فحش تصاویر کی تجارت: عریاں تصاویر کی خفیہ دنیا سگریٹ لائٹر کی مدد سے کیسے بےنقاب ہوئی

ویب ڈیسک

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ریڈاِٹ‘ (Reddit) پر ذاتی تفصیلات، مباشرت کی تصاویر اور وڈیوز شیئر کیے جانے کے بعد خواتین کو اجنبیوں کی جانب سے دھمکیوں اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک استعمال شدہ سگریٹ لائٹر کی بدولت ایسے ہی ایک بلیک میلنگ گروپ میں شامل ایک شخص کو بےنقاب کیا ہے

’اس کی عریاں تصویر کے لیے مجھے براہ راست پیغام اور پانچ پاؤنڈ بھیجو‘

’میرے پاس اس کی کچھ وڈیوز ہیں، جو میں فروخت کرنا چاہتا ہوں‘

’ہم اس کے ساتھ کیا کریں گے؟‘

آن لائن تصویروں اور تبصروں کو اسکرول کرتے ہوئے مجھے شدید کوفت ہو رہی تھی۔ وہاں ہزاروں تصویریں تھیں۔ برہنہ یا مختصر لباس میں ملبوس خواتین کی تصویروں کا بظاہر نہ ختم ہونے والا سلسلہ، جن پر مرد نازیبا تبصرے کر رہے تھے، جن میں ریپ کی دھمکیاں بھی شامل تھیں۔ میں نے جو کچھ دیکھا اس میں سے بیشتر اس قابل نہیں تھا کہ میں اُسے یہاں بیان بھی کر سکوں

میں اپنے ایک دوست کی طرف سے دی گئی ’ٹپ‘ کی مدد سے ان تصویروں تک پہنچی تھی۔ اس کی ایک تصویر انسٹاگرام سے اٹھا کر ’ریڈاِٹ‘ پر پوسٹ کر دی گئی تھی۔ یہ عریاں تصویر نہیں تھی لیکن پھر بھی اس پر جنسی اور گھٹیا زبان میں تبصرے کیے جا رہے تھے۔ یہ تصویر دیکھنے کے بعد میری دوست اپنے اور اس جیسی دوسری عورتوں کے لیے فکرمند تھی

جو مجھے ملا وہ ایک قسم کا ایک بازار تھا۔ سینکڑوں گمنام پروفائلز عورتوں کی عریاں تصاویر شیئر کرنے اور اُن کی خریدوفروخت کے لیے مخصوص تھیں اور یہ سب کام بظاہر تصویروں میں دکھائی گئی خواتین کی اجازت کے بغیر ہو رہا تھا

یہ ریوینج پورن کہلانے والی مکروہ سرگرمیوں کے نئے ارتقا کی سطح کی طرح لگ رہا تھا، جہاں لوگوں کی ذاتی اور نجی جنسی تصاویر یا ویڈیوز کو ان کے سابق پارٹنر اُن کی رضامندی کے بغیر آن لائن شائع کرتے ہیں

نہ صرف یہ ذاتی اور نجی تصاویر ہزاروں سامعین کے لیے شیئر کی جا رہی تھیں بلکہ مرد، جو اس گمنامی کے نقاب کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، ان خواتین کی حقیقی زندگی کی شناخت کو بے نقاب کرنے کے لیے مل کر کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

یہ عمل ’ڈوکسنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے (ڈوکسنگ سے مراد عام طور پر بدنیتی کے ساتھ انٹرنیٹ پر کسی کے بارے میں نجی یا اس کی شناخت ظاہر کرنے والی معلومات شیئر کرنا ہوتا ہے)۔

ایڈریس، فون نمبر اور سوشل میڈیا ہینڈلز آن لائن تبدیل کیے جا رہے تھے۔۔۔ پھر خواتین کو جنسی تبصروں، دھمکیوں اور بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا تھا

ایسا لگا، جیسے میں انٹرنیٹ دنیا کے ایک انتہائی تاریک حصے میں غلطی سے پہنچ گئی ہوں لیکن یہ سب ایک بڑے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ہو رہا تھا۔

یعنی ’ریڈاِٹ‘ (Reddit) خود کو ’انٹرنیٹ کا صفحہ اول‘ قرار دیتا ہے۔ لوگوں کو ہر قسم کے مفادات کے لیے وقف کردہ ’سب ریڈاِٹ‘ (subreddits) کے نام سے مشہور فورمز قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دے کر اس کے تقریباً پانچ کروڑ روزانہ کے سامعین ہیں اور تقریباً چالیس لاکھ صرف برطانیہ میں ہیں

زیادہ تر ’سب ریڈاِٹس‘ بے ضرر ہیں لیکن ’ریڈاِٹ‘ (Reddit) کی متنازعہ جنسی مواد کو پوسٹ کرنے کی سہولت کی اپنی ایک تاریخ ہے

سنہ 2014ع میں مشہور شخصیات کی نجی تصویروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ سائٹ پر شیئر کیا گیا تھا اور چار سال بعد ’ریڈاِٹ‘ (Reddit) نے ایک گروپ بند کر دیا، جو مشہور شخصیات کی فحش وڈیوز کے لیے ایک قسم کی مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا تھا

ان تنازعات کے بعد امریکہ میں مقیم اس کمپنی نے سخت قوانین متعارف کرائے

میں یہ سمجھنا چاہتی تھی کہ ’ریڈاِٹ‘ (Reddit) پر خواتین کی تصاویر اب بھی کیسے شیئر کی جا رہی ہیں اور متاثرہ افراد کے لیے یہ سب کچھ کتنا تکلیف دہ ہے

اور پھر میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ ان ساری سرگرمیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں

میں دیکھ سکتی تھی کہ ’ریڈاِٹ‘ کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں مؤثر نہیں تھیں

پورے برطانیہ سے خواتین کی مباشرت والی تصاویر کو شیئر کرنے کے لیے درجنوں اکاؤنٹس ’سب ریڈاِٹ‘ میں موجود تھے

سب سے پہلے جس اکاؤنٹ پر میری نظر پڑی، وہ جنوبی ایشیائی خواتین کی تصاویر پر مرکوز تھے اور ان کے بیس ہزار سے زیادہ صارفین تھے، جن میں سے زیادہ تر ایک ہی کمیونٹی کے مرد لگتے تھے، جن پر انگریزی، ہندی، اردو اور پنجابی میں تبصرے پوسٹ کیے گئے تھے۔ کچھ خواتین کو میں نے پہچانا کیونکہ ان کی سوشل میڈیا پر بڑی زیادہ فالوئنگ ہے۔ چند ایک کو میں ذاتی طور پر بھی جانتی تھی

ان ’سب ریڈاِٹ‘ گروپ میں پندرہ ہزار سے زیادہ تصاویر تھیں۔ ہم نے ان میں سے ایک ہزار کو دیکھا اور ڈیڑھ سو مختلف خواتین کی جنسی تصاویر دیکھیں۔ تبصروں میں سبھی کو گھٹیا جنسی تبصروں سے نوازا گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ان خواتین میں سے کسی نے بھی اس فورم پر اپنی ان تصویروں کے شائع کیے جانے کی اجازت نہیں دی ہوگی

جیسا کہ میری دوست نے اپنے بارے میں دریافت کیا تھا کچھ خواتین کے سوشل میڈیا سے اٹھائی گئی تصاویر تھیں اور وہ زیادہ عریاں نہیں تھیں۔ لیکن ان کے ساتھ توہین آمیز تبصرے اور بعض اوقات متاثرین کے فون اور کمپیوٹر کو ہیک کرکے ان کی عریاں تصویروں حاصل کرنے کی خواہشات کا اظہار کیا گیا تھا

ایک خاتون جس سے ہم نے رابطہ کیا وہ کہتی ہیں ”جب سے ایک گروپ نے انسٹاگرام سے کراپ ٹاپ میں اس کی تصویر پوسٹ کی اُسے سوشل میڈیا پر ‘ہر روز’ جنسی پیغامات موصول ہوتے ہیں، جن میں اس کے ساتھ ریپ کرنے کی باتیں بھی شامل ہوتی ہیں“

‘سب ریڈاِٹ’ پر موجود مرد خواتین کی برہنہ تصاویر بھی شیئر اور فروخت کر رہے تھے۔ یہ تصاویر سیلفیز کی طرح لگ رہی تھیں، جو شیئر کرنے والوں نے آپس میں ایک دوسرے کو بھیجی تھیں اور وہ عام لوگوں کے استعمال کے لیے نہیں تھیں

ایسی وڈیوز بھی تھیں – اس سے بھی زیادہ عریاں – جہاں ایسا ظاہر ہوتا ہے، جیسے خواتین کو خفیہ طور پر جنسی تعلقات کے دوران فلمایا گیا ہو

 ’میں تمہیں تلاش کر لوں گا‘

پیغامات کے ایک سلسلے (تھریڈ) میں ایک برہنہ عورت کی اورل سیکس کی تصاویر شامل تھیں

ایک گمنام صارف نے اس کے لیے توہین آمیز نام استعمال کرتے ہوئے پوچھا ’کیا کسی کو بھی اس کی کوئی وڈیو ملی ہے؟‘

ایک اور نے جواب میں کہا ’میرے پاس ہے اور یہ پورا فولڈر پانچ پاؤنڈ میں مل سکتا ہے۔ مجھے کلک کرو‘

تیسرے نے دریافت کیا تھا ’اس کی سوشل معلومات کیا ہیں؟‘

سلمیٰ (فرضی نام) کی وڈیوز پچھلے سال ’سب ریڈاِٹ‘ پر شیئر کی جارہی تھیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان وڈیوز کو ان کے ایک سابق ساتھی نے خفیہ طور پر فلمایا تھا

جب اس کی نجی اور ذاتی تفصیلات فورم پر پوسٹ کی گئیں تو اُسے نہ صرف اپنے ساتھی کی دھوکہ دہی سے نمٹنا تھا بلکہ اسے سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے اور دھمکیوں کے طوفان کا بھی سامنا کرنا تھا

”اگر تم نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم نہیں کیا تو میں ان تصویروں کو تمہارے والدین کو بھیج دوں گا۔ میں تمہیں تلاش کرلوں گا۔۔۔ اگر تم میرے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر راضی نہیں ہوئی تو میں تمہیں ریپ کروں گا‘ اسے ہراساں کرنے والوں نے اسے مزید تصاویر کے لیے بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کی

وہ کہتی ہیں ”ایک پاکستانی لڑکی ہونے کے ناطے، ہماری کمیونٹی میں یہ درست نہیں کہ ہم شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کریں یا اس طرح کی کوئی بھی چیز – یہ ہمارے ہاں قابل قبول نہیں“

سلمیٰ (فرضی نام) نے سماجی تعلقات یا گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا، اور بالآخر خودکشی کرنے کی بھی کوشش کی۔ خودکشی کی کوشش کے بعد اسے اپنے والدین کو بتانا پڑا کہ کیا ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی ماں اور باپ دونوں ڈپریشن کا شکار ہو گئے

وہ بتاتی ہیں ”اُس وقت جو کچھ بھی ہو رہا تھا، اس پر میں نے شرمندگی محسوس کی اور میں نے یہ بھی سوچا کہ میں نے اپنے والدین کی کیا حالت کر دی ہے“

سلمیٰ نے کئی بار ‘ریڈاِٹ’ (Reddit) کی انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ ایک بار رابطہ کرنے پر تو ایک وڈیو تقریباً فوری طور پر ڈیلیٹ کر دی گئی تھی لیکن دوسری کو ہٹوانے میں چار مہینے لگے۔ لیکن یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ حذف شدہ (ڈیلیٹڈ) مواد پہلے ہی دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر شیئر کیا جا چکا تھا اور آخر کار ایک ماہ بعد اصل ‘سب ریڈاِٹ’ پر دوبارہ پوسٹ کیا گیا

”سب ریڈاِٹ، جس نے سلمیٰ کو شرمندہ اور ہراساں کیا تھا اسے ‘زپّومیڈ’ نامی صارف نے ترتیب دیا تھا اور وہی اس کو ماڈریٹر کے طور پر چلاتا تھا – ‘زپّومیڈ’ ایک ایسا نام، جو بالآخر اس کا سراغ لگانے کا اشارہ فراہم کرے گا

ماڈریٹر کے طور پر ‘زپّومیڈ’ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ اس کا ‘سب ریڈاِٹ’ ڈسکشن گروپ ‘ریڈاِٹ’ (Reddit) کے رہنما اصولوں پر عمل در آمد کر رہا رہے۔ لیکن اس نے اس کے بالکل برعکس کیا

سب سے پہلے اس کے ‘سب ریڈاِٹ’ کو ٹریک کرنے کے بعد میں نے اسے تین بار اس کے نئے ورژن بناتے ہوئے دیکھا ہے – ہر پچھلے ورژن کو شکایات کی وجہ سے (Reddit) کی انتظامیہ بند کر دیتی تھی۔ ہر بار اکاؤنٹ کے نئے ورژن نے ایک ہی نام کی مختلف حالتوں کا استعمال کیا، جس میں نسلی گندگی بھی شامل ہے، یہ اتنی گندی زبان تھی کہ اسے یہاں دوہرایا نہیں جاسکتا ہے۔ ہر ایک ورژن ایک ہی جیسے مواد سے بھرا ہوا تھا – اور ہر ایک کے ہزاروں فعال صارفین تھے

عریاں تصویروں کا کاروبار اتنا زیادہ پھیل چکا ہے کہ آن لائن بدسلوکی کے ماہرین اسے اب ایک نیا نام دے سکتے ہیں: ‘کلیکٹر کلچر’

اس قسم کے آن لائن بدسلوکی کے موضوع پر وسیع معلومات رکھنے والی شمالی برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈرہم میں قانون کی پروفیسر کلیئر میک گلن کہتی ہیں ”یہ صرف بدکاروں یا عجیب و غریب سوچ والے لوگوں یا خراب فطرت رکھنے والوں کی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ ان جیسے لوگوں کے ساتھ اس میں لاکھوں افراد بھی شامل ہیں“

پروفیسر میک گلین کا کہنا ہے کہ تصاویر کی تجارت چھوٹے، نجی چیٹ گروپس میں میسجنگ ایپس کے ساتھ ساتھ ویب سائٹس میں ہوتی ہے جہاں لاکھوں مرد سرگرم ہوتے ہیں

وہ کہتی ہیں کہ اس گروپوں میں شامل بہت سے مرد اجازت کے بغیر حاصل کی گئی تصویروں کے بڑے ذخیرے بنا کر ان کمیونٹیز میں ایک بلند مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ تصویریں جمع کرنے کے اس پاگل پن کی وجہ سے رجحان کو ختم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ عائشہ کو اُس وقت پتہ چلا جب حذف شدہ (ڈیلیٹڈ) ویڈیوز کو دوسرے گروپوں میں دوبارہ پوسٹ کیا گیا تھا

‘ریڈاِٹ’ (Reddit) سے اپنی تصاویر ہٹانے کی کوشش کرنے والی سات خواتین نے مجھے بتایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ کمپنی ان کی مدد کے لیے کافی کام کر رہی ہے۔ چار نے کہا کہ ‘ریڈاِیٹ’ کے ذریعہ مواد کو کبھی نہیں ہٹایا گیا تھا اور کچھ کو مواد کو حذف کرانے کے لیے آٹھ ماہ تک کوششیں کرنا پڑی تھیں

‘ریڈاِٹ’ (Reddit) نے ہمیں بتایا ہے کہ اس نے پچھلے سال صرف اٹھاسی ہزار سے زیادہ بغیر اجازت کے پوسٹ کی گئی جنسی تصاویر کو ہٹایا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو ‘انتہائی سنجیدگی سے’ لیتا ہے

اس کا کہنا ہے کہ یہ خودکار ٹولز کا استعمال کرتا ہے اور اس میں عملے کی ایک ٹیم ہے، جو بغیر اجازت شائع ہونے والی مباشرت کی تصاویر کو تلاش کرنے اور ہٹانے کا کام کرتی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ فورمز کو بند کرنے سمیت دیگر نگرانی کا کام بھی کرتا ہے اور پھر باقاعدگی سے کارروائی کرتا ہے

کمپنی کے ترجمان نے کہا ”ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس اس مواد کو زیادہ تیزی سے اور درست طریقے سے روکنے، اس کا پتہ لگانے اور اس پر کارروائی کرنے کے لیے مزید کام کرنا ہے، اور ہم اب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ٹیموں، ٹولز اور عمل میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں“

ٹیک کمپنیوں کی طرح برطانیہ کا قانون خواتین کو ان کی نجی تصاویر کو آن لائن شیئر کرنے سے روکنے میں کافی نہیں ہے

جب جارجی سے ایک اجنبی نے رابطہ کیا اور بتایا کہ اس کی واضح تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر کی جا رہی ہیں، تو وہ پولیس کے پاس گئی۔ وہ جانتی تھی کہ ان تک صرف ایک شخص کی رسائی ہو سکتی تھی

وہ کہتی ہیں ”میں اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کہ ان تصویروں کو کتنے لوگوں نے پہلے ہی دیکھ لیا ہوگا؟ اور زیادہ لوگوں کو انہیں دیکھنے سے روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ نہ جانے اس لمحے ان تصویروں کو اور بھی کتنے زیادہ لوگ دیکھ رہے ہوں گے“

اس کے سابق ساتھی نے اسے تصاویر شیئر کرنے کا اعتراف کرنے کے لیے ٹیکسٹ کیا، لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس نے اسے بتایا کہ ’اس کا مطلب مجھے تکلیف دینا یا شرمندہ کرنا نہیں تھا‘

اس کا یہ اعتراف کہ ‘اس کا مطلب مجھے تکلیف دینا یا شرمندہ کرنا نہیں تھا’ اس قانون میں سقم ثابت ہوا، کیونکہ اب اُس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ پورے برطانیہ میں ‘ریوینج پورن’ کے خلاف موجودہ قانون سازی کے لیے اس بات کا ثبوت درکار ہے کہ بغیر اجازت کے فوٹو شیئر کرنے والا شخص متاثرہ کو تکلیف پہنچانے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ لا کمیشن نے جو حکومت کے لیے ایک آزاد مشاورتی ادارہ ہے، نقصان پہنچانے کے ارادے کو ثابت کرنے کی شرط کو ہٹانے کی سفارش کی ہے۔ لیکن آن لائن سیفٹی بل جو فی الحال پارلیمنٹ میں زیرِ بحث ہے اس میں لا کمیشن کی تبدیلی کی تجویز شامل نہیں ہے

میں ‘زپومیڈ’ (Zippomad) کا سراغ لگانا چاہتی تھی، یہ ‘ریڈاِٹ’ (Reddit) کا وہ اکاؤنٹ تھا، جس نے سلمیٰ سمیت جنوبی ایشیائی خواتین کو نشانہ بنانے والا فورم بنایا تھا۔ جیسا کہ میں نے سائٹ پر ان کے تبصروں کی تاریخ کو دیکھا، وہاں کوئی اصلی نام، ای میل ایڈریس یا تصویریں نہیں تھیں

صرف اس کے صارف نام کے ایک اکاؤنٹ نے ایک اشارہ فراہم کیا کہ وہ کون ہے – اس نے ‘زپّو’ (Zippo) لائٹر جمع کیے اور ان میں سے ایک کو وہ فروخت کرنا چا رہا تھا۔ لہٰذا میں نے ایک جعلی اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ کیا اور اسے خریدنے کی پیشکش کی

اس نے ایک میٹنگ قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور آخر کار ہمارا خفیہ رپورٹر اس شخص کے براہِ راست سامنے آیا، جس نے ایسا فورم بنایا تھا، جہاں بہت سی خواتین کی نجی اور ذاتی زندگی کی خفیہ معلومات کو افشا کیا گیا تھا اور رازداری کے اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی تھی

اس کا نام ہمیش شنگاڈیا ہے۔ وہ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہے اور ایک بڑی کمپنی میں مینیجر کے طور پر کام کرتا ہے۔ مجھے اس کام کے پیچھے کسی ایسے شخص کے ملنے کی بالکل بھی امید نہیں تھی

پینوراما کے اس سے رابطہ کرنے کے بعد، مسٹر شنگاڈیا نے اپنا ‘سب ریڈیٹ’ ڈیلیٹ کر دیا

ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ اس گروپ کا مقصد ‘جنوبی ایشیائی خواتین کی پذیرائی’ کرنا تھا

وہ کہتے ہیں کہ صارفین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے ان کے لیے فورم کو ماڈریٹ کرنا ناممکن لگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نے کبھی کسی کی نجی تفصیلات شیئر نہیں کیں اور نہ ہی خود تصاویر کی تجارت کی اور کہتے ہیں کہ جب خواتین کے کہنے پر اس نے جنسی طور پر واضح مواد کو ہٹانے میں مدد کی

بیان میں کہا گیا ہے کہ "زیپوماد اپنے عمل پر بہت شرمندہ ہے، یہ ان کی حقیقی شخصیت کی عکاسی نہیں کرتا’

‘ریڈاِٹ’ (Reddit) نے دوسرے، ملتے جلتے گروپوں کو بھی ڈیلیٹ کر دیا ہے جن کے بارے میں ہم نے کمپنی کی انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا

اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ایک ہزار خواتین نے آخر کار اپنی تصاویر ہٹوانے میں کامیاب ہوگئیں – لیکن تصویروں کی ناپسندیدہ نمائش کی تکلیف کے بعد یہ کم ہی سہی لیکن ان کے لیے باعثِ اطمینان تو ہے

ٹیک کمپنیوں اور قانون سازوں کو اس تجارت کے ذریعے مزید خواتین کے استحصال کو روکنے کے لیے تبدیلیاں متعارف کرانے کی ضرورت ہوگی۔ جیسا کہ جارجی نے اپنی تصاویر شیئر کرنے والے سابق ساتھی کے بارے میں کہا کہ ‘میں اسے سزا نہیں دینا چاہتی۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ دوبارہ کبھی ایسا نہ کرے۔’

نوٹ: سنگت میگ نے اس رپورٹ کی تفصیلات مونیکا پلہان اور پینوراما ٹیم کے بی بی سی نیوز میں شائع فیچر سے اس مقصد کے تحت لی ہیں، تاکہ خواتین (خاص طور پر) اپنی ذاتی تصاویر اور وڈیوز شیئر کرنے کے حوالے سے احتیاط برتیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close