شدید بارشوں کے بعد اس وقت سیلاب سے پاکستان کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، جہاں لوگ ہر طرف سے آلودہ پانی میں گھرے ہوئے ہیں
سندھ اور بلوچستان میں سیلاب سے متاثر ہونے والے پچپن اضلاع کے متاثرین کو نہ صرف سیلابی پانی کے ساتھ زندگی گزارنی پڑ رہی ہے بلکہ وہ بعض اوقات آلودہ پانی کو پینے سمیت غذا کی تیاری کے لیے استعمال کرنے پر بھی مجبور ہیں
جبکہ ایک اندازے کے مطابق پچاس لاکھ افراد مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں ہیں، جس کو دیکھتے ہوئے، طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ایک ارب سے زائد ادویات کی فوری ضرورت ہے
سیلاب سے متاثرہ زیادہ تر علاقوں میں متاثرین کو محفوظ رفع حاجت کی سہولیات بھی دستیاب نہیں اور سیلابی پانی میں نہ صرف انسانی فضلہ بلکہ مردہ جانوروں کی باقیات بھی شامل ہیں، جس وجہ سے ملک بھر میں مختلف بیماریاں پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے
پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو ’واٹر بون ڈیزیز‘ کہا جاتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کو اگر بروقت طبی امداد فراہم نہ کی جائے تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج بھی ثابت ہو سکتے ہیں
ایسی بیماریوں کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ تیزی سے دیگر افراد میں بھی پھیلتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑی آبادی کو متاثر کر لیتی ہیں
پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا اکثر بیکٹیریا یا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے طور پر پہچانا جاتا ہے، جو خالصتاً آلودہ پانی سے پھیلتی ہیں
گزشتہ دو دہائیوں سے حکومتوں اور عالمی طبی اداروں نے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے اربوں روپے کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں، تاہم تاحال ادارے اور حکومتیں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کو روکنے میں ناکام ہیں
ذیل میں ان چند بیماریوں کی فہرست دی جا رہی ہے، جو آلودہ پانی سے پھیلتی ہیں:
کالرا (ہیضہ)
ہیضہ مون سون کے موسم میں ہونے والی خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے، اسے کالرا اور گیسٹرو بھی کہا جاتا ہے۔ ہیضہ کچھ خطرناک بیکٹیریاز (خوردبینی جاندار) کی وجہ سے ہوتا ہے جو خراب کھانوں، گندے پانی اور حفظان صحت کی کمی کے باعث پھیلتے ہیں. اس کی علامات میں پتلا فضلہ اور قے آنا شامل ہیں, جس کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پانی کا ضیاع اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے
ہیضے کے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے
ڈائریا/ اسہال
یہ بیماری بھی آلودہ پانی سمیت تالابوں اور سوئمنگ پولز میں موجود پانی سے بھی پھیلتی ہے، اس بیماری سے انسانی جسم کو غذا پہنچانے والے کچھ راستے سخت متاثر ہوتے ہیں، جس سے انسان کو متلی ہونے سمیت پیٹ میں درد رہتا ہے جب کہ اس سے وزن میں بھی نمایاں کمی ہوجاتی ہے، انسانی جسم کے بخارات نکلنے سے مریض نڈھال ہو جاتا ہے
پیچش
یہ بیماری بھی آلودہ پانی کے استعمال اور اس کے درمیان رہنے سے ہوتی ہے، اس میں مریض کو پیچش ہونے سمیت پیٹ میں درد کی شکایت رہتی ہے۔ اس مرض کے شکار شخص کو بخار، پٹھوں میں کھچاؤ اور جلد میں خارش اور جلن بھی محسوس ہوتی ہے
یہ عین ممکن ہے کہ کسی شخص کو آلودہ پانی سے بیک وقت ڈائریا، کالرا اور پیچش بیک وقت متاثر کریں یا پھر تینوں مرضوں میں سے دو مرض ایک ساتھ مریض پر حملہ کردیں
ٹائیفائڈ/ بخار
ٹائیفائڈ آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا ‘سلمونیلا’ کی وجہ سے ہوتا ہے. یہ بیماری آلودہ کھانے یا کسی متاثرہ شخص کے فضلے سے آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے. اسکی علامات میں کچھ دنوں تک تیز بخار، پیٹ میں شدید درد، سر درد اور قے آنا شامل ہے. اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کا جراثیم علاج کے بعد بھی پتے میں رہ جاتا ہے. اس بیماری کی تشخیص خون کا نمونہ لے کر ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے. اس کی احتیاتی تدابیر میں صاف پانی کا استمال، اچھے انٹی بیکٹیریل صابن کا استعمال اور بہتر نکاسی آب کا انتظام شامل ہے. اس کے لئے مختلف انٹی بایوٹیکس کا استمال کیا جاتا ہے
ہیپاٹائٹس اے (پیلا یرقان)
ہیپاٹائٹس اے کا شمار ان خطرناک وبائی بیماریوں میں ہوتا ہے جو جگر میں انفیکشن پیدا کرتی ہیں. آلودہ پانی اور کھانے کا استعمال اس بیماری کی بنیادی وجہ بنتا ہے کیونکہ ان میں ہیپاٹائٹس اے کا وائرس موجود ہوتا ہے. پھلوں اور سبزیوں پر بیٹھنے والی مکھیاں بھی اس بیماری کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس بیماری کی علامات جگر میں سوزش کی نشان دہی کرتی ہیں جن میں آنکھوں، جلد اور پیشاب کا پیلا ہونا (جسے جوانڈس یا پیلا یرقان بھی کہا جاتا ہے)، معدے میں درد، بھوک کا ختم ہونا، متلی ہونا، بخار اور پتلے فضلے آنا شامل ہیں. اس کی تشخیص کے لئے خون کا ٹیسٹ کیے جاتے ہیں
ڈینگی / بخار
ڈینگی بخار وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس وائرس کو پھیلانے میں ‘ایڈیس ایگیپٹی’ مچھر اہم کردار ادا کرتا ہے. اس مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر سفید اور کالی لکیریں ہوتی ہیں اور یہ دوسرے مچھروں سے عموما بڑا ہوتا ہے. یہ مچھر صبحاور شام کے وقت کاٹتا ہے. ڈینگی بخار کو "ریڑھ کی ہڈی کا بخار” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی نشانیوں میں جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد، سر درد، بخار اور جسم پر سرخ نشانات بننا شامل ہیں
ملیریا/ بخار
ملیریا ان بیماریوں میں سے ہے جس کی وجہ گندے پانی میں پیدا ہونے والی مادہ مچھر ‘انوفیلیس’ ہے. مون سون کے موسم میں پانی کے جل تھل کی وجہ سے اس مچھر کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ملیریا کی وبا پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ ہوجاتا ہے
انفلوئنزا (وبائی زکام)
وبائی زکام مون سون کے موسم کے علاوہ سرد موسم اور سیلاب جیسی صورتحال میں پھیلنے والی عام بیماری ہے. یہ نزلہ زکام "انفلوئنزا ” کی وجہ سے ہوتا ہے اور چونکہ یہ وائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے اس لئے ایک فرد سے دوسرے میں بآسانی منتقل ہوجاتا ہے. انفلوئنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے. اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں ایک ارب روپے مالیت سے زائد ادویات کی فوری ضرورت
ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث سینکڑوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پچاس لاکھ افراد مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں ہیں، جس کو دیکھتے ہوئے، طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ایک ارب سے زائد ادویات کی فوری ضرورت ہے
ایک سروے سے معلوم ہوا کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سب سے زیادہ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں
الخدمت فاؤنڈیشن کے ہیلتھ ڈویژن کے مینیجنگ ڈائریکٹر سفیان خان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ سیلاب سے تباہی بہت زیادہ ہوئی ہے اسی لیے ردعمل بھی ویسا ہی آنا چاہیے‘
انہوں نے کراچی پریس کلب میں پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسیوٹیکل اور دیگر سینئر ڈاکٹرز اور ماہرین کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بین الاقوامی اسٹڈیز کو دیکھتے ہوئے ایک اندازے کے مطابق تقریباً پچاس لاکھ افراد مختلف بیماریوں کی لپیٹ میں ہیں، اگر ہم فی مریض دوائی کے کم از کم دو سو بیس روپے رکھیں، تو تقریبا ایک ارب روپے کی ادویات درکار ہوں گی
فارم ایوو کے ہارون قاسم نے پی ایس ایچ پی کی جانب سے تیار کردہ رہنما ہدایات کا حوالہ دیا، جس میں طبی امداد کے طور پر کئی دوائیوں کی تفصیلات موجود ہیں
انہو نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ انتظامیہ میں تجربے کی کمی، بدانتظامی اور چیک کی جانے والی ادویہ کی چیکنگ نہ ہونے کے سبب سپلائی میں لیکیج ہو جاتی ہے اور لاکھوں روپے مالیت کی دواؤں کے ضیاع سے مافیا صورتحال سے استفادہ حاصل کرتا ہے
مذہبی جماعتوں کے کیمپ
این جی اوز کی جانب سے کیے گئے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ مذہبی جماعتوں کو سب سے زیادہ فنڈز ملے ہیں اور سب سے زیادہ ریلیف کیمپ بھی ان کی جانب سے لگائے گئے ہیں، یہ سروے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی امدادی سرگرمیوں میں نااہلی کو ظاہر کرتی ہے
اگرچہ زیادہ تر مذہبی جماعتیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنائی گئی ہیں لیکن امداد دینے والے اس تقسیم سے لاتعلق دکھائی دیے۔ تنظیمیں بھی اس تقسیم سے بالاتر ہو کر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے سندھ میں حکمران جماعت کی جانب سے قرآن پر یہ قسم لینے کے بعد، کہ ووٹ انہیں دیا جائے گا، امداد دیے جانے کی اطلاعات ہیں
یہ تمام چیزیں پٹن ڈولپمنٹ آرگنائزیشن کے تحت جاری کیے گئے سروے میں سامنے آئیں جو 30 جولائی سے 29 جولائی کے درمیان کیا گیا
سروے کے مطابق 95 فیصد جواب دہندگان کی جانب سے کہا گیا کہ ریلیف کیمپ کا قیام ہمدردی اور انسانیت کی خدمت کے مترادف ہے جبکہ صرف 2 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے، زیادہ تر افراد نے ’ناقص پُلوں کی وجہ سے تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں تک رسائی اور وہاں امداد تقسیم کرنے کو چیلنج قرار دیا
ایک رپورٹ کے مطابق ٹیم نے 24 اگست سے 30 اگست کے درمیان دورہ کیا تھا، ریلیف کیمپ زیادہ تر مختلف تنظیوں کے اراکین، مدراس کے طلبا اور رضاکاروں کے تحت چلائے جا رہے ہیں، جواب دہنگان کا کہنا تھا کہ انہوں نے امدادی سامان اور نقد جمع کرنے کے لیے سوشل میڈیا، ذاتی رابطے، مساجد کے ذریعے اعلانات اور گھروں کے دورے کرنے سمیت متعدد ذرائع کا استعمال کیا۔