اگرچہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا نام کبھی عالمی تعلیمی اداروں کی رینکنگ میں نمایاں جگہ نہیں پا سکا، لیکن اس کے باوجود یہاں بڑی یونیورسٹیوں میں مختلف ممالک سے آئے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں
ان میں جنوبی کوریا، نیپال، شام، بھوٹان، افغانستان، یمن، ابوظبی، سری لنکا، فلسطین، صومالیہ اور کئی دوسرے ممالک کے طلبہ شامل ہیں۔ یہ عرصہ دراز سے پاکستان کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں
ان طلبہ میں سے بہت سارے پاکستان کی ثقافت میں رچ بس گئے ہیں اور نہ صرف یہاں کے کھانوں کے دیوانے ہو چکے ہیں بلکہ انہوں نے اُردو زبان بھی سیکھ لی ہے
بیشتر غیرملکی طلبہ تو محض بریانی کی وجہ سے اپنے کئی ہم وطنوں کو پاکستان آ کر تعلیم مکمل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں
انہی میں سے ایک نیپال کے روی پرساد گپتا ہیں، جو پاکستان کی ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں
روی پرساد کہتے ہیں ”پاکستان میں اعلٰی تعلیم کے چار سال بیرون ملک سے آئے طلبہ کی زندگی بدل دیتے ہیں“
انہوں نے کہا ”بیرونِ ممالک کے طلبہ پاکستانی ثقافت، تعلیمی سرگرمیوں اور یہاں کے رہن سہن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ باہر سے آنے والے تمام غیرملکی طلبہ پاکستانی بریانی سے ضرور لطف اٹھائیں گے“
ملک کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں ایک سری لنکن طالب علم عاضیر احمد کے مطابق، انہوں نے ”حب الوطنی پاکستانیوں سے سیکھی ہے“
عاظیر نے کہا ”پاکستانیوں میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور انہوں نے خود پاکستانیوں سے اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھا ہے“
تاہم عاضیر احمد کو پاکستانی تعلیمی نظام میں رٹہ سسٹم کچھ زیادہ پسند نہیں آیا۔
وہ کہتے ہیں ”اُن کے ملک سری لنکا میں تعمیری تعلیمی نظام ہے، جہاں طلبہ کو خود سے کچھ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں زیادہ تر تعلیم یاداشت پر منحصر ہے“
انہوں نے کہا ”پاکستان میں کوئی چیز نہ سمجھنے کے باوجود آپ اگر ایک مختصر سلیبس یاد کر لیں گے تو آپ سوال کا جواب لکھ کر آگے کے لیول پر جا سکتے ہیں۔ یقیناً اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی یادداشت بہت مضبوط ہے اور وہ کوئی بھی سوال آسانی سے یاد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں“
”لیکن طلبہ کو سمجھنے کی صلاحیت پر دھیان دینا چاہیے کیونکہ مستقبل میں جب یہ طلبہ عملی میدان میں جائیں گے تو ان کو مشکلات کا ایک پہاڑ سر کرنا ہوگا، جو محض یادداشت کی بدولت ممکن نہیں“
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سلیبس کی تکمیل سری لنکا سے کہیں پہلے ہو جاتی ہے
عاضیر احمد پاکستانیوں کے خالص پن اور مہمان نوازی سے بھی متاثر ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا ”ہم جتنے بھی لوگوں سے ملے ہیں ان کے دل صاف ہیں۔ یہاں کے لوگ اتنے مہمان نواز ہیں کہ اکثر جب ہم مقامی ہوٹلوں میں کھانا کھانے جاتے ہیں تو ہم سے پیسے بھی نہیں لیے جاتے۔ میں یہاں کے لوگوں کی تعریف الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا“
افغانستان سے بین الاقوامی تعلقات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان آنے والے سید ادریس ہاشمی یہاں ہونے والے تحقیقی کام سے بہت متاثر ہیں۔
اس حوالے سے وہ کہتے ہیں ”پاکستان میں تعلیمی سطح کافی بلند ہے۔ ہم جب یہاں آئے تو تحقیقی کام کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہاں آنے کے بعد ہمارے تجربات میں اضافہ ہوا“
پاکستان میں پڑھنے والے بہت سے غیرملکی طلبہ سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز، میڈیکل اور انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہی میں سے ایک صومالیہ کے محمود ابدیریسک ہیں، جو لاہور کی ایک یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور آخری تعلیمی سال میں ہیں
محمود ابدیریسک کے خیال میں پاکستان کا تعلیمی نظام بہت سارے ممالک سے بہترین درجے پر ہے اور وہ اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد اپنے وطن لوٹ کر یہاں سے سیکھی ہوئی چیزوں کو اپنے کیریئر میں استعمال کریں گے
سری لنکا کے روی پرساد پاکستان کے طرز زندگی کو پسند کرتے ہیں اور ان کے مطابق یہ دنیا بھر میں منفرد ہے ”یہاں چوبیس گھنٹے مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں۔ یہاں رات کے وقت زندگی عروج پر رہتی ہے جو دیگر ممالک میں آپ کو نہیں ملے گی“
انڈونیشیا کے شہر بنڈونگ سے اسلام آباد کی انٹرنیشنل یونیورسٹی میں بین الااقوامی تعلقات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے شاہ احمد پاکستان کے رواجوں سے بہت متاثر ہیں
شاہ احمد کہتے ہیں ”یہاں کی تہذیب بہت نرالی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ پاکستانیوں کے ساتھ کیفے یا ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہیں تو وہ کہتے ہیں آج کھانے کے پیسے ہم دیں گے، آپ اگلے ہفتے دے دینا۔ لیکن اگلے ہفتے یہ لوگ پھر کھانے کے پیسے دے دیتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کی ثقافت مجھے بہت زیادہ پسند ہے“