قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں 14 جون سے اب تک طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے چھ سو سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جبکہ گیارہ ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں
این ڈی ایم اے کی 18 اگست کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا ہے، جہاں 202 اموات ہوئیں جبکہ سندھ میں 149، پنجاب میں 144، خیبر پختونخوا میں 135 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں
پاکستان میں جاری مون سون کی طوفانی بارشوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیلابی ریلوں کے بعد ملک کے کئی حصوں میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی ہے
جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے کئی علاقوں میں سینکڑوں دیہات، چھوٹے شہر مکمل طور پر زیرِ آب آ گئے ہیں، جبکہ بڑے شہروں کے نشیبی علاقوں میں بھی بارش کا پانی بھر گیا ہے
صوبہ سندھ کے متعدد علاقوں میں موسلادھار بارشوں سے جانی اور مالی نقصان ہوا ہے
سکھر، لاڑکانہ، خیرپور، دادو، نواب شاہ اور نوشہروفیروز میں مون سون بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے
زیریں سندھ کے حیدرآباد اور میرپورخاص کے اضلاع بدین، ٹھٹہ، سجاول، میرپورخاص، سانگھڑ اور عمرکوٹ میں بھی صورتحال تشویشناک ہے
یہ اضلاع بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ان تمام اضلاع میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں کچے مکانات گر گئے ہیں
بدین ضلع کے صحافی رضا آکاش خانانی کے مطابق جمعرات کو 72 یونین کونسلز میں 55 مکمل طور پر زیرِ آب آگئیں، جہاں بڑی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں
رضا آکاش نے بتایا کہ ’بدین شہر مکمل طور پر زیر آب ہے، 2011 میں بدین کو سیلاب نے شدید متاثر کیا تھا مگر اس بار حالات زیادہ خراب نظر آتے ہیں۔ امیر شاہ نامی سیم نالے میں شگاف پڑنے سے متعدد دیہات مکمل طور پر زیر آب آگئے ہیں۔
‘ایسی خراب صورت حال کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف آپریشن تاحال شروع نہیں کیا گیا۔ عام طور پر لوگ شدید بارشوں کے بعد اپنے گاؤں سے باہر نکل کر روڈ پر آکر بیٹھتے ہیں مگر اس بار سڑکیں بھی ڈوبی ہوئی ہیں اور لوگ اپنے علاقوں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
‘بالائی اضلاع میں تاحال بارش جاری ہے اور خدشہ ہے کہ ان سیم نالوں میں شگاف پڑسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔‘
بدین ضلع کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے مقرر ’رین ریلیف انچارج‘ اور وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی ارباب عطا اللہ نے کہا کہ بارش شدید ہوئی ہے، مگر بدین ضلع میں بارش کے باعث کوئی بھی محصور نہیں ہے اور نہ ہی علاقے ڈوبے ہوئے ہیں
ارباب عطااللہ کے مطابق ’سمندر میں طغیانی کے باعث بارش کا پانی سمندر میں نہیں جارہا تھا۔ اس لیے ہر جگہ پانی نظر آرہا ہے۔ مگر اب سیم نالوں کا پانی سمندر میں جانا شروع ہوگیا ہے اور ایک یا دو روز تک بارش تھم جائے تو حلات بہتر ہوجائیں گے اور پانی مکمل طور پر چلا جائے گا
‘پورے ملک کی طرح بدین میں بھی شدید بارش ہوئی ہے، ایک دن میں 244 ملی میٹر ریکارڈ بارش ہوئی، جس کے پانی کی نکاس میں کچھ وقت لگے گا۔ مگر ضلع میں کوئی بھی ایمرجنسی کی صورت حال نہیں ہے۔‘
دوسری جانب کراچی کے کئی علاقے بھی زیر آب ہیں اور مختلف علاقوں کی جانب جانے والے راستے بھی بند ہیں
کراچی سے حیدر آباد جانے کے دوران ایم نائن لنک روڈ پر ریلے میں مسافر کار بہہ جانے کے نتیجے میں لاپتا ہونے والے میاں بیوی اور 4 بچوں سمیت 7 افراد میں سے چار کی لاشیں مسلسل تلاش کے بعد نکال لی گئیں جبکہ تین افراد تاحال لاپتا ہیں
ایس ایچ او میمن گوٹھ عتیق الرحمٰن نے کہا کہ ملیر ندی میں کار سمیت ڈوبنے والے خاندان میں سے مزید دو افراد کی لاشیں نکالی گئی ہیں جس کے بعد نکالی گئی لاشوں کی تعداد 4 ہوگئی ہے
ان کا کہنا تھا کہ محمد ذیشان انصاری اور ان کے ایک بیٹے کی لاش ملیر ندی سے نکالی گئی ہے جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے
خیال رہے کہ بدھ کے روز شادی کی تقریب کے بعد کراچی سے حیدرآباد جانے والی مسافر کار ایم نائن لنک روڈ پر پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے ریلے میں بہہ گئی تھی، جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور 4 بچوں سمیت 7 افراد لاپتا ہوگئے تھے
گزشتہ روز مسلسل کاوشوں کے بعد ملیر ندی میں بہہ جانے والی کار میں سوار 10 سالہ بچے محمد موسیٰ اور ایک لڑکی کی لاش کو نکال لیا گیا تھا
ایدھی فاؤنڈیشن کے سینئر عہدیدار سعد ایدھی نے کہا تھا کہ ریسکیو اہلکار ڈوبنے والے افراد کی تلاش میں پانی کے تیز بہاؤ کے باعث سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان نے کہا کہ ان کے رضاکاروں نے لاپتا خاندان کی لاشیں نکالنے کے لیے گزشتہ رات تک مسلسل کوششیں کیں جس کے بعد تاحال 4 لاشوں کو نکالا گیا ہے جبکہ مزید کی تلاش جاری ہے
ایس ایچ او میمن گوٹھ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ڈوبنے والے افراد میں ذیشان، رابعہ، حمنہ، عباد، موسیٰ، آیان، اور کار ڈرائیور عبدالرحمٰن شامل تھے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پانی میں ڈوبنے والے ایک اور شخص کی لاش بھی نکال لی گئی ہے جو گزشتہ روز ندی میں ڈوب گیا تھا
دوسری جانب سندھ بھر کی صورتحال کے متعلق وزیراعلٰی سندھ کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق صوبے میں پانچ ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں، جب کہ اٹھاغہزار گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ گھروں سے محروم ہوگئے ہیں اور صوبے میں بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں 137 لوگ اور 941 مویشی ہلاک ہوگئے ہیں
ادہر جنوبی پنجاب میں بارشوں سے کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی نے کئی علاقوں میں تباہی مچا دی ہے۔ بارشوں سے قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، لوگ گھروں سے بے گھر اور ہزاروں ایکڑ فصلیں زیر آب آگئیں
متاثرین کا شکوہ ہے کہ امدادی کارروائیاں ناکافی ہونے کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے جبکہ انتظامیہ کے مطابق امدادی سرگرمیاں بروقت ہونے کی وجہ سے نقصان کم ہوا ہے
بارشوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اس لیے ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف کے کئی دیہاتوں کو مزید خطرہ ہے۔ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے اور سینکڑوں کیمپ لگائے گئے ہیں جہاں خوراک اور طبی امداد بھی دی جارہی ہے
تونسہ شریف کی رہائشی آن لائن جاب کرنے والی خاتون عامرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے گاؤں میں کوہ سلیمان کی پہاڑیوں سے اتنا زیادہ پانی داخل ہوا کہ لوگوں کے گھر بھی بہا کر لے گیا جبکہ تیز پانی کے بہاؤ میں امدادی کارروائیاں بروقت نہ ہونے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ پہاڑوں سے پانی تیزی سے آیا جس میں لاشیں بھی شامل تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی فصلیں بھی زیر آب آگئیں اور کھانے پینے کا سامان بھی بہہ گیا۔
’لوگوں کو فکر ہے کہ اب اناج نہیں ہے اور جو اگایا جارہا تھا وہ بھی زیر آب آگیا ہے۔ اس سال کیسے چولہا جلائیں گے اور کیا کھائیں گے؟‘
عامرہ کے بقول ان علاقوں میں امدادی سرگرمیاں ناکافی ہیں حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کرتے رہے ’صرف بیانات کی حد تک‘ امداد کی جارہی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ کوہ سلیمان سے اترنے والے پانی کو روکنے کے لیے منصوبہ بنایا جائے اور لوگوں کی مدد کی جائے تاکہ سیلاب کے بعد بھوک سے اموات شروع نہ ہوجائیں
ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 رضوان ناصر نے کہا کہ اب تک ڈیرہ غازی خان اورتونسہ میں بارشوں سے آنے والے سیلاب میں اکتیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور متعدد لاپتہ بھی ہیں
ان کے مطابق نو ہزار سے زیادہ متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے اور گیارہ سو سے زیادہ کیمپس لگا دیے گئے ہیں جہاں خوراک اور طبی امداد بھی فراہم کی جارہی ہے
’بارش کا سلسلہ ابھی جاری ہے لہذٰا مذید گاؤں زیر آب آسکتے ہیں اس لیے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا کام بھی جاری ہے۔‘
رضوان نے کہا: ’یہ صرف کوہ سلیمان کی پہاڑیوں پر دس سال بعد ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے سیلاب ہے جبکہ دریائے سندھ، چناب سمیت کسی دریا میں ابھی پانی کی سطح اتنی بلند نہیں جسے خطرناک لائن کہا جاسکے۔‘