نوجوانوں کی شراب سے کنارہ کشی کو عام طور پر ایک مثبت رجحان سمجھ کر اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے، لیکن جاپان میں معاملہ اس کے الٹ ہی نظر آتا ہے
جاپان کے نوجوانوں میں شراب نوشی اتنی عام نہیں جتنی وہاں کی بزرگ آبادی میں ہے۔ مگر چند سرکاری ادارے وہاں ایک خاص مہم کے ذریعے اس صورتحال کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں
جاپانی نوجوانوں میں شراب نوشی کے کم ہوتے ہوئے رجحان کے سبب حکومت کو شراب کی فروخت پر ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی میں نقصان ہو رہا ہے۔ جاپان کی روایتی شراب ’ساکے‘ چاول سے تیار کی جاتی ہے، اس کے فروخت میں کمی کے سبب حکومت کو معاشی نقصان کا سامنا ہے
نوجوانوں کی طرف سے شراب کے کم استعمال کو جاپان کی شراب ساز کمپنیاں اور حکومت سماجی کے بجائے مالی نکتہِ نظر سے دیکھ رہی ہیں، کیونکہ شراب کے منافع بخش ٹیکس کی آمدن کو کم ہوتے دیکھ رہی ہیں
جاپان کی نیشنل ٹیکس ایجنسی نے اس حوالے سے واضح طور پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے قومی سطح پر ایک مقابلے کا اعلان کیا ہے، جس میں لوگوں سے ایسے مشورے مانگے گئے ہیں جن کی مدد سے نوجوانوں کو شراب نوشی کے لیے تیار کیا جا سکے
اس مقابلے کا نام ہے ’ساکے ویوا‘
امید کی جا رہی ہے کہ اس کی مدد سے شراب نوشی کے بارے میں نوجوانوں میں دلچسپی پیدا کی جا سکے گی جس سے شراب کی صنعت کو ہونے والے معاشی نقصان سے نمٹا جا سکے گا۔
اس مقابلے میں بیس سے انتالیس برس تک کے افراد سے ایسا کاروباری آئیڈیا مانگا گیا ہے، جو ان کے ہم عمر افراد کے درمیان شراب کی طلب (ڈیمانڈ) کو فروغ دے سکے۔ یہ آئیڈیاز صرف ’ساکے‘ نہیں بلکہ وسکی، بیئر اور وائن کے لیے بھی مانگے گئے ہیں
اس مقابلے کا انعقاد کرنے والی ایجنسی کا کہنا ہے کہ کووڈ کے دوران لوگوں میں شراب پینے کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ جاپان کی بوڑھی ہوتی آبادی بھی شراب کی فروخت میں کمی کی وجہ ہے
ایجنسی چاہتی ہے کہ لوگ شراب کی مقبولیت بڑھانے کے لیے پروموشنل مہم، برانڈنگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے بھی نئے آئیڈیاز پیش کریں
متعدد لوگ اپنے مشورے آن لائن شیئر کر رہے ہیں۔ ایک مقبول اداکارہ نے اپنی ایک وڈیو شیئر کی ہے، جس میں وہ ایک ورچوئل کلب میں میزبان کے کردار میں نظر آ رہی ہیں
اس مقابلے میں حصہ لینے والے لوگوں کو ستمبر کے آخر تک اپنے آئیڈیاز سرکاری ایجنسی کو بھیجنے ہیں۔ اس کے بعد ان آئیڈیاز کو ماہرین کی مدد سے بہتر بنایا جائے گا۔ نومبر میں انہیں مزید نکھارا جائے گا
ساکے ویوا نامی یہ مقابلہ کئی مہینوں تک چلے گا۔ یہ مقابلہ 20 سے 39 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے کھلا ہے، جس میں آئڈیاز 9 ستمبر کو جمع کرانا ہیں
شراب نوشی کی حامی تجاویز جو فائنل راؤنڈ میں جگہ بنا پائیں گی ان کا فیصلہ 10 نومبر کو ٹوکیو میں ان کی موجودگی میں کیا جائے گا
اس مہم کے لیے ایک خاص ویب سائٹ بھی تیار کی گئی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں شراب کا بازار گھٹتا جا رہا ہے اور اس گراوٹ کے لیے جاپان کی کم اور بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی ذمہ دار ہیں
تازہ اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں 1995 میں جتنے لوگ شراب نوشی کرتے تھے اس سے کہیں کم 2020 میں کر رہے تھے۔ 1995 میں شراب نوشی کرنے والا کوئی شخص اوسطاً 100 لیٹر شراب سالانہ پیتا تھا۔ 2020 میں یہ مقدار 75 لیٹر ہی رہ گئی
اور اس بات کا براہ راست اثر سرکاری آمدنی پر پڑا ہے
جاپان ٹائمز نامی مقامی اخبار کے مطابق 1980 میں ملک کو ٹیکس سے ہونے والی آمدنی کا پانچ فیصد حصہ شراب سے آتا تھا۔ لیکن 2020 میں یہ گھٹ کر محض 1.7 فیصد رہ گیا۔ ورلڈ بینک کے ایک اندازے کے مطابق جاپان کی 29 فیصد آبادی کی عمر 65 برس سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا میں بڑی عمر کی آبادی کا سب سے بڑا تناسب ہے
ردعمل
جاپانی میڈیا کے مطابق حکومت کی اس مہم کے خلاف ردعمل ملا جلا ہے۔ کچھ اس قدم کی یہ کہہ کر مذمت کر رہے ہیں کہ شراب صحت کے لیے نقصان دہ ہے تو کچھ اس کے حق میں ہیں
اس مقابلے کا مقصد ’شراب کی صنعت کو زندہ کرنا اور مسائل کو حل کرنا‘ ہے۔ لیکن اس حوالے سے آن لائن پر بہت سے لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ایک حکومت جس نے پہلے لوگوں کو ذمہ داری کے ساتھ شراب پینے یا پرہیز کرنے کی ترغیب دی تھی، اب نوجوانوں کو زیادہ شراب پینے کی ترغیب دینے میں مدد کیوں مانگ رہی ہے؟
مصنف اور صحافی کیرین نشی نے اس تنازعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جاپان مخالف سمت میں جا رہا ہے، کیونکہ زیادہ تر جدید حکومتیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ شراب فطری طور پر خطرناک ہے
جیسا کہ ٹوئٹر پر مقابلہ کے بارے میں بحث شروع ہوئی، ایک مقبول تبصرے نے ان نوجوانوں کی تعریف کی جو شراب نہیں پی رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ان کا ماننا ہے کہ الکوحل کے ذریعے عائد سماجی اخراجات ٹیکس کی آمدنی سے زیادہ نہیں ہیں
ناقدین نے ٹیکس دہندگان کو پڑنے والے خرچے پر بھی سوال اٹھایا۔ یہ مقابلہ اور ویب سائٹ پاسونا نوینٹائی چلا رہی ہے، جو کہ زراعت اور خوراک سے متعلق ایک بڑے جاپانی ادارے پاسونا گروپ کا حصہ ہے
بزرگ ہوتی آبادی کا چیلنج
جاپان اس بات کو بڑے مسئلے کے طور پر دیکھ رہا ہے کہ ملک کی بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپانی کمپنیوں کو نوکریوں کے لیے نوجوان نہیں مل پا رہے ہیں۔ اسٹاف کی قلت کے سبب متعدد ریستوراں اور اسٹورز بہت جلدی بند ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی عمر کے افراد رات کو شاپنگ یا کھانے کے لیے باہر نہیں نکلتے
تو کیا یہ سمجھنا ٹھیک ہوگا کہ جاپان کی بوڑھی ہوتی ہوئی آبادی مستقبل میں اُن کے لیے بڑا چیلنج بننے والی ہے؟
جاپانی کمپنی کرمسن فینکس کے مینیجنگ ڈائریکٹر یوچیرو ناکازیکا نے بتایا کہ ’کچھ شعبوں میں کام کرنے کا طریقہ بدلا ہے۔ ان کا پرانا طریقہ اب کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔ ماضی میں پیٹرول پمپ، مقامی کاروبار اور دیگر دکانیں وغیرہ 24 گھنٹے کھلی رہتی تھیں، لیکن اب انھیں کام کرنے کے لیے لوگ نہیں مل رہے۔‘
جاپان میں اب متعدد کاروبار بزرگ گاہکوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ انہیں جاپان میں ’سِلور انڈسٹری‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں نرسنگ کیئر ہوم اور اولڈ ایج ہوم جیسے کاروبار پنپ رہے ہیں
جاپان کی معیشت اس وقت ملک کو درپیش نوجوانوں کی کمی کے مسئلے سے متاثر ہو رہی ہے۔