”بیٹا! میں نے آپ کو کہا ناں کہ کھلونے سمیٹ کر رکھیں اور جلدی سے بیگ نکال کر ہوم ورک شروع کریں، میں بھی آ رہی ہوں۔“
”مما، بس تھوڑی دیر اور، پھر میں کرتا ہوں ہوم ورک۔“
”بیٹا آپ کو میری بات سمجھ نہیں آ رہی؟ کیا کہا میں نے؟“
بچے کی والدہ نے تیز نگاہوں سے کھیل میں مصروف بچے کو گھور کر دیکھا، جس پر وہ سہم سا گیا اور منہ بسورتا ہوا الماری میں سے اسکول بیگ نکالنے لگا۔ کہنے کو یہ ایک منظر ہے لیکن یہ ہمارے گھروں کا ایک عام معمول ہے
جگہ اور موقع کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اکثر دیکھنے، سننے کو ملتا ہے کہ والدین بچے سے کچھ مطالبہ یا توقع کر رہے ہوتے ہیں اور (والدین کے مطابق) وہ اکثر الٹ کرتے ہیں یا من مانی کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہی صورتحال ایک قدم آگے بڑھ کر شکایات، اعتراض اور کبھی ہاتھوں کے استعمال تک پہنچ جاتی ہے
سوال یہ ہے کہ یہ ’مسئلہ‘ کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اور اس کا حل کیا ہے؟ آئیے سمجھتے ہیں، سیکھتے ہیں اور مشق کرتے ہیں
کیا بچہ فوٹو کاپی ہے؟
ہمارے معاشرے میں یہ سوچ عام بھی ہے اور بہت مقبول بھی۔ اگرچہ اس کا اظہار کھلے عام نہیں کیا جاتا کہ باقی دیگر چیزوں کی طرح بچے والدین کی ملکیت ہیں۔ ان کی پرورش اور تعلیم پر اخراجات کی وجہ سے بچے پر ’ہر حال‘ میں اپنے والدین کی ہر بات بغیر کسی چوں چرا اور بحث کیے ماننا لازم ہے۔ اگر بچہ اپنے والدین کی بات جوں کی توں ماننے کے بجائے سوالات کرتا ہے، آگے سے اپنی رائے، اپنی پسند یا مرضی بتاتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے تو اسے نافرمانی شمار کیا جاتا ہے
اسی وجہ سے یہ شکایتیں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ زبان چلاتا ہے، اپنی مرضی کرتا ہے، ہم نے اس کی خاطر کتنے پاپڑ بیلے اور اب یہ اتنا بڑا ہوگیا کہ ہمیں ہی سکھا رہا ہے
پہلے ایک غلط فہمی دور کر لیجیے کہ ہر بچہ فوٹو اسٹیٹ نہیں مکمل آزاد اور الگ وجود ہے۔ بچے کی پیدائش قدرت کے طے شدہ نظام کے تحت دو لوگوں کے باہم ملنے سے ضرور ہوتی ہے لیکن یہ بنیادی حقیقت والدین کی اکثریت یا تو بھول جاتی ہے یا جانتے بوجھتے وہ نظریں چراتے ہیں کہ دنیا میں آنے والے ہر بچے کا جسم ہی نہیں سوچ، خیالات، پسند، ناپسند، عادات اور مزاج ہر دوسرے فرد سے بلکہ اپنے ہی سگے بہن بھائیوں تک سے جدا ہوتا ہے
ہر بچہ اپنے اردگرد کے ماحول کو، لوگوں کے رویوں کو، آس پاس ہونے والے واقعات کو، غرض ہر ہر چیز اپنے ہی زاویے سے دیکھتا اور غور کرتا ہے، الگ انداز سے سوال اٹھاتا ہے، کسی کے کہے بغیر اپنی آزاد مرضی سے رائے قائم کرتا ہے اور آخر میں اپنی سوچ کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے۔ اس لیے جب اسے قدم قدم پر، ذرا ذرا سے کام میں والدین کی طرف سے ’ہدایات، احکامات، تاکید اور تنبیہہ‘ سننے کو ملتی ہے تو اسے ذہنی اور جذباتی لحاظ سے ’گھٹن‘ محسوس ہونے لگتی ہے۔ بچے کو لگتا ہے کہ اسے زبردستی اس کی خواہش اور مرضی کے خلاف دیکھنے، سوچنے اور کام کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، اس کی خودی اور آزادی کو چھینا جا رہا ہے
دوسری جانب ماں باپ اپنے اس رویے کو مکمل خیر خواہی اور بچے کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں، یوں سمجھیے کہ بچے اور والدین کے درمیان ایک خاموش کشمکش شروع ہو جاتی ہے اور یہ صورتحال قریبی رشتوں میں تلخی اور گھر کے اچھے بھلے ماحول کو بھی بُری طرح متاثر کرتی ہے
پھر کیا ہوتا ہے؟
ایک طرف بچوں کے بارے میں والدین کی ایک خاص سوچ اور رویے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بچوں کے اپنے خیالات اور جذبات باہم متضاد ہونے کی وجہ سے ابتدا میں پیدا ہونے والی غلط فہمی دھیرے دھیرے بدمزگی میں بدلنے لگتی ہے اور زور آزمائی کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے
یہ ساری صورتحال اپنی جگہ لیکن اس سارے معاملے کا نہایت خطرناک پہلو (جس سے والدین یکسر لاعلم ہیں) یہ ہوتا ہے کہ بچے کی شخصیت شدید بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ والدین کی مسلسل ہر معاملے میں اور ہر قدم پر احکامات سے بچے کی فطری صلاحیتیں ٹھٹھر کہ رہ جاتی ہیں۔ ان میں خود اعتمادی، ہمت، جرأت اور حالات کا سامنا کرنے کے لیے بہادری غائب ہونے لگتی اور ایسا بچہ ذرا ذرا سے فیصلے کے لیے بھی دوسروں کی طرف دیکھتا ہے اور جذباتی اور ذہنی طور پر سہاروں کا عادی ہو جاتا ہے
دوسری جانب بعض بچے والدین کے مخصوص رویوں کی وجہ سے ضدی اور ہٹ دھرم ہوجاتے ہیں اور بات بات پر الجھنا اپنی بات منوانے کے لیے جھگڑے سے بھی گریز نہ کرنا ان کا معمول ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اس مزاج کے بچے آگے چل کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور اپنے گھر والوں سمیت معاشرے کے لیے دردِ سر بن جاتے ہیں
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
والدین کی بچوں کے لیے فطری فکر مندی اور خیر خواہی ہر شک سے بالاتر ہے لیکن ان کی تربیت اور ڈیلنگ یہ تقاضہ کرتی ہے کہ والدین ’پہلے بچوں کو سمجھیں اور پھر انہیں سمجھائیں‘ والا فارمولہ اپنائیں، یعنی بچے کو کوئی بات بتانی ہو، کچھ سکھانا، سمجھانا ہو، ان سے کوئی کام کروانا ہو، کسی سرگرمی سے دُور رکھنا ہو، کسی مصروفیت کی ترغیب دلانی ہو، کسی معاملے کی اصل حقیقت بتانا ہو تو ایک دم جھٹکے سے آغاز نہ کیا جائے بلکہ پہلے اپنے آپ کو پُرسکون حالت میں لے جائیں، ذہن اور جذبات میں توازن قائم ہونے دیں پھر بچے کا موڈ، ماحول اور بچے کی آمادگی کی تازہ کیفیت کا اندازہ لگائیں
اس مشق کے نتیجے میں از خود اندازہ ہوجائے گا کہ جو بات آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ وقت، ماحول اور بچے کا موڈ اس کے لیے سازگار ہے یا نہیں۔ یہ مرحلہ واضح کردے گا کہ بچے سے کوئی بات کرنا یا اسے کچھ سمجھانا مناسب ہے یا نہیں
یاد رہے یہ ماحول اور حالات سمجھ کر قدم اٹھانے کی مشق ایک آدھ بار کوشش سے کامیاب نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے بار بار اپنے آپ کو سمجھانا پڑے گا، تب کہیں جاکر بچوں کے ساتھ معاملہ کرنا آسان اور فائدہ مند ہوگا۔ اس حوالے سے یہ بھی ضروری ہے کہ والدین اس سارے عرصے میں اپنی انا کو خدا حافظ کہہ دیں کیونکہ سادہ اصول ہے کہ خود سمجھے بغیر سمجھانے کا عمل ممکن نہیں ہے۔
بشکریہ: ڈان نیوز