پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضے، حالات کس قدر سنگین ہیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے بڑھتے ہوئی اندرونی اور بیرونی قرضوں پر معاشی ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر قرضے اسی رفتار سے لیے جاتے رہے تو آئندہ دو عشروں میں پاکستان کا قرض چار سو بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم تقریبا ساٹھ ٹریلین روپے ہو گیا ہے، جبکہ اندرونی قرضوں کا حجم بھی تیس ٹریلین روپے کے قریب ہے

مذکورہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب پاکستان آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کی امید کر رہا جب کہ دوست ممالک کی طرف بھی اسی امید سے دیکھ رہا ہے

واضح رہے کہ قرضوں کے مسئلے کے حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہی ہیں۔ دہائیوں تک ملک پر حکومت کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے ساڑھے تین سال حکومت کرنے والی تحریک انصاف پر الزام لگایا ہے کہ اس نے بہت زیادہ قرضے لیے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے نون لیگ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے نہ صرف زیادہ قرضے لیے، بلکہ لیے گئے قرضوں سے ایسے پروجیکٹس شروع کیے، جو معاشی اعتبار سے تباہ کن تھے اور کئی کمپنیوں کو ان پروجیکٹس کی وجہ سے اب بھی اربوں کی سبسڈی بھی حکومت کو ادا کرنی پڑ رہی ہے

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے قرضوں کا حجم اَسی کی دہائی میں بہت کم تھا لیکن جب سے حکومتوں نے عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو نافذ کرنا شروع کیا ہے، اس کے لیے قرضوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے

معاشی تجزیہ نگار خالد بھٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم اس وجہ سے ہے کہ اَسی کی دہائی سے لے کر اب تک تمام حکومتوں نے نیو لبرل پالیساں اپنائی ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو منافع بخش ادارے بیچنے پڑے اور ملک کا ریونیو کم ہوا

خالد بھٹی کہتے ہیں ”دوسری طرف ہم نے پرائیویٹ سیکٹر کو نوازا۔ آج بھی حکومت مہنگی ایل این جی خرید کر ٹیکسٹائل، اسپورٹس آئٹمز، سرجیکل آلات اور دوسری ایکسپورٹ کرنے والی فیکٹریوں کو بہت سستی دے رہی ہے، جس سے حکومت کا امپورٹ بل بھی بڑھ رہا ہے اور اخراجات بھی۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے وہ مذید قرضے لے رہی ہے‘‘

دنیا کے کئی ممالک قرضے لے کر پیداواری کاموں میں لگاتے ہیں، تاکہ ملک کی معیشت مضبوط ہو لیکن پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ حکومتیں ایسے پروجیکٹس شروع کرتی ہیں، جن سے آمدنی حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹی حکومت کو سبسڈی دینا پڑتی ہے

خالد بھٹی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کے بقول صرف سی پیک کے کچھ ایسے پروجیکٹس ہیں، جن پر جو پیسہ خرچ ہوا ہے وہ پیداواری کاموں میں ہوا ہے

خالد بھٹی کا کہنا ہے ”لیکن عمران خان کے دور حکومت میں 70 فیصد قرضے کو صرف اخراجات اور آمدنی میں جو تفریق ہے، اس کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جبکہ بقیہ 30 فیصد قرضہ اور سود ادا کرنے کے لیے خرچ کیا گیا‘‘

دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان میں حالیہ برسوں میں کمر توڑ مہنگائی آئی ہے، جس کی وجہ سے غریب آدمی کا گزرا بہت مشکل ہوگیا ہے جب کہ متوسط طبقے کے معاشی مسائل بھی اس مہنگائی کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں

خالد بھٹی کہتے ہیں ”ان قرضوں کا عوامی مشکلات سے بہت گہرا تعلق ہے، عالمی مالیاتی ادارے اپنا قرضہ واپس چاہتے ہیں اور حکومتیں تیل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل کیا جائے۔ اس سے قرضوں کا سارا بوجھ عام آدمی پر آ جاتا ہے اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے‘‘

واضح رہے کہ کچھ معاشی ماہرین قرضوں کے بڑھنے کو معیوب نہیں سمجھتے بشرطیکہ معاشی نمو بھی بڑھ رہی ہو۔ کچھ معاشی تجزیہ نگاروں کے بقول: ”قرضوں کے حجم سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے، جسے خالصتاﹰ معاشی انداز میں دیکھنا چاہیے“

وزارت خزانہ میں ماضی میں مشیر کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ قرضوں کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی کی شرح بھی دیکھنی ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ”جی ڈی پی کے مقابلے میں پاکستان کے قرضوں کی شرح بڑھی ہے، جو جون 2021 میں 69.4 تھی اور جون دو ہزار بائیس میں 71.4 فیصد ہو گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پبلک فنانشیل مینیجمنٹ میں کمزوریاں ہیں‘‘

تاہم ڈاکٹر خاقان نجیب پر امید ہیں کہ یہ شرح کم ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں ”میرے خیال میں سالانہ یہ شرح ایک سے دو فیصد تک کم ہو جائے گی اور کچھ برسوں میں یہ جی ڈی پی کا ساٹھ فیصد ہو جائے گی۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close