اپنے بیٹوں کے ساتھ اسکول میں پڑھنے والی پاروتی سنار

ویب ڈیسک

دو بچوں کی ماں ستائیس سالہ پاروتی سنار کا تعلق نیپال کے ضلع کنچن پور سے ہے۔ وہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں لیکن اب وہ اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ انہی کے اسکول میں پڑھ رہی ہیں

اگرچہ نیپال میں کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے، لیکن اب بھی اس کا رواج برقرار ہے

پاروتی سنار شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ بھارت منتقل ہوگئی تھیں

انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ”بھارت میں مجھے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور یہ احساس ہوا کہ تعلیم سمجھدار بننے میں مدد دیتی ہے“

پاروتی اس وقت ساتویں جماعت میں پڑھ رہی ہیں اور بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ ’اپنے گھر کا حساب کتاب اچھے سے سنبھال سکیں‘

انہوں نے بتایا ”میری شادی چھوٹی عمر میں ہی ہو گئی تھی، جس کے بعد میں اپنے شوہر کے ساتھ بھارت آ گئی۔۔ وہاں ہر کوئی انگریزی میں بات کرتا تھا۔ مجھے انگریزی نہ آنے کی وجہ سے بہت مشکل پیش آتی تھی۔ اس نے مجھے سیکھنے کی طرف راغب کیا“

”تب مجھے تعلیم کی اہمیت کا احساس ہوا“ انہوں نے ہمالیائی قوم کے جنوب مغربی کنارے پر پنرباس میں واقع اپنے اسکول میں کہا، ”مجھے امید ہے کہ میرا ایک بیٹا ایک دن ڈاکٹر بنے گا“

پاروتی کے ہم جماعت انہیں دیدی کہہ کر بلاتے ہیں، جو بڑی بہن کے لیے نیپالی اصطلاح ہے

پاروتی کے ایک ہم جماعت بجئے کے بی کا کہنا ہے ”میں پڑھائی میں دیدی کی مدد کرتا ہوں اور وہ بھی میری مدد کرتی ہیں۔ جب میں کام نہیں کرتا تو وہ ڈانٹتی ہیں“

گاؤں کے اسکول کے پرنسپل بھرت بسنیت کا کہنا ہے کہ ساتویں جماعت کی طالبہ کے طور پر، پاروتی سنار اوسط سے کم تھی، لیکن اسے پڑھنے اور سیکھنے کا شوق تھا

دو کروڑ نوے لاکھ کی آبادی والے نیپال میں ستاون فیصد خواتین خواندہ ہیں

اسکول سے چھٹی کے بعد پاورتی اپنے بیٹوں کے ساتھ بیس منٹ پیدل چل کر واپس گھر پہنچتی ہیں

ان کا گھر دو کمروں پر مشتمل ہے، جس کی چھت ٹین کی چادروں پر مشتمل ہے۔ ان کی ساس بھی ان کے ساتھ ہی رہائش پذیر ہیں

پاورتی گھر کے کام جیسے بکریوں کو چارہ ڈالنا، کھانا پکانا اور صاف ستھرائی بھی انجام دیتی ہیں، جس سے فراغت کے بعد وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر اسکول کا کام مکمل کرتی ہیں

شام میں وہ سائیکل چلا کر اپنے گیارہ سالہ بیٹے ریشم کے ساتھ قریبی انسٹیٹیوٹ میں کمپیوٹر کلاسز کے لیے پہنچتی ہیں، جہاں کمپیوٹر چلانے کی بنیادی تعلیم جیسے کہ ٹائپنگ کرنا اور انٹرنیٹ استعمال کرنا وغیرہ سیکھ رہی ہیں

تمام کاموں سے فراغت کے بعد وہ اپنے شوہر یم سے فون پر وڈیو چیٹ پر بات کرتی ہیں، جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے جنوبی ہندوستان کے شہر چنئی میں بطور مزدور رہ رہے ہیں

پاروتی کا تعلق ہندو دلت برادری سے ہے، جنہیں اچھوت مانا جاتا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ انہیں کبھی اس بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا

تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاورتی کی یہ لگن، تعلیم سے محروم رہ جانے والی بہت سی خواتین کے لیے ایک مثال ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close