یہ ایک ساحرہ کا تذکرہ ہے۔ ایک ملکہ کہ جسے نہ تو کسی تخت کی ضرورت تھی نہ ہی کوئی تاج درکار تھا۔ اس کی سلطنت بھی جغرافیائی حدود سے آزاد تھی۔ افریقہ سے سائبیریا تک جہاں بھی اردو ادب کے قارئین بالخصوص فکشن کے دلدادہ موجود ہیں وہاں قرۃ العین حیدر ہی کی حکومت ہے
یہ حکومت عشروں سے قائم ہے اور تاحال اسے کوئی چینلج نہیں کر سکا۔ یہاں تک کہ عبداللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں‘ کہ جسے اشاعت کے وقت اردو کے ایک عظیم ناول کے طور پر پیش کیا گیا تھا، وہ بھی اس سلطنت میں دراڑ نہیں ڈال سکا
آج قرۃ العین حیدر کی پندرہویں برسی کے موقع پر یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ انتظار حسین کے ناول ’بستی‘ سے شوکت صدیقی کے ’خدا کی بستی‘ تک، ’بہاؤ‘ سے ’غلام باغ‘ تک کئی اہم تخلیقات آئیں، مگر وہ ہمارے ذہنوں سے ’آگ کا دریا‘ کا فسوں مٹا نہیں پائیں
سچ تو یہ ہے کہ یہ قرۃ العین حیدر ہی تھیں جو اردو ادب کا دامن نوبیل انعام جیسے بڑے ادبی ایوارڈ سے بھر سکتی تھیں، مگر افسوس یہ ہو نہ سکا
البتہ اس اہم معاملے پر مزید بحث سے پہلے کیوں ناں عینی آپا کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لے لیا جائے
سفر زیست سے آخری شب کے ہمسفر تک
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون قرۃ العین حیدر نے 20 جنوری 1927ء کو علی گڑھ، اتر پردیش کے ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ معروف ادیب، سجاد حیدر یلدرم کی صاحبزادی تھیں جنہیں چند نقاد اردو کا اوّلین افسانہ نگار ٹھہراتے ہیں۔ والدہ بھی پڑھنے لکھنے سے شغف رکھتی تھیں
اردو میں شعور کی رو کی تکنیک متعارف کرانے والی قرۃ العین ایک متمول، زمیندار گھرانے میں پروان چڑھیں۔ بزرگوں نے جنگِ آزادی میں حصہ لیا، بعد ازاں ان کے دادا نے انگریز سرکار کی ملازمت اختیار کی اور اعلٰی عہدے پر فائز ہوئے۔ پہلے پہل ہم انہیں بطور طالبہ کونوینٹ اسکول میں دیکھتے ہیں۔ پھر وہ ہمیں لکھنؤ یونیورسٹی میں دکھائی دیتی ہیں جہاں سے انہوں نے انگریزی میں ماسٹرز کیا۔ لکھنؤ اور لندن کی درسگاہوں سے مصوری کی بھی تربیت حاصل کی اور کچھ عرصے تدریسی ذمے داریاں نبھائیں۔ ہجرت کے بعد وہ خاندان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ یہ پاکستانی ادب کے لیے ایک پُرمسرت لمحہ تھا مگر کسے خبر تھی کہ چند برس بعد ہم اپنے مشرقی بازو کے مانند قرۃ العین کو بھی کھو دیں گے
یہاں وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز اور لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے وابستہ رہیں مگر شاید ماحول سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہوسکیں۔ شاید اس کا ایک سبب ثقافتی اور فنی گھٹن ہو یا پھر بطور ادیب ان کی شہرت جو پدرسری معاشرے کے سرکاری ڈھانچے سے ہضم نہیں ہوسکی۔ (البتہ اس کا سبب آگ کا دریا پر ہونے والی تنقید نہیں تھی، اس ضمن میں وہ خود بھی وضاحت کرچکی ہیں)۔
1960ء میں انہوں نے پاکستانی شہریت ترک کی، کچھ عرصے انگلستان میں قیام کیا اور پھر ہندوستان لوٹ گئیں۔ یوں ہم نے ایک عظیم فنکار کھو دیا۔ بھارت میں انہیں گیان پیٹھ ایوارڈ سمیت (جو انہیں ’آخر شب کے ہمسفر‘ کے لیے ملا) کئی اہم اعزازت سے نوازا گیا۔ بھارت سرکار کی جانب سے پدم شری اور پدم بھوشن جیسے ایوارڈز بھی ملے۔ 21 اگست 2007ء کو وہ مختصر علالت کے بعد 80 سال کی عمر میں وفات پاگئیں
مشاہیر کی آرا
جھاڑکھنڈ سے جہلم تک جہاں جہاں اردو نے قدم جمائے، قرۃ العین کے نام کا ڈنکا بجا۔ جو سینیئر تھے وہ فن ناول نگاری میں ان سے پیچھے رہ گئے اور بعد میں آنے والوں کے سر ان کے سامنے احتراماً جھکتے چلے گئے۔ کئی بڑے ادیبوں نے ان کے فن کو خراج تحسین پیش کیا
معروف صحافی، محمود الحسن کی کتاب شرف ہمکلامی میں ممتاز ادیب، انتظار حسین نے کچھ یوں اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ‘فکشن میں میرا جو سینیئر میرے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتا ہے، وہ قرۃ العین حیدر ہیں’۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ناول کا ’امراؤ جان ادا‘ اور ’گئودان‘ کے بعد جو اگلا موڑ آیا، وہ قرۃ العین حیدر ہی کے ساتھ آتا ہے۔ ناول میں 20ویں صدی کی تکنیک اور طرزِ احساس کی شناسائی قرۃ العین حیدر ہی کے ذریعے ہوتی ہے
اردو کے ہر دل عزیز ادیب مستنصر حسین تارڑ نے بھی اپنی تحریروں میں عینی آپا، ان سے ہونے والی ملاقاتوں، ان کی محبت اور ساتھ ہی ان کی ناراضی کا ذکر کیا۔ وہ ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ’اس خاتون کی تحریریں میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہیں، پورے برصغیر میں صرف یہ نثر نگار ہیں، جن کی تحریر کا میں منتظر رہتا ہوں، وہ اردو ادب کی ملکہ ہیں۔ ان کا راج ہے‘
اس ضمن میں ’اداس نسلیں‘ کے خالق عبداللہ حسین کی رائے نہ صرف اہم ہے، بلکہ وہ ہماری ادبی تاریخ کے ایک اہم واقعے پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ قارئین کو علم ہوگا کہ طبقہ اشرافیہ میں پلی بڑھی عینی آپا کچھ خودپسند اور کچھ زود رنج واقع ہوئی تھیں۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ انہیں ایک نوجوان ادیب (عبداللہ حسین) کے اوّلین ناول (اداس نسلیں) سے متعلق بلند بانگ دعوے ناگوار گزرے ہوں گے
سن 1963ء میں اداس نسلیں کے اوّلین ایڈیشن کی تشہیر کے لیے ناشر نے عینی آپا سے ایک خصوصی خط لکھنے کی فرمائش کی۔ ناول پڑھنے کے بعد انہوں نے جو جواب لکھا اس میں ناول کے تاریخی و ثقافتی سقم اور ناول نگار کی ناکافی معلومات کی نشاندہی تو ملتی ہی ہے ساتھ ہی ناشر کی جانب سے اسے دنیا کے عظیم ترین ادب کے مدِمقابل پیش کرنے کی کوشش سے متعلق ان کی ناپسندیدگی بھی جھلکتی ہے
اس خط کا اہم ترین حصہ وہ تھا، جہاں انہوں نے عبداللہ حسین پر براہِ راست سرقے کا الزام لگایا۔ لکھتی ہیں کہ ’ایک بات جو مجھے بہت عجیب لگی کہ ناول نگار نے ’میرے بھی صنم خانے‘ کے بہت سے مکالمے ذرا سی رد و بدل کے بعد ناول میں منتقل کردیے ہیں‘
انہوں نے بعد میں بھی ان الزامات کو دہرایا اور عبداللہ حسین کے ان کی ذات سے متعلق چند بیانات سے بھی ناراضی ظاہر کی۔ ایسے میں ایک افتاد اور ٹوٹ پڑی۔ معروف براڈ کاسٹر زیبر رضوی نے اپنے جریدے ذہن جدید کے لیے اردو کے دس بہترین ناول کے حوالے سے جس سروے کا ڈول ڈالا، اس میں ’اداس نسلیں‘ اوّل نمبر قرار پایا
اس موقع پر عبداللہ حسین نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زبیر رضوی کو خط لکھا، جس میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قرۃ العین حیدر کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس مقام کا حق نہیں رکھتا۔ ساتھ ہی اس خط کی ایک کاپی عینی آپی کو بھی بھجوا دی
کیا قرۃ العین حیدر نوبیل انعام کی حقدار تھیں؟
اگر یہ سوال انگریزی کے استاد اور اردو ناول کے سینیئر نقاد، ڈاکٹر ممتاز احمد خان سے کیا جائے تو ان کا جواب یقینی طور پر ہاں میں ہوگا۔ ایک اردو روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ان کے نزدیک علامہ اقبال اور قرۃ العین حیدر نوبیل کے حقدار تھے اور اس ضمن میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی
روس سے تعلق رکھنی والی اردو کی معروف اسکالر، ڈاکٹر لڈمیلا نے لاہور میں منعقدہ ایک کانفرنس میں جہاں یہ کہا کہ ان کے نزدیک انتظار حسین مین بکرپرائز کے حقدار تھے وہیں نوبیل انعام کی کمیٹی کی جانب سے قرۃ العین حیدر کو نظر انداز کرنے کا شکوہ بھی کیا
ماہر نوبیلیات ٹھہرائے جانے والے معروف مترجم و شاعر باقر نقوی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’آگ کا دریا‘ کی مصنفہ عالمی ایوارڈ کی حقدار تھیں، انہیں یہ اعزاز پیش کیا جاتا، تو اس سے اردو کا دامن وسیع ہوتا۔ یہ تو اپنوں کی آرا تھیں، جو اہم ضرور، مگر اس مؤقف میں وزن تب پیدا ہوا جب ایک نوبیل انعام یافتہ ادیب نے عینی آپا کے فن کی جانب اشارہ کیا
سن 2008ء میں نوبیل انعام برائے ادب حاصل کرنے والے فرانسیسی ادیب ژاں ماری لی کلیزیو نے اپنے خطبے میں بڑے ہی دل پذیر انداز میں قرۃ العین حیدر اور آگ کا دریا کا ذکر کیا تھا۔ ڈاکٹر آصف فرخی کے ایک مضمون کے مطابق ایک سویڈیش صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے ماری لی کلیزیو نے کہا تھا کہ ان سے زیادہ دیگر ادیب اس انعام کے حقدار تھے، جیسے فرانسیسی زبان کے ایڈورڈ گلیساں اور ہندوستانی ادیبہ قرۃ العین حیدر
چند ناقدین کا اصرار ہے کہ نوبیل انعام سے محرومی قرۃ العین حیدر کے ادبی قد پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ نشاندہی بھی کی جاتی ہے کہ نوبیل انعام کمیٹی کے معیارات غیر متوازن اور سیاست زدہ ہیں۔ اسی باعث نہ تو یہ ایوارڈ ٹالسٹائی اور دوستو فسکی کو ملا، نہ ہی میلان کنڈیرا اور اسمٰعیل کادارے کو۔ ولادیمیر نوبوکوف اور ورجینا وولف بھی اس سے محروم رہے
یہ مؤقف درست ضرور مگر یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر قرۃ العین حیدر کو یہ ایوارڈ مل جاتا، جس کی وہ خود بھی خواہش مند تھیں، اور بڑی حد تک حقدار بھی تھیں، تو آج اردو ادب کا آسمان کچھ زیادہ روشن اور کشادہ ہوتا۔
بشکریہ: ڈان نیوز