اس وقت یورپ کے تمام بڑے دریاؤں میں پانی اپنی کم ترین سطح پر آ چکا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں آبی ماحولیاتی نظام کو مزید خراب کرنے کا سبب بنیں گی۔ کیا یورپی دریا اور جھیلیں خشک سالی کے اثرات سے نکل پائیں گے؟
براعظم یورپ کو گرمی کی لہروں نے، جس شدت سے اپنی لپیٹ میں لیا ہے، اُس کا نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ تمام دریاؤں میں پانی اپنی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ دریائے رائن، دریائے ڈینیوب اور دریائے پو جیسی اہم آبی گزرگاہیں گرمی کی شدت اور پانی کی انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اس وجہ سے زراعت، تجارت، پینے کے پانی اور قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
یورپ میں خشک سالی پر نگاہ رکھنے والے ادارے کے مطابق براعظم یورپ کے تقریباً 50 فیصد حصے کو خشک سالی کی وارننگ دے دی گئی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے اسے 500 سالوں کی بدترین خشک سالی قرار دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فوسل ایندھن کو جلانے یا اس کا استعمال اس سیارے کو مزید گرم بنانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس صورتحال میں گرمی کی لہروں اور خشک سالی میں مزید شدت کی توقع کی جا رہی ہے۔ اب تمام ممالک کو اپنے اعمال کے نتائج سے نمٹنا ہو گا۔
نتائج کیا نکلیں گے؟
دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی سطح کم ہونا، جہاں انسانوں کی بہبود و بقاء کے لیے خطرناک ہے، وہیں یہ جنگلی حیات کے لیے بھی شدید نقصان دہ ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ کے پروگرام آفیسر خوزے پابلو موریلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب پانی کی سطح گرتی ہے تو رہائشی جگہ محدود ہو جاتی ہے، اس طرح پودوں اور جانوروں کی آبادی کا ایک ساتھ رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ دونوں کے لیے جگہ تنگ پڑنے لگتی ہے۔ پانی کا معیار گرتا ہے اور ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔
موریلو نے مزید کہا، ”یہ نقصان صرف دریاؤں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس سے ماحولیاتی نظام تہہ و بالا ہو سکتا ہے۔ اس نظام کے بگڑنے سے دریا کی طرف سے میسر ہونے والی خدمات، جیسے کہ پینے کے پانی، خوراک کی فراہمی، آبپاشی اور غذائی اجزاء کی فراہمی وغیرہ کا نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔
چونکہ گرم پانی بیکٹیریا اور دیگر آلودگیوں کے لیے نہایت موافق ہوتا ہے، اس لیے پینے کے پانی میں آلودگی کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ موریلو کے بقول،”جب ایک ماحولیاتی نظام طویل عرصے تک زیادہ دباؤ میں رہتا ہے تو اس کا بحال ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
دریاؤں کو قدرتی حالت میں واپس کیسے لایا جائے؟
جب دریاؤں میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہو جائیں تو وہ عالمی درجہ حرارت کے خلاف لڑنے کے متحمل نہیں رہتے اور اس طرح وہ سیلاب میں پانی کو روکنے کے قابل نہیں رہتے۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ اور حالت کو بحال کرنا ان مسائل کا ایک حل ہے۔ یہ مقصد غیر استعمال شدہ ڈیموں اور دیگر رکاوٹوں کو ہٹا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پانی کو ایک بار پھر بغیر کسی رکاوٹ کے آزادانہ طور پر بہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے
یورپ کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ سن 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق براعظم یورپ کو کم از کم 1.2 ملین گھروں اور دیگر رکاوٹوں کا سامنا ہے، جو دریاؤں اور ندیوں کے بہاؤ کو متاثر کر رہے ہیں۔
‘ ڈیم ریموول یورپ‘ نامی ادارہ ڈیموں کی مخالفت کرنے والے ماحولیاتی گروپوں کا اتحاد ہے، جس میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ، ورلڈ فش مائیگریشن فاؤنڈیشن اور ری وائلڈنگ یورپ شامل ہیں۔ اس کے مطابق پانی کے بہاو کو بہتر بنانے کے لیے سن 2021ء میں 17 یورپی ممالک میں کم از کم 239 رکاوٹوں کو ہٹایا گیا، جس میں اسپین، فرانس اور سویڈن سب سے آگے ہیں۔
یہ گروپ پورے براعظم یورپ میں پائے جانے والے متعدد گروپوں میں سے ایک ہے، جو دریاؤں کو زیادہ قدرتی حالت میں واپس لانےکے لیے کوشاں ہیں۔ ایک بار پانی کا بہاؤ بہتر ہو جائے تو مقامی مچھلیاں اور پودے خود کو بہت جلدی دوبارہ منظم کر لیتے ہیں
موریلو کے بقول، ”ہمارے پاس دریاؤں کو خشک سالی کے اثرات سے نکالنے کے بہت سے طریقے موجود ہیں۔ مجموعی طور پر میٹھے پانی کے ماحولیاتی نظام پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،”یہ ضروری ہے کہ ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور اسے مزید جامع بنانے پر غور کیا جائے۔ اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ ہماری جھیلیں، دریا، نہریں اور سمندر کتنے وسیع پیمانے پر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور یہ ایک دوسرے پر کس حد تک انحصار کرتے ہیں۔‘‘
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو