بھارت میں سولہ سال کی پوجا گوڈ 22 جنوری 2013 میں تب اغوا ہو گئی تھی، جب اس کی عمر صرف سات سال تھی، لیکن اب نو سال کے لمبے عرصے کے بعد وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سو سکتی ہے
پوجا بتاتی ہیں ”مجھے مغربی ریاست مہاراشٹر کے شہر ممبئی میں اسکول کے باہر سے ایک جوڑے نے آئس کریم کا لالچ دے کر اغوا کیا“
حال ہی میں 4 اگست کو وہ معجزانہ طور پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ ان کی والدہ پونم گوڈ کا کہنا ہے کہ بیٹی کے واپس آنے کی خوشی وہ بیان نہیں کر سکتیں ’میں نے اپنی بیٹی کو تلاش کرنے کی امید چھوڑ دی تھی۔ لیکن خدا نے مجھ پر مہربانی کی‘
پولیس کا کہنا ہے کہ اس بچی کو ہیری ڈی سوزا اور ان کی اہلیہ سونی ڈیسوزا نے اغوا کیا تھا کیونکہ اس جوڑے کا اپنا کوئی بچہ نہیں تھا۔ ڈی سوزا کو گرفتار کر لیا گیا ہے
لاپتہ ہونے سے پہلے، پوجا اپنے دو بھائیوں اور والدین کے ساتھ کچی آبادی کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتی تھیں
جس دن وہ لاپتہ ہوئیں، اس روز وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ اسکول کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔ لیکن دونوں میں لڑائی ہو گئی اور بھائی اسے پیچھے چھوڑ کر اسکول چلا گیا۔ اس وقت یہ جوڑا مبینہ طور پر پوجا کو آئس کریم خریدنے کا وعدہ کر کے ساتھ لے گیا
پوجا کا کہنا ہے کہ اغواکار ابتدا میں انہیں مغربی ریاست گوا اور پھر جنوب مغربی ریاست کرناٹک لے گئے۔ وہ انہیں دھمکی دیتے کہ اگر وہ روئی یا اپنی طرف توجہ مبذول کرائی تو انہیں نقصان پہنچایا جائے گا
وہ بتاتی ہیں ”مجھے تھوڑے ہی دنوں کے لیے اسکول جانے کی اجازت دی گئی، لیکن جوڑے کے اپنے ایک بچے کی پیدائش کے بعد مجھے اسکول سے نکال دیا گیا اور ہم سب ممبئی منتقل ہو گئے“
پوجا کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی مزید بڑھ گئی ”وہ مجھے بیلٹ سے مارتے، لاتیں اور گھونسے مارتے۔ ایک بار انہوں نے مجھے رولنگ پن سے اس بُری طرح سے مارا کہ میری کمر سے خون بہنے لگا۔ مجھے گھر کے کام کاج کے علاوہ بارہ سے چوبیس گھنٹے تک گھر سے باہر کام کرنے پر بھی مجبور کیا گیا“
ڈیسوزا جس گھر میں رہتی تھیں، وہ پوجا کے خاندان کے کافی قریب تھا۔ لیکن وہ سڑکوں سے ناواقف تھیں۔ ان کے پاس پیسہ یا فون نہیں تھا، اور وہ مدد بھی نہیں مانگ سکتی تھیں اور نہ گھر ڈھونڈنے کی کوشش کر سکتی تھیں
لیکن ایک دن جب وہ سو رہے تھے، پوجا کے ہاتھ اس جوڑے کا موبائل لگا اور اس نے یوٹیوب پر اپنا نام ٹائپ کیا۔ اسے وڈیوز اور پوسٹرز ملے، جن میں ان کے اغوا کا ذکر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ ان نمبروں پر مدد کے لیے کال کر سکتی تھی
وہ کہتی ہیں ”اس وقت میں نے مدد لینے اور فرار ہونے کا فیصلہ کیا“
لیکن ہمت کرنے میں سات مہینے لگ گئے۔ انہوں نے پینتیس سالہ گھریلو ملازمہ پرمیلا دیویندر سے بات کی، جو اسی گھر میں کام کرتی تھیں، جہاں پوجا بچوں کی آیا کے طور پر کام کر رہی تھیں
پرمیلا فوراً ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ گمشدہ پوسٹر پر موجود نمبروں میں سے ایک نے انہیں پوجا کی ماں کے پڑوسی رفیق سے ملایا۔ ماں بیٹی نے پہلے وڈیو کال پر بات کی اور پھر ملاقات کا بندوبست کیا گیا
پوجا کی والدہ کا کہنا ہے ”میں نے بیٹی کے پیدائشی نشان کا جائزہ لیا۔ میرے تمام شکوک فوراً دور ہو گئے۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اپنی بیٹی مل گئی ہے“
پرمیلا دیویندر انہیں دوبارہ ملانے میں کردار ادا کرنے پر خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”ہر ماں کو اس سے مدد مانگنے والے بچے کی مدد کرنی چاہیے۔ شاید ہم انہیں جنم دینے والی مائیں نہیں ہیں، لیکن ہم پھر بھی مائیں تو ہیں“
ملاقات کے بعد پوجا، خاندان کے چند افراد اور پرمیلا دیویندر شکایت درج کرانے پولس تھانے گئے۔ وہ کہتی ہیں ”میں نے پولیس کو سب کچھ بتایا۔ یہاں تک کہ میں نے انہیں بتایا کہ میرے اغوا کار کہاں رہتے ہیں، جس سے ملزمان کی شناخت اور گرفتاری عمل میں آئی“
ممبئی کے ڈی این نگر پولیس اسٹیشن کے سینیئر انسپکٹر ملند کردے بتاتے ہیں ”ملزمان کے خلاف اغوا، دھمکیاں دینے، جسمانی تشدد اور چائلڈ لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے لیے مقدمات درج کیے گئے ہیں“
پوجا کی گھر واپسی سے نہ صرف ان کے گھر والے بلکہ انھیں جاننے والا ہر شخص خوش ہے، وہ پڑوسی بھی، جنہوں نے اسے چھوٹی عمر میں دیکھا تھا، اس سے ملنے کے لیے آ رہے تھے
ان کی ماں اپنی بیٹی کے ساتھ کھوئے ہوئے وقت کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، ان کا پسندیدہ کھانا پکا رہی ہیں اور ان کے بالوں میں کنگھی کر رہی ہیں۔ دونوں ایک ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس وقت زندگی ان کے لیے مشکل ہے
پوجا کے والد، جو خاندان کے واحد کمانے والے تھے، کی چار ماہ قبل کینسر سے وفات ہوگئی تھی۔ ان کی ماں نے اپنا اور اپنے تین بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ریلوے سٹیشن پر چیزیں بیچنے کا کام شروع کیا۔ لیکن کمائی بہت کم ہے اور وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں
”اب ہمارے قانونی اخراجات بھی ہیں۔ لیکن ہماری حالت ایسی ہے کہ ایک دن کا کام چھوٹ جائے تو اگلے دن کھانے کے پیسے نہیں ہوتے“
پوجا جس صدمے سے گزریں، وہ اب بھی ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور اس بات کا بھی دکھ ہے کہ وہ اپنے والد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔ حفاظت کے پیشِ نظر وہ اپنا زیادہ تر وقت گھر میں گزارتی ہیں یا جب وہ باہر جاتی ہیں تو ان کے ساتھ خاندان کا کوئی فرد ہوتا ہے
وہ کہتی ہیں ’میں مالی طور پر اپنی ماں کی مدد کرنا چاہتی ہوں لیکن مجھے اجازت نہیں ہے۔ میں پڑھنا بھی چاہتی ہوں۔‘
لیکن ان مسائل کے باوجود ان کی ماں کا کہنا ہے کہ وہ بہت خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”کام تھکا دینے والا ہے، لیکن جب بھی میں پوجا کو دیکھتی ہوں، پھر سے میری ہمت بڑھتی ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ وہ واپس آ گئی ہے“