کھلونا کار اور خالق کافلسفہ

سعید بلوچ

میں نے ایک دن بیٹھے بیٹھے سوچا کہ کیوں ناں ریموٹ والی کھلونا کار بنائی جائے.. چنانچہ الیکٹرونکس مارکیٹ کا رخ کیا اور کار بنانے کا سارا سامان لے آیا.

پورا دن تو لگ گیا، لیکن کار بن کر تیار ہو گئی. اب ریموٹ کا بٹن دبانے پہ کار آگے کی طرف بھاگنے لگتی اور دوسرا بٹن دبانے پر کار پیچھے کی طرف بھاگی چلی آتی. ایک بٹن مزید دبانے پہ کار سائرن بجانے لگتی اور اس کے اوپر لگی بتیاں جلنے بجھنے لگتیں.

کار نے جب خود کو آگے پیچھے دوڑتا سائرن بجاتا اور اپنے اپنے اوپر لگی خوبصورت بتیوں کو جلتے بجھتے دیکھا، تو پگلی خود کو خودکار سمجھ بیٹھی اور اپنے آپ کو سمجھدار گردانتے ہوئے اترانے لگی، لیکن وہ اپنی چھوٹی سی عقل کے باعث جانتی ہی نہیں تھی کہ اس کی ان دیکھی طنابیں اس کے خالق کے ہاتھ میں ہیں.

اس کو دوڑا دوڑا کر ریموٹ کے سیل ختم ہو گئے اور کار جہاں تھی، وہیں رک گئی.. اس کی بتیوں نے بھی جلنا بجھنا چھوڑ دیا. اس اچانک افتاد پر کار بہت گھبرا گئی.

دوبارہ سیدھے راستے پر چلانے کے لئے اس کے خالق نے ریموٹ میں نئے سیل ڈال کر، نئے سگنل بھیجے تو کار کی بتیاں دوبارہ جل اٹھیں اور وہ سیدھے راستے پر فراٹے بھرنے لگی. کار کو محسوس ہو گیا کہ کوئی تو ہے جس نے اس کو بنایا ہے اور اس کا نظام چلا رہا ہے.

چنانچہ وہ سوچنے لگی کہ اسے کس نے تخلیق کیا ہے؟

اس نے اپنے خالق کا سراپا سوچنا شروع کر دیا…

کئی دنوں تک مسلسل غور و خوض کے بعد اس کی ننھی سی عقل میں خالق کا سراپا کچھ یوں آیا کہ اس کا خالق سائز میں اس سے بہت بڑا ہو گا. اس کے چار بڑے بڑے پہیے ہوں گے اور اس کے اوپر لگے سائرن تو بہت ہی بڑے ہوں گے. اس پر جلنے بجھنے والی بتیوں کی روشنی بہت دور دور تک دکھائی دیتی ہوگی اور اس کی رفتار تو میری رفتار سے کئی سو گنا تیز ہوگی. وہ جب مجھ سے مقابلہ کرے گی، تو میری اس کے سامنے کوئی وقعت نہیں ہوگی.

لامحدود طاقتوں کا مالک اس کا خالق، اس کی چھوٹی سی عقل میں آنے والی محدود سوچوں پر مسکرا رہا تھا. کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کار اپنے چھوٹے سے ذہن پر جتنا مرضی زور دے لے، اپنے خالق کا سراپا اور اس کی طاقتوں کے بارے جاننا اس کے لئے قطعی ناممکن ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close