جیسو سندھ کے ضلع تھرپاکر کے شہر مٹھی میں نائی کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کی اصل وجہ شہرت سر کے بال کاٹنا نہیں بلکہ سر پر پگڑی باندھنے کی مہارت ہے
ان کی اس مہارت کی وجہ سےان کے پاس دور دور سے لوگ صرف پگڑی بندھوانے آتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں جیسو جیسی پگڑی کوئی نہیں باندھ سکتا
جیسو پگڑیاں باندھنے کا کام گذشتہ ڈھائی دہائیوں سے کر رہے ہیں
لیکن پگڑی باندھنے کی شروعات کیسے ہوئی؟ ساٹھ سالہ جیسو اس سوال کا جواب ایک قصہ سنا کر ہیں
وہ بتاتے ہیں ”ایک مرتبہ میں دکان پر بیٹھا تھا تو وہاں سے ایک بارات گزر رہی تھی، میرے استاد بھی ساتھ تھے تو ان کو کسی نے کہا کہ باراتیوں کو پگڑیاں باندھنی ہیں۔ مجھے شوق تو تھا، پر اس وقت مجھے پگڑی باندھنی نہیں آتی تھی“
جیسو کہتے ہیں کہ اس دن انہیں احساس ہوا کہ انہیں یہ ہنر ہر صورت سیکھنا ہے
بقول جیسو ”ایک ماہ تک ہر روز بار بار پگڑی باندھ کر آخرکار میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ اب وہی لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ ہمیں سکھا دیں“
جیسو نائی کہتے ہیں ”تھرپارکر میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں تو شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی لوگ پگڑیاں باندھتے ہیں۔ دولہا تو پگڑی باندھتا ہی ہے۔ اس لیے جیسو کے بعد بھی یہ کارواں یا کام رکے نا“
انہوں نے بتایا ”مجھے لوگ دس، دس دن پہلے پیسے دے جاتے ہیں اور شادی سے ایک دن پہلے گاڑی میں اپنے گاؤں یا شہر پگڑی باندھنے لے جاتے ہیں“
اس کام کے معاوضے کے بارے میں جیسو بتاتے ہیں ”دولہے کی پگڑی باندھنے کے کوئی پانچ سو تو کوئی ایک ہزار روپے دیتا ہے“
پگڑیوں کی اقسام کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان میں مارواڑی، سندھی، وڑی، بلوچی اور بوسکی شامل ہیں۔ ”جس کو جو انداز پسند ہو، وہ ویسے باندھتا ہے اور ہر علاقے کی بھی اپنی ثقافتی حیثیت ہے تو پگڑی بھی الگ“
جیسو اس ہنر کے حوالے سے کہتے ہیں ”نوجوان آگے آئیں اور اس کام میں اپنی دلچسپی ظاہر کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسو کے بعد یہ روایت دم توڑ دے“
ان سے پگڑی بندھوانے والے ایک شخص نے بتایا کہ تھرپارکر میں جب بھی کوئی تقریب ہوتی ہے تو وہ انتظار کرتے ہیں کہ ان کی باری آئے اور جیسو ہمیں پگڑی باندھیں
وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسو کی باندھی گئی پگڑی محفل میں الگ ہی حیثیت رکھتی ہے