بلبلِ پاکستان کا ٹائٹل حاصل کرنے والی ماضی کی معروف گلوکارہ نیّرہ نور کراچی میں 72 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں
ان کے اہل خانہ کے مطابق نیّرہ نور کا ہفتہ کو مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیا، تاہم ان کی بیماری کی نوعیت فوری طور پر واضح نہیں ہوسکی
اہل خانہ کے بتایا کہ نیّرہ نور کئی روز سے بیمار تھیں اور کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ان کا علاج جاری تھا
انہیں صدر پاکستان کی جانب سے 2006 میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا جبکہ 1973 میں انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا تھا
برسوں پہلے انھوں نے گلوکاری چھوڑ دی تھی لیکن ان کے گائے گیت، غزلیں ہر دور میں مقبول رہیں
ان کے معروف گانوں ملی نغموں اور غزلوں میں، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا، آج بازار میں پا بجولاں چلو، کہاں ہو تم چلے آؤ، اے عشق ہمیں برباد نہ کر، کبھی ہم خوبصورت تھے اور وطن کی مٹی گواہ رہنا سمیت دیگر بہت سے شامل ہیں
نیّرہ نور نے فیض احمد فیض سمیت دیگر نامور شعرا کے کلام کو ایک منفرد انداز میں گایا تھا، جسے بہت پسند کیا گیا۔ نیّرہ نور غزل، گیت اور نظم تینوں کو گانے میں مہارت رکھتی تھیں
70 کی دہائی میں گائیکی کا سفر شروع کرنے والی نیّرہ نور 80 اور 90 کی دہائی میں مسلسل گاتی رہیں جبکہ 2000 کے بعد انہوں نے گانا کم کر دیا تھا۔
وہ 1950 میں آسام میں پیدا ہوئی تھیں
نیّرہ کا کرئیر 70 کی دہائی سے شروع ہوا اور سنہ 2022 تک جاری رہا، اس دوران انہوں نے نغمے، غزلیں اور گیت گانے کے علاوہ فلموں اور ڈراموں کے لیے پلے بیک سنگنگ بھی کی
اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ بچپن آسام میں گزرا، جہاں ان کے گھر کے پاس ہی لڑکیاں صبح صبح گھنٹیاں بجاتی تھی، بھجن گاتی تھیں اور میں اس سے مسحور ہوتی تھی
”میں خود کو روک نہیں پاتی تھی، بیٹھ کر سنتی رہتی تھی تب تک جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں“
تقسیم کے بعد ان کا خاندان پاکستان آ گیا
کالج میں دوستوں کے درمیان تو نیّرہ گاتی ہی تھیں، لاہور میں ایک بار یوتھ فیسٹیول میں اقبال اوپیرا کے لیے انہیں بلایا گیا تھا اور انہوں نے گایا۔ اس کے بعد لاہور میں اوپن ایئر میں نیّرہ نے گایا تو انہیں گولڈ میڈل دیا گیا
نیّرہ نور نے اپنے ایک انٹرویو میں کہ بتایا کبھی بھی ان کے ذہن میں یہ بات آئی ہی نہیں تھی کہ وہ کبھی باقاعدہ طور پر موسیقی کی جانب آئیں گی۔ تاہم انہوں نے یہ کہا کہ گھر میں گانا بہت سنا جاتا تھا اور انہیں لگتا ہے کہ وہ کسی چیز کی تلاش میں تھی
پی ٹی وی کے سیٹ پر انٹرویو کرتے ہوئے میزبان منیزہ ہاشمی سے گفتگو میں انھوں نے کہا ”مجھے کبھی شاید اس بات کی کبھی سمجھ نہ آ سکتی، این سی اے میں ہمارے کنسرٹس ہوتے تھے اور بڑے بڑے استاد اس میں آتے تھے، ایک بار پروفیسر اسرار کچھ لیٹ ہو گئے تو میرے کلاس فیلوز نے کہا کہ جب تک وہ نہیں آتے تو تب تک تم گاؤ، جب میں گا کر نیچے اتری تو پروفیسر صاحب نے مجھے کہا کہ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ آپ بہت اچھا گاتی ہیں اور آپ اس فن کو ضائع نہ کیجیے، وہی ہیں جنہوں نے مجھے پہلے ریڈیو پر لایا اور سب سے پہلی غزل جو میں نے گائی وہ ریڈیو پر ہی گائی“
نیشنل کالج آف آرٹس، جہاں نیّرہ پڑھتی تھیں، وہاں سے وہ پہلے یونیورسٹی پھر ریڈیو اور ٹی وی پر گانے لگیں۔ انہوں نے ٹال مٹول، اکر بکڑ اور گپ شپ کے لیے گایا اور پھر بعد میں یہ سلسلہ چلتا چلا گیا
نیّرہ نور کو پی ٹی وی پر فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی نے متعارف کروایا تھا
نیّرہ نور بنیادی طور پر ایک سادہ خاتون تھیں اور بے پناہ شہرت ملنے کے بعد بھی کم و بیش ویسی ہی زندگی گزاری۔
ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کرئیر کے دوران اور بعد میں بھی ان کے بہت کم انٹرویوز دیکھنے کو ملے
نیّرہ نور کے سادہ انداز اور سنجیدگی کی چھاپ ان کے گانے کے انداز اور شاعری کے چناؤ میں بھی جھلکتی تھی
فلم فرض اور ممتا کے لیے انہوں نے جب قومی نغمہ ”اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں“ گایا تو اس زمانے میں ریڈیو ڈرامہ آرٹسٹ اور شاعر، حمایت علی شاعر کو دیے اپنے ایک اور انٹرویو میں بتایا کہ ہمارے خاندان میں گانے پر پابندی تو تھی خاص طور پر والد کے خاندان میں لیکن والد نے یہ پابندی ختم کی ان کے الفاظ تھے کہ ’کسی بچے پر اگر پابندی لگا دی جائے تو وہ بغاوت کر دیتا ہے اس لیے یہی ہے کہ اس کو اس طرف جانے دیں“
وہ کہتی تھیں ”ریڈیو سن سن کر گانا سیکھا۔ گانے کے رموز میرے اندر تھے لیکن میں نے بڑے لوگوں کو بہت سنا ہے ، اچھا اور مشکل گانا بہت سنا ہے اور وہ بھی میں سمجھتی ہوں یہ بھی ایک علم ہے، میں 24 گھنٹے اسی میں رہتی تھی، بڑے بڑے اساتذہ کے گانوں کو سنتی اور اب بھی سنتی ہوں“
نیّرہ نے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن وہ کہتی تھیں کہ لوگوں کی توقعات کو دیکھتے ہوئے میں نے ریاض کرنا شروع کیا
ان کی شادی ساتھی گلوکار شہریار زیدی سے ہوئی جو کہ اب اداکاری کے شعبے میں نمایاں ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں
وہ کہتی تھیں کہ میری ترجیح ہمیشہ گھر اور بچے ہوتے تھے، لیکن کوشش کی کہ ریاض بھی جاری رکھوں
”بعض دفعہ میں بچوں کے جھمیلوں میں ریاض بھی نہیں کر پاتی تھی لیکن مجھے پتہ تھا کہ میں کام کے معیار اور گلے کی طاقت قائم نہیں رکھ پاؤں گی اس لیے کوشش ہوتی تھی ہمیشہ کہ ریاض ضرور کروں“
نیّرہ نے گیت، نغمے، غزلیں گائیں اور فلمی گیت بھی گائے لیکن وہ کہتی تھی کہ فلمی گیت تھوڑے الگ ہوتے ہیں اور جو فلم انڈسٹری کے ماحول کے بارے میں سنا اس سے ڈرتی تھی۔۔ میں اس میں ایڈجسٹ نہیں ہو پائی
گائیکی میں وہ اختری فیض آبادی، بیگم اختر کی مداح تھیں جبکہ شعرا میں وہ فیض احمد فیض اور ناصر کاظمی کو بہت پسند کرتی تھیں
نیّرہ نور نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ ان کے نغموں اور غزلوں کی ایک البم ریلیز ہوئی، جس کے بعد انہوں نے پی ٹی وی پر بہت زیادہ گایا اور پھر اسی کی البمز جاری ہوتی رہیں
نیّرہ نور کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک بیٹا جعفر زیدی کاوش بینڈ کے ساتھ منسلک ہے۔