پاکستان بھر میں بڑے پیمانے پر سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے حکومت نے سیلاب متاثرین کی امداد اور تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی بحالی کے سلسلے میں درکار فنڈز کے لیے عالمی سطح پر اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے
یہ فیصلہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے پاکستان میں سیلاب کی ہنگامی صورتحال پر ایک ہنگامی بریفنگ کے دوران کیا گیا، جسے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ازسر نو جائزہ لینے اور ترقیاتی شراکت داروں اور عطیہ دہندگان کو بحران کی شدت سے آگاہ کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا
مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے ہونے والی تباہی پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر اپیل کے فیصلے کے علاوہ وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے بھی سیلاب زدگان کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے کیونکہ حکومت کو سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے سیکڑوں ارب روپے درکار ہیں
وزیر اعظم نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ’ہمیں موجودہ امدادی آپریشن کے لیے 80 ارب روپے درکار ہیں اور نقصانات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ متاثرین کی بحالی کے لیے بھی سیکڑوں ارب روپے کی ضرورت ہے‘
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت این ڈی ایم اے کے اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ سیلاب سے اب تک ملک بھر میں 830 افراد جاں بحق، تقریباً ایک ہزار 348 زخمی اور ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں
اجلاس کے دوران وزیر منصوبہ بندی نے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے فوج سے باضابطہ طور پر مدد طلب کریں
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے تباہ کن سیلاب کے تناظر میں انسانی بنیادوں پر بچاؤ کی فوری کوششوں پر زور دیا
شیری رحمان نے اعتراف کیا کہ پاکستان خود اس صورتحال سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے
انہوں نے کہا ’ابھی ہم طوفانی مون سون کے ساتویں دور کا سامنا کر رہے ہیں جس کے سبب ہزاروں افراد بے گھر، 830 جاں بحق اور ایک ہزار 348 زخمی ہوگئے ہیں، بلوچستان سے مون سون سسٹم سندھ کی جانب آگیا جہاں 30 اضلاع زیر آب ہیں، اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ میں اوسطاً بارشوں سے 395 فیصد اور بلوچستان میں 379 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے‘۔
شیری رحمٰن نے موجودہ صورتحال کا موازنہ 2010 میں آنے والے سیلاب سے کیا، جس نے پاکستان میں تباہی مچا دی تھی
انہوں نے کہا کہ سندھ کے کم از کم تیس اضلاع، تقریباً پورا بلوچستان اور جنوبی پنجاب شدید انسانی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، لوگ جان و مال کی حفاظت کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا ہے، یہ صورتحال ایک انسانی آفت کے مترادف ہے‘
شیری رحمٰن نے مزید کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس آفت کی شدت کے پیش نظر صورتحال سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں، انہوں نے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیا کہ وہ امدادی مہم کو فعال کریں
انہوں نےکہا ’سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے جہاں 23 اور 24 اگست کو 6 لاکھ کیوسک سے زیادہ کا بہاؤ گڈو اور پھر سکھر بیراج سے گزرے گا جس سے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کچے کا تمام علاقہ زیر آب آجائے گا اور ہزاروں خاندان بے گھر ہو جائیں گے‘
شیری رحمٰن نے نقصانات کی تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ کم از کم 216 جانیں ضائع ہو چکی ہیں، ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ کچے مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور سندھ میں 19 لاکھ 89 ہزار 868 ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں
یورپی یونین کی جانب سے امداد
دریں اثنا اس حوالے سے یورپی یونین نے پاکستان کو انسانی امداد کے لیے 7 کروڑ 60 لاکھ روپے فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے جسے جھل مگسی اور لسبیلہ کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شدید متاثرین کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا
پاکستان میں یورپی یونین کے انسانی ہمدردی کے پروگراموں کی نگرانی کرنے والی طہینی تھمناگوڈا نے کہا کہ تباہ کن سیلاب نے پاکستان میں تباہی کی ایک داستان چھوڑی ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اپنے گھروں، معاش اور سامان کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے
ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی مالی اعانت اس مشکل وقت میں سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی مدد کرنے کے لیے اہم معاونت کرے گی
بلوچستان میں 232 ہلاکتیں
دریں اثنا ہزاروں خاندان بلوچستان میں موسلا دھار بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں، جو مکانات کو بہا لے گیا اور پوری بستیاں زیر آب آ گئیں
صوبے کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ تاحال منقطع ہے کیونکہ متعلقہ حکام بلوچستان کو دوسرے صوبوں سے ملانے والی سڑک اور ریل ٹریک کو بحال کرنے میں اب تک ناکام ہیں
حکام نے مزید بارشوں کا انتباہ بھی جاری کیا ہے، سیلاب کے سبب جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد 232 تک جا پہنچی جبکہ پہاڑی ندی نالوں میں بہہ جانے والے درجنوں افراد تاحال لاپتا ہیں
صوبہ سندھ بھی بدترین سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، لوگوں گھر بار، مویشی، کاروبار اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہیلی کاپٹروں میں فضائی دوروں کے علاوہ ہے کہ حکومتی امدادی سرگرمیاں کہیں بھی نظر نہیں آ رہیں۔