت سے لطف اندوز ہونے کا امکان موجود ہے
وہ کام اور عادات، جو جلد بڑھاپے کی وجہ بنتے ہیں
اگرچہ عمر کا بڑھنا ناگزیر ہے، لیکن اپنی اصل عمر سے کہیں زیادہ یا کم نظر آنے کا تعلق مکمل طور پر جینیات سے نہیں ہے، بلکہ ہمارا طرزِ زندگی اس پر اثر انداز ہونے عوامل میں سے ایک ہے
جی ہاں، طرزِ زندگی سے اس بات پر واقعی بہت فرق پڑتا ہے کہ آپ کی عمر اصل میں کتنی ہے اور آپ خود کو کتنے سال کا محسوس کرتے ہیں
اس حوالے سے گھر پر خون کی جانچ کرنے والی کمپنی تھرائیوا کے کلینکل انوویشنز ایسوسی ایٹ ڈاکٹر نوئل ینگ کہتے ہیں ”اگرچہ ہماری اوسط عمر بڑھ رہی ہے لیکن اچھی صحت کے ساتھ گزاری گئی زندگی اب بھی توقع سے بہت کم ہے“
امراض قلب اور ذیابیطس جیسی دائمی بیماریاں جن کا زیادہ تر معاملات میں تعلق طرز زندگی سے ہے، بہت عام ہیں اور ان کا بڑھاپے کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے
ڈاکٹر نوئل ینگ کا کہنا ہے ”یہ معاملات چھوٹے ٹیلومرز سے جڑے ہوئے ہیں“
واضح رہے کہ ٹیلومرز وہ ڈھانچے ہیں، جو ہمارے خلیوں میں کروموسومز کے سرے کو محدود کرتے ہیں اور انہیں نقصان سے بچاتے ہیں
ساتھ ہی انہوں نے کہا ”اچھی خبر یہ ہے کہ طرزِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں لانے سے دائمی بیماریوں اور ان کے ساتھ آنے والے بڑھاپے کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے“
ذیل میں ہم سنگت میگ کے قارئین کے لیے ان عادات/کاموں کا ذکر کر رہے ہیں، جو کسی نہ کسی طرح جلد بڑھاپے کی وجہ بنتی ہیں
سورج
مختلف مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ سورج کی روشنی جلد بڑھاپے کی وجہ بن سکتی ہے ۔ 2013 میں فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ چہرے پر بڑھاپے کے آثار آنے کی 80 فیصد وجوہات کا سبب ’الٹرا وائلٹ شعاعیں‘ تھیں
لیکن یاد رہے مکمل طور پر سورج سے ’پرہیز‘ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس سے وٹامن ڈی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
زیادہ دیر بیٹھے رہنے کی عادت
ہم سست ہوتے جا رہے ہیں اور جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، پٹھوں کا بننا مشکل ہوتا جاتا ہے
ڈاکٹر ینگ کہتے ہیں ”پینتیس سال کی عمر کے آس پاس ہم ہر برس اپنے پٹھوں کی کمیت کا تقریباً ایک فیصد کھو دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں آسٹیوپوروسس، کمزوری اور گرنے سے کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کا خطرہ رہتا ہے“
وہ تجویز کرتے ہیں ”اپنی روز مرہ کی زندگی میں متحرک رہیں۔ دن میں چار سے چھ ہزار قدم چلنے یا سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کریں۔ کوئی ورزش باقاعدگی سے کرتے رہیں، جس سے آپ کو مزہ آتا ہو۔ حتیٰ کہ اسٹینڈنگ ڈیسک استعمال کرنے جیسی سادہ تبدیلیاں بھی آپ کی ٹانگوں اور پٹھوں کو مضبوط رکھنے میں مدد دے سکتی ہیں“
تمباکو نوشی
کہا جاتا ہے کہ تمباکو نوشی سے کولاجن کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ یہ وہ پروٹین ہے، جس سے جلد صحت مند اور لچکدار رہتی ہے۔ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارا جسم کم کولاجن پیدا کرتا ہے، اسی لیے جلد پر جُھریاں پڑنے لگتی ہیں۔ تمباکونوشی اس عمل کو تیز کر سکتی ہے، جو وقت سے پہلے بڑھاپے کی وجہ بنتی ہے
یہاں سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن، اٹلانٹا کی 2009 کی ایک تحقیق کا ذکر بے مہل نہ ہوگا، جس میں چار عوامل پائے گئے جو تقریباً 80 فیصد دائمی بیماریوں کو روکنے میں مدد کر سکتے ہیں، جن کا تعلق اکثر بڑھاپے سے ہوتا ہے
تحقیق میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا، ان میں تجویز کیا گیا کہ:
– کبھی تمباکو نوشی نہ کریں
– باڈی ماس انڈیکس تیس سے کم ہو
– ہفتے میں ساڑھے تین گھنٹے یا اس سے زیادہ جسمانی سرگرمی کریں
– پھلوں اور سبزیوں کی زیادہ مقدار کے ساتھ صحت مند غذا پر برقرار رکھیں
– خالص اناج کی روٹی اور گوشت کا کم استعمال کریں
یونیورسٹی آف کیمبرج کے 2008ع کے ایسے ہی ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ صحت مند طرز زندگی سے آپ کی زندگی میں چودہ سال کا اضافہ ہوسکتا ہے
غیر صحت مندانہ غذائیں
ڈاکٹر ینگ کا کہنا ہے ”فائبر سے بھرپور غذائیں جیسے سبزیاں، پھلیاں، اناج اور پھلوں کا تعلق لمبے ٹیلومرز اور زیادہ اچھی زندگی سے ہے۔ یہ غذائیں وٹامن سی، ای اور بیٹا کیروٹین جیسے غذائی اجزا کے ساتھ ساتھ دیگر اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہیں۔ ان میں موجود فائبر بھی ایک اہم غذائی جزو ہے، جو ہمارے خون میں شوگر کی سطح کو باقاعدہ کرنے اور کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے“
وہ کہتے ہیں ”مچھلی، ایواکاڈو اور گری دار میوے جیسی خوراک کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ یہ غذائیں کھانے کے بہت زیادہ نمایاں پیٹرنز ہیں، جو آپ کی صحت کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ہیں“
کچھ غذائیں بری صحت اور چھوٹے ٹیلومرز کا باعث ہوتی ہیں۔ ان میں سرخ اور پروسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات جیسی غذائیں شامل ہیں۔ ڈاکٹر ینگ نے زور دے کر کہا ”بہتر ہے کہ ان کا کم سے کم استعمال کیا جائے“
بہت زیادہ دباؤ
طویل مدتی دباؤ کا تعلق چھوٹے ٹیلومرز سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ینگ کا کہنا ہے ”تناؤ کو متحرک انداز میں سنبھالنے کی کوشش کرنا ایک اچھا خیال ہے۔“
وہ تجویز کرتے ہیں ”اس وجہ کو ایک رجسٹر میں لکھنے آغاز کریں، جس کی وجہ سے آپ تناؤ کا شکار ہوتے ہیں جبکہ گہری سانسیں لینے اور مراقبہ اور یوگا جیسی ورزش سے بھی علاج میں مدد مل سکتی ہے۔ اگر آپ اضطراب، ڈپریشن یا پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے بات کرنا اور مناسب مدد حاصل کرنا ضروری ہے“
وٹامنز کی کمی
ڈاکٹر ینگ کے مطابق ”وٹامن ڈی بڑھاپے کے اثرات کو کم کرنے میں ایک اہم غذائی جز ہے کیونکہ اس میں کمی کا تعلق عمر میں کمی سے ہوتا ہے۔ موسم سرما کے دوران برطانیہ میں وٹامن ڈی سپلیمنٹ کی سفارش کی جاتی ہے، کیونکہ خوراک کے ذرائع سے اسے حاصل کرنا کافی مشکل ہے۔ موسم گرما میں سورج کی روشنی ایک اچھا ذریعہ ہے“
اٹلی میں 2022 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ’اومیگا-3 سپلیمنٹ‘ لینے سے ٹیلومرز کی لمبائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر ینگ تجویز کرتے ہیں کہ انسداد سوزش مرکبات کے دیگر فوائد ہوتے ہیں جیسے بلڈ پریشر اور بلڈ کولیسٹرول کی سطح برقرار رکھنے میں مدد کرنا، جو آپ کے دل کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے
نیند کی کمی
ڈاکٹر ینگ کا کہنا ہے ”چھوٹے ٹیلومرز کا تعلق ناکافی نیند سے ہوتا ہے۔ نیند کی کمی سے، ورزش نہ کرنے اور میٹھا اور چربی دار کھانا کھانے جیسے مضر صحت رویوں کا امکان زیادہ ہوجاتا ہے، جس سے آپ کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے“
انہوں نے زور دے کر کہا ”روزانہ سات سے نو گھنٹے کی اچھی نیند ضروری ہے۔ اپنے سونے کے معمول اور ماحول پر توجہ دیں، دوپہر کے کھانے کے بعد کیفین والے مشروبات اور سکرین سے پرہیز کریں اور سونے سے پہلے ایک یا دو گھنٹے ورزش کریں اور زیادہ سے زیادہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے سونے کی جگہ تاریک، پرسکون اور ٹھنڈی ہو“
کثرتِ شراب نوشی
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک نئے مطالعے سے اس بات کے نئے شواہد ملے ہیں کہ شراب ڈی این اے کو نقصان پہنچاتی ہے، جس کے باعث بڑھاپا جلدی آتا ہے
ماہرین نے تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کے اعداد و شمار کا معائنہ کیا اور معلوم ہوا کہ جو لوگ ہر ہفتے سترہ یونٹ سے زیادہ شراب پیتے ہیں، ان میں ٹیلومرز چھوٹے ہوتے ہیں“
مذکورہ مطالعے کی سربراہ ڈاکٹر انیا توپی والا کہتی ہیں ”مختصر ٹیلومرز عمر کے آخری حصے میں، تیزی سے بڑھاپے، الزائمر، کینسر اور دل کی بیماری جیسی بیماری کے خطرات میں اضافہ کرتے ہیں“
ان کا مزید کہنا ہے ”اگر ہم تیزی سے بڑھاپے کے خطرے کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم اپنی جینیات کو تو تبدیل نہیں کر سکتے، لیکن ممکنہ طور پر ہم شراب نوشی کو کم کر کے، ورزش میں اضافہ کر کے اور تمباکو نوشی کو روک کر اپنا طرزِ زندگی تبدیل کرسکتے ہیں“