پاکستان میں آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ تباہی اور بربادی کی تصویر بن گیا ہے۔ سیلاب سے ملک کے طول و عرض میں پھیلے کروڑوں افراد امداد کے منتظر ہیں، جن میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن تک اب بھی کوئی امداد نہیں پہنچ سکی
اتنی بڑی آفت پر ملک اور ملک سے باہر لوگ دل کھول کر مدد کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن جس پیمانے پر کام ہونے کی ضرورت ہے وہ نہیں ہو رہا ہے اور آج کے پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ مدد کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ بروقت اور سرعت سے امداد پہنچانے سے قاصر ہیں
عطیات اکھٹا کر کے ضرورت مندوں تک کیسے پہنچائیں، جائیں اس کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے
شدید ترین سیلاب کسے پھیلی تباہی کے بعد ملک کے چاروں صوبوں میں متاثرین کی امداد کے لیے مخیر حضرات کے ساتھ عام شہری بھی حسب توفیق حصہ ڈال رہے ہیں، جبکہ چھوٹ بڑے شہروں میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی کیمپ بھی لگ گئے ہیں
اس سلسلے میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیمیں بھی متاثرین کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں
لیکن بدقسمتی سے دوسری جانب سیلاب متاثرین کے نام پر غیر رجسٹرڈ تنظیمیں اور نوسر باز بھی متحرک ہو گئے ہیں جو سیلاب زدگان کے نام پر پیسہ اور اشیا اکٹھی تو کر رہے ہیں مگر شکایت یہ ہے کہ وہ متاثرین تک نہیں پہنچ پاتیں
اسی ضمن میں پنجاب ڈیزاسٹر حکام کے مطابق ایسے افراد کا راستہ روکنے کی حکمت عملی بنانے کے لیے جمعرات کے روز محکمہ سوشل ویلفیئر سے مل کر اجلاس بلایا گیا ہے۔ جب کہ پشاور میں بھی ضلعی انتظامیہ نے کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے
پشاور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق پچھلے دو دن میں (اس رپورٹ کے شائع ہونے تک) 129 ایسے کیمپس بند کر دیے گئے ہیں جو کہ غیر رجسٹرڈ شدہ تنظیموں کی جانب سے عطیات جمع کروانے کے لیے لگائے گئے تھے
لیکن اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسے غیر رجسٹرڈ گروپس بھی ہیں، جو حالات کی سنگینی کے پیش نظر واقعی سیلاب متاثرین کی مدد کر بھی رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسے تمام گروہ جعل سازی کر رہے ہیں
سماجی تنظیموں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے پر یہ منصوبہ بندی مشکل ہوتی ہے کہ کون ذاتی طور پر فنڈز جمع کر کے غبن کر رہا ہے اور کون حق داروں تک پہنچا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ شہریوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بااعتماد گروپس، رجسٹرڈ تنظیموں کے ذریعے ہی امداد کریں
فنڈز خوردبرد ہونے سے روکنے کی حکمت عملی
ڈائریکٹر جنرل پنجاب ڈیزاسٹر میجمنٹ فیصل فرید کا کہنا ہے کہ سیلاب ہو یا زلزلہ، اس طرح کی آفت کے موقعوں پر لوگ امدادی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں، مگر صرف حکومت یا رجسٹرڈ تنظیموں یا اداروں کو یہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن ہمدردی کے تحت کچھ لوگ اپنے طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ انہیں حکومت یا تنظیموں پر اعتماد نہیں، وہ خود امداد جمع کر کے متاثرین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اصل اور نقل کی پہچان مشکل ہوتی ہے
فیصل فرید کے بقول 2010 کی طرح اس بار بھی سیلاب متاثرین کے نام پر امداد جمع کر کے غائب کرنے والے نوسربازوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں
اسی لیے جمعرات کو صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر پنجاب کی زیر صدارت ایوانِ وزیرِ اعلیٰ میں اجلاس بلایا گیا ہے، جس میں غیر رجسٹرڈ تنظیموں یا پیسے جمع کر کے غائب کرنے والوں کے خلاف حکمت عملی پر غور کیا جائے گا
دوسری طرف پشاور میں 29 اگست کو سٹی سب ڈویژن میں 63، شاہ عالم میں 17، پشاور صدر میں 26 اور متنی کے علاقے میں 23 ایسے کیمپ بند کروا دیے گئے جو غیر معروف افراد اور غیر رجسٹرشدہ تنظیموں کی جانب سے لگوائے گئے تھے
ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان نے بتایا کہ ’پشاور میں عوامی شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ مختلف علاقوں میں کچھ لوگ کیمپ لگا کر دھوکہ دہی سے امداد جمع کر رہے ہیں جس کے بعد انتظامی افسران نے کارروائی کرتے ہوئے بیشتر ایسے کیمپوں کو ہٹا دیا ہے۔ مزید ایسے کیمپوں کو ہٹانے کے لیے کارروائی کی ہدایات بھی دے دی ہیں۔
پشاور کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں دھوکہ بازی کی شکایات تھیں وہاں رجسٹرڈ تنظیموں کے کیمپ قائم کر دیے گئے ہیں تاکہ عوام دھوکہ دہی سے بچ سکیں
تنظیمیں کیسے امدادی سرگرمیاں کر رہی ہیں؟
ملک کے لگ بھگ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر سیلاب زدگان کے لیے امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں اور امدادی سامان جمع کیا جا رہا ہے۔ ان کیمپوں میں بیشتر تو رجسٹرڈ تنظیموں یا سرکاری اداروں کی جانب سے کیمپ لگے ہیں مگر بعض شہریوں کی جانب سے پہلی بار کیمپ لگائے گئے ہیں۔ اکثر کا کہنا ہے کہ وہ نقد رقوم نہیں لے رہے بلکہ استعمال شدہ یا نیا ضروری سامان جمع کر رہے ہیں
بعض مقامات پر شہریوں کے گروپ اپنے طور پر مدد جمع کر رہے ہیں جن کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ عطیہ کرنے والوں کی اپنی صواب دید ہے کہ وہ عطیہ کرنے سے پہلے کتنی تحقیق کرتے ہیں
سوشل میڈیا گروپ میں بھی شہری فنڈز جمع کرنے کی تجاویز دے رہے ہیں۔ ایک لاکھ فالورز سے زائد کے فیسبک گروپ ’سکیری امی‘ میں متعدد فالوررز نے جب فنڈز جمع کرنے کی تجویز دی تو گروپ ایڈمن نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہاں ایسی کوئی اجازت نہیں کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کا انتظام نہیں بنا سکتے
سوسائٹی سرکل پاکستان نامی این جی او کے سربراہ عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں جنہوں نے فلاحی ادارے بنا رکھے ہیں، وہ بھی قابل اعتماد ہوتے ہیں کیونکہ ان کے نظام کی شفافیت بھی حکومتی ادارے جانچ رہے ہوتے ہیں اور انہیں اپنی شہرت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے
عبداللہ کے بقول کئی لوگ معروف اداروں کے نام پر نمائندہ بن کر امداد جمع کر کے غائب ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو چندہ یا سامان دیتے وقت متعلقہ ادارے یا تنظیم کی ہیلپ لائن پر کال کر کے چیک کرنا چاہیے
انہوں نے کہا کہ کیمپوں کے بارے میں پہلے شہریوں کو تصدیق کرنی چاہیے کہ کیا وہ جس تنظیم یا ادارے کے نام پر لگائے گئے ہیں، انہی کے ہیں یا کسی جعلساز نے لگائے ہیں
دوسری جانب امدادی کیمپوں کے علاوہ پیشہ ور گداگروں کی بھی سیلاب متاثرین کے بھیس میں امداد حاصل کرنے کی اطلاعات ہیں۔ پشاور کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر محمد احتشام الحق نے بتایا کہ تقریباً 50 فیصد پیشہ ور گداگر خود کو متاثرین ظاہر کرکے چندہ اور امداد وصول کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں، جس کو ناکام بنانے کے لیے موٹر وے سے تمام متاثرین کے کیمپس منتقل کیا جا رہا ہے
برطانیہ میں تنظیموں کی ڈیک اپیل
دوسری جانب برطانیہ کی پندرہ معتبر فلاحی تنظیموں نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور امدادی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے ڈیک اپیل شروع کی ہے، جس کے ذریعے ہنگامی بنیادوں پر امداد جمع کی جاسکے گی
ڈیک اپیل میں کہا گیا ہے کہ ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب ہے اور تیس سال کی اوسط کے مقابلے پانچ گنا بارشوں سے ہر سات میں سے ایک شخص سیلاب سے متاثر ہوا ہے اور بیس لاکھ ایکڑ زمین پر پھیلی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے
سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈیک کے سربراہ صالح سید کا کہنا تھا ’پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہماری ترجیح جانیں بچانا اور انہیں محفوظ کرنا ہے۔‘
’سیلابی ریلوں سے حیرت انگیز تباہی ہوئی ہے۔ فصلیں اور مویشی بہہ گئے ہیں جس کا مطلب ہے بھوک بڑھے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ برطانوی شہری پہلے ہی مہنگائی کے اثرات جھیل رہے ہیں مگر کم سے کم امداد بھی جانیں بچا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہم سب سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں جہاں تک ممکن ہو امداد دیں۔‘
واضح رہے کہ جب بڑے پیمانے پر آفات کم وسائل والے ممالک کو متاثر کرتی ہیں تو ڈیک اپیل کے ذریعے برطانوی امدادی تنظیمیں ہنگامی طور پر امداد جمع کرتے ہیں
ڈیک میں پندرہ تنظیمیں شامل ہیں جن میں ایکشن اگینسٹ ہنگر، ایکشن ایڈ یو کے، ایج انٹرنیشنل، برٹش ریڈ کراس، سی اے ایف او ڈی، کیئر انٹرنیشنل یو کے، کرسچن ایڈ، کنسرن ورلڈ وائیڈ یو کے، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی یو کے، اسلامک ریلیف ورلڈ وائیڈ، آکسفام جی بی، پلان انٹرنیشنل یو کے، سیو دی چلڈرن یو کے، ٹیئر فنڈ اور ورلڈ ویژن یو کے شامل ہیں۔