طبی ماہرین نے ایک شخص میں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ منکی پاکس، کووڈ 19 اور ایچ آئی وی کے مثبت ٹیسٹ کی تصدیق کی ہے، جو رپورٹ ہونے والا اپنی نوعیت کا پہلا منفرد کیس ہے
یہ تمام امراض اٹلی کے شہری چھتیس سالہ مرد میں پائے گئے، جن کو تھکاوٹ، بخار، اور گلے کی سوزش سمیت کئی علامات کا سامنا تھا
ان میں یہ تشخیص اسپین کے سفر سے واپسی کے نو دن بعد ہوئی، جہاں انہوں نے غیر محفوظ جنسی تعلقات قائم کیے تھے
طبی جریدے ’جرنل آف انفیکشن‘ میں شائع ہونے والی اس کیس اسٹڈی رپورٹ کے مطابق اطالوی شہری میں پہلی بار 2 جولائی کو کووڈ کے مثبت ٹیسٹ کی تصدیق ہوئی تھی
اگلے ہی دن ان کے جسم، نچلے اعضا، چہرے اور گلیٹس پر چھوٹے اور دردناک دانے نمودار ہوئے جن کے گرد شدید خارش تھی۔ پانچ جولائی تک یہ دانے مزید پھیل گئے اور یہ پھوڑوں میں بدل گئے۔ اس وقت انہیں پالرمو کے ایک ہسپتال لے جایا گیا
وہاں ان کا منکی پاکس کا ٹیسٹ کیا گیا، جس کا نتیجہ مثبت آیا
مریض کے جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشنز (ایس ٹی آئز) کے لیے متعدد ٹیسٹ کیے گئے۔ ان کا HIV-1 کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا جس کے بعد طبی ماہرین نے کہا کہ ان کے سی ڈی فور کاؤنٹ کو دیکھتے ہوئے ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ انفیکشن نے انہیں نسبتاً ماضی قریب میں ہی متاثر کیا ہے
مریض کا گذشتہ سال ستمبر میں ایچ آئی وی کا ٹیسٹ کیا گیا تھا، جس کا نتیجہ منفی آیا تھا
کووڈ 19 اور منکی پاکس سے صحتیاب ہونے کے بعد مریض کو 11 جولائی کو ہسپتال سے گھر پر آئسولیشن کے لیے ڈسچارج کر دیا گیا۔ اس مرحلے تک ان کی جلد کے زخم ٹھیک ہو گئے تھے، تاہم دانے خشک ہونے کے بعد چھوٹے نشان رہ گئے تھے
یونیورسٹی آف کیٹینیا کے محققین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ’یہ کیس اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح منکی پاکس اور کووڈ 19 کی علامات آپس میں گڈمڈ ہو سکتی ہیں اور کیس کی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انفیکشن کی صورت میں کس طرح صحیح تشخیص کے لیے انامنیسٹک کولیکشن اور جنسی عادات میں احتیاط بہت ضروری ہے‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’نوٹ کرنے کے لیے بیس دنوں کے بعد بھی منکی پاکس کا ٹیسٹ مثبت تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ افراد طبی علامات میں کمی کے بعد بھی کئی دنوں تک انفیکٹڈ ہوسکتے ہیں۔ نتیجتاً معالجین کو مناسب احتیاطی تدابیر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے‘
محققین نے مزید کہا: ’چونکہ یہ منکی پاکس وائرس، SARS-CoV-2 اور ایچ آئی وی کے ایک ساتھ انفیکشن کا واحد رپورٹ شدہ کیس ہے، اس لیے ابھی تک اس بات کی تائید کرنے کے لیے کافی شواہد نہیں ہیں کہ ان تمام انفیکشنز کا امتزاج مریض کی حالت کو بگاڑ سکتا ہے۔ موجودہ کرونا وبا اور منکی پاکس کے کیسز میں روزانہ اضافے کے پیش نظر صحت کے نظام کو اس صورت حال سے آگاہ ہونا چاہیے۔‘
ایران و انڈونیشیا میں ’منکی پاکس‘ کے پہلے کیس رپورٹ
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں ’منکی پاکس‘ کے کیسز میں 21 فیصد کمی رپورٹ کی گئی، جس سے امکان پیدا ہوگیا ہے کہ بیماری کا یورپ میں پھیلنا محدود ہوجائے گا
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق 25 اگست تک ’منکی پاکس‘ دنیا کے اٹھانوے ممالک تک پھیل چکا تھا اور اس کی مجموعی کیسز کی تعداد پینتالیس ہزار تک جا پہنچی تھی
ادارے کے مطابق گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں پانچ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، تاہم وہ چھ ہزار سے کم تھے
ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ اگست کے درمیانے ہفتے میں عالمی سطح پر ’منکی پاکس‘ کے کیسز میں نمایاں 21 فیصد کمی رپورٹ ہوئی، جس میں سے زیادہ تر کمی یورپ میں دیکھی گئی
عالمی ادارہ صحت کے مطابق وسط اگست کے بعد دو اسلامی ممالک ایران اور انڈونیشیا میں بھی منکی پاکس کے پہلے کیسز رپورٹ ہوئے
ادارے کے مطابق گزشتہ ہفتے 60 فیصد کیسز امریکی خطے میں رپورٹ ہوئے جب کہ یورپ میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی شرح 38 فیصد رہی
گزشتہ تین ماہ میں یہ پہلا موقع ہے کہ بیماری کے پھیلنے کے بعد اس کے کیسز میں کمی دیکھی گئی
منکی پاکس کے نئے کیسز کا آغاز رواں برس مئی میں یورپی ممالک اسپین، اٹلی اور برطانیہ سے ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے یورپ بھر میں کیسز رپورٹ ہونے لگے
اس وقت تک منکی پاکس کی بیماری اٹھانوے ممالک تک پھیل چکی ہے اور اس کی کیسز بھارت، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سنگاپور، ہانگ کانگ، ایران اور انڈونیشیا سمیت کئی ممالک میں رپورٹ ہو چکے ہیں
منکی پاکس سے بھارت سمیت یورپ و امریکی خطے میں بھی اموات ہو چکی ہیں اور گزشتہ تین ماہ کے دوران پانچ کے قریب اموات رپورٹ ہو چکی ہیں
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے اس کا نام بھی تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس ضمن میں ادارے نے لوگوں نے بھی بیماری کا نیا نام تجویز کرنے کی اپیل کی تھی
ساتھ ہی ڈبلیو ایچ او نے واضح کیا تھا کہ ادارے نے منکی پاکس کے دونوں پرانی قسموں کے وائرسز کے نام تبدیل کرکے اس میں رومن ہندسے بھی شامل کرلیے ہیں، تاکہ اس سے وائرسز کو بھی کسی ثقافت، خطے یا علاقے سے نہ جوڑا جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت نے رواں ماہ کے آغاز میں وسطی افریقہ میں پائے جانے والے ’کانگو بیسن‘ وائرس کو ’کلیڈ I‘ جب کہ مغربی افریقی خطے میں پائے جانے والے وائرس کو ’کلیڈ II‘ کا نام دیا تھا
اسی طرح رواں برس یورپ سمیت دیگر خطوں میں میں پائے گئے ’منکی پاکس‘ کے وائرسز کو ’کلیڈ I اے‘ اور ’کلیڈ II بی‘ کا نام دیا گیا تھا۔