بھارتی کسان خودکشی کیوں کر رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں پر پڑنے والے مالیاتی بوجھ خود کشیوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات مہاراشٹر میں پیش آ رہے ہیں۔

بھارت کی خوشحال ترین ریاستوں میں سے ایک مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقے میں صرف رواں سال میں اب تک چھ سو سے زائد کسان خودکشی کر چکے ہیں

سرکاری رپورٹوں میں ان میں سے بیشتر اموات کے لیے بارش کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے، جس نے ہزاروں ہیکٹر اراضی پر پھیلی فصلوں کو نقصان پہنچایا

جبکہ زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے

ماہرین کے مطابق مراٹھواڑہ کے آٹھ اضلاع میں گزشتہ برس آٹھ سو پانچ کسانوں نے خودکشیاں کر لی تھیں اور اس برس یہ تعداد اس سے زيادہ ہو سکتی ہے۔ باوجود یہ کہ سن 2021ع میں یکے بعد دیگر دو ریاستی حکومتوں نے کسانوں کے زرعی قرضے معاف کر دیے تھے

واضح رہے کہ اس خطے میں رہنے والی تقریباً 65 فیصد آبادی اپنی روزی روٹی اور پیشہ ورانہ ضروریات کے لیے مکمل طور پر زراعت اور اس سے منسلک سرگرمیوں پر انحصار کرتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے فصلوں کی پیداوار پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بہت سے لوگ اس کا شکار ہونے لگے ہیں

معروف کسان رہنما جوگندر سنگھ کہتے ہیں ”جب زراعت کی بات آتی ہے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ شعبہ غربت اور بدحالی سے جڑا ہوا ہے۔ اموات کاشتکار کمیونٹی کی انتہائی نازک نوعیت کی عکاسی کرتی ہیں اور متعدد بحران ان پر اثر انداز ہوتے ہیں‘‘

اس سال مہاراشٹر میں شدید بارشوں کے واقعات نے آٹھ لاکھ ہیکٹر اراضی پر پھیلی فصلوں کو نقصان پہنچایا، جس سے چوبیس اضلاع کے کسان شدید متاثر ہوئے، ان میں زیادہ تر کا تعلق مراٹھواڑہ اور ودربھ کے علاقوں سے ہے۔ دھان، مکئی، سویابین، کپاس، مٹر اور کیلے کی فصلوں اور دیگر سبزیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، ریاستی محکمہ زراعت کے مطابق، نصف سے زیادہ نقصان تو صرف مراٹھواڑہ کو ہوا ہے

بھارت میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی تازہ ترین رپورٹ، جو اس ہفتے کے اوائل میں شائع ہوئی، میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 5,563 زرعی مزدوروں نے خودکشی کی۔ زرعی شعبے میں خود کشی کرنے والے افراد کی تعداد میں سن 2020 کے مقابلے میں 9 فیصدا ور سن 2019 کے مقابلے 29 فیصد کا اضافہ ہوا ہے

سب سے زیادہ 1424 خودکشی کے واقعات مہاراشٹر میں سامنے آئے، اس کے بعد کرناٹک میں 999، اور آندھرا پردیش میں 584 واقعات ہوئے

زرعی پالیسی کے ایک آزاد تجزیہ کار اندرا شیکھر سنگھ کا کہنا ہے ”یہ ناقابلِ فہم ہے کہ کسانوں کی خودکشیوں میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر کپاس کی کاشت کرنے والے علاقوں میں۔ فصلوں کی ناکامی، پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت اور مارکیٹ کی کم قیمت اکثر کسانوں کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیتی ہے۔ کسان ابھی تک لاک ڈاؤن کے اثرات سے پوری طرح باہر نہیں نکل پائے ہیں‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ’براہ راست فائدہ کی منتقلی‘ (DBT) کے ذریعے کسانوں کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ وہ بی ٹی کپاس اور گنے جیسی زیادہ پانی کی ضرورت والی فصلوں کے بجائے انہیں ماحولیات سے ہم آہنگ فصلوں جیسے جوار، پھلیاں اور تیل کے بیجوں کی کاشت کرنے کی جانب مائل کر سکتی ہے

جوگندر سنگھ کہتے ہیں ”اگر ڈی بی ٹی کو کامیابی سے نافذ کیا جاتا ہے تو حکومت کسانوں کو خوش کر سکتی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو محدود رکھنے اور اس خشک خطے میں قیمتی پانی کو بچانے میں بھی مدد کر سکتی ہے‘‘

خراب موسم اور مارکیٹ کے اتارچڑھاو کے پیش نظر بینکوں کی طرف سے تعاون کی کمی کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے

جوگند ر سنگھ کا کہنا ہے ”اسی لیے کسانوں کو مقامی ساہوکاروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جو ان سے بہت زیادہ شرح سود وصول کرتے ہیں‘‘

زراعت بھارتی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ ملک کے وسیع و عریض علاقوں میں کسانوں کی بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے علاوہ لاکھوں چھوٹے کسان اپنی فصلوں کی گرتی ہوئی قیمتوں، نقل و حمل اور ذخیرہ کرنے کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ یہ زرعی ملک اب کسانوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے

کسانوں کی خودکشیاں اس نازک حالت کو بے نقاب کرتی ہیں، جس میں بھارت کے کسان اور غریب زرعی مزدور اس وقت خود کو پا رہے ہیں

دیہی علاقوں میں بڑھتا ہوا عدم اطمینان وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک چیلنج ہے، جنہوں نے سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد کسانوں کی آمدنی کو پانچ سالوں میں دوگنا کرنے کا وعدہ کیا تھا

پچھلے سال کسانوں کے ملک گیر احتجاج نے حکومت کو متنازعہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جو حکومت کے بقول زرعی شعبے کو جدید بنانے کے لیے تھے

کرانتی کاری کسان یونین کے رہنما درشن پال سنگھ کا کہنا ہے ”کسان خاص طور پر مہاراشٹر میں عدم استحکام اور تحفظ کی عدم موجودگی کا سامنا کر رہے ہیں۔ پنجاب کے کسانوں کے مقابلے ان کے کھیت چھوٹے ہیں‘‘ انہوں نے مزید کہا ”مسئلے کی شدت بہت زيادہ ہے، لیکن کسی بھی حکومت نے زرعی اشیاء کی مہنگائی کی وجہ سے کسانوں پر بڑھتے ہوئے بوجھ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی‘‘

کسانوں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت مارکیٹ کی قیمتوں کا فیصلہ کرتی ہے لیکن وہ کم از کم امدادی قیمت (MSP) کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ایم ایس پی اس قیمت کو کہا جاتا ہے کہ اگر بازار میں کسی فصل کی قیمت نیچے آ جائے تب بھی حکومت کو اس فصل کو کسانوں سے مقررہ قیمت پر واپس خریدنا ہوتا ہے

بھارتیہ کسان یونین کی خواتین ونگ کی نائب صدر کیتکی سنگھ کا کہنا تھا کہ لین دین سے پیداواری لاگت بھی نہیں نکل پاتی، جس سے کسانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے

کیتکی کہتی ہیں ”موسمیاتی تبدیليوں نے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا ہے، جن کے نتیجے میں مون سون پر منحصر غیر یقینی نظام نے غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھایا ہے۔ اسی وجہ سے کسان متاثر ہو رہے ہیں‘‘

انہوں نے کہا ”کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ زراعت کے شعبے میں روزانہ تقریباً تیس لوگ خودکشی سے مرتے ہيں!؟‘‘

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، بھارت کی 1.3 بلین کی آبادی کا دو تہائی حصہ اپنی روزی روٹی کے لیے زراعت پر انحصار کرتا ہے، لیکن زراعت ملک کی کل اقتصادی پیداوار کا صرف 17 فیصد ہے، جو کہ تقریباً 2.3 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close