پشاور میں منشیات کے خلاف مہم: کیا مرضی کے بغیر طلبہ کا ڈرگ ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

صوبائی دارالحکومت پشاور میں ضلعی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ ستمبر سے تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے طلبہ کا ’ڈوپ ٹیسٹ‘ یعنی منشیات کا ٹیسٹ کرایا جائے گا

تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اسمبلی سے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے اور زبردستی ٹیسٹ کرنا غیر قانونی ہوگا

واضح رہے کہ پشاور میں گذشتہ تین ماہ سے منشیات کے خلاف مہم جاری ہے، جس کا پہلا مرحلہ رواں ہفتے اختتام پذیر ہوا ہے۔ اس مہم میں بارہ سو سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کا تین مہینے کا علاج کیا گیا ہے

یہ مہم کمشنر پشاور اور ضلعی انتظامیہ پشاور سمیت کچھ سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے جاری رہی اور اب تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ڈوپ ٹیسٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے

اس حوالے سے کمشنر پشاور ریاض احمد محسود کہتے ہیں ”عام تاثر یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال پروان چڑھ رہا ہے اور زیادہ تر طلبہ نشے کی عادی بن چکے ہیں، تاہم اس حوالے سے کوئی سروے موجود نہیں، اس لیے انتظامیہ نے طلبہ کے رینڈم ڈوپ ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے“

انہوں نے رواں ہفتے منشیات کے خاتمے کی مہم کی اختتامی تقریب کے دوران کہا ”ڈوپ ٹیسٹ تمام سرکاری و نجی کالجز اور یونیورسٹیز میں رینڈم کیا جائے گا تاکہ ہمارے پاس سروے ہو سکے کہ کتنے طلبہ منشیات استعمال کرتے ہیں اور بعد میں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے“

تقریب میں کمشنر پشاور اور ڈپٹی کمشنر دونوں نے کہا کہ وہ پہلے خود کو ڈوپ ٹیسٹ کے لیے پیش کریں گے اور پھر طلبہ کے ٹیسٹ کیے جائیں گے

ڈوپ ٹیسٹ کیا ہے؟

ڈوپ ٹیسٹ میں کسی شخص سے خون یا پشاب کے نمونے حاصل کر کے یہ پتہ چلایا جاتا ہے کہ اس نے منشیات یا غیر قانونی ادویات کا استعمال تو نہیں کیا ہے

ڈوپ ٹیسٹ کا ذکر کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں کھلاڑیوں کے حوالے سے اکثر سننے میں آتا ہے۔ کھلاڑیوں کا یہ ٹیسٹ اس صورت میں کیا جاتا ہے، جب انتظامیہ کو شک ہو کہ انہوں نے طاقت بخش غیر قانونی دوا کا استعمال کیا ہے۔ اکثر کھلاڑیوں نے اپنے کنٹریکٹ میں ان ٹیسٹس کی حامی بھی بھری ہوتی ہے

تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ڈوپ ٹیسٹ کے حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ داخلہ کے وقت ایسی کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔ قانونی ماہرین رینڈم یا بلاترتیب ٹیسٹنگ کو طلبہ کی پرائیوسی کی خلاف ورزی بھی قرار دیتے ہیں اور بلا اجازت ٹیسٹ کو غیر قانونی بھی

اس سوال پر، کہ کیا کسی بھی شخص کا ڈوپ ٹیسٹ اس کی اجازت کے بغیر کیا جا سکتا یا نہیں؟

انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل گوہر علی نے کہا ”یہ انتہائی مکروہ عمل ہے کیوں کہ کوئی بھی ادارہ، حکومت یا شخص کسی کو بھی ڈوپ ٹیسٹ کرانے پر مجبور نہیں کر سکتا“

گوہر علی کہتے ہیں ”آپ کسی کو بھی ڈوپ ٹیسٹ کے لیے مجبور نہیں کر سکتے، لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ کسی ادارے کا ملازم ہے اور ادارے نے اس شخص کو ملازمت کے دوران پابند کیا ہے کہ وہ ادارہ کسی بھی وقت ان کا ڈوپ ٹیسٹ کرا سکتا ہے“

انہوں نے اس معاملے کے اخلاقی اور قانونی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل میڈیا تشہیر کے لیے اچھا تو ہو سکتا اور اخلاقی طور بھی ڈوپ ٹیسٹ اچھا عمل ہے لیکن اخلاق اور اور قانون دو الگ چیزیں ہیں اور ضروری نہیں ہے جو اخلاقی طور پر بہتر لگتا ہو وہ قانونی طور بھی ٹھیک ہو

گوہر علی کا کہنا تھا ”کسی بھی طالب علم کا ڈوپ ٹیسٹ ان کی مرضی کے بغیر کرانا غیر قانونی ہے اور اس کی اجازت قانون میں نہیں ہے“

ایڈووکیٹ گوہر علی کے مطابق کسی بھی شخص کا زبردستی ڈوپ ٹیسٹ کرانا آئین پاکستان کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق ’کسی کی عزت نفس اور گھر کی پرائیویسی کو مجروح نہیں کیا جا سکتا اور کسی سے ثبوت اگلوانے کے لیے ان پر تشدد بھی نہیں کیا جا سکتا‘

دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی کے پروفیسر ڈاکٹر فضل ناصر کا ماننا ہے کہ یہ ایک احسن اقدام ہے، طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور تمام ملازمین کا بھی یہ ٹیسٹ ہونا چاہیے

تاہم انہوں نے کہا کہ اس دوران اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور یہ تمام ٹیسٹ پرایئویسی میں کیے جانے چاہییں۔ اگر کسی کا ٹیسٹ مثبت بھی آ جائے تو اس کو خفیہ رکھنا چاہیے اور اس طلب علم کے لیے علاج معالجے کا بندوبست کرنا چاہیے

پشاور یونیورسٹی کے طالب علم اور طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے پشاور یونیورسٹی کے ناظم تقویم الحق کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم اس فیصلے کی حمایت کرے گی، لیکن اس سے پہلے زیادہ اہم یہ ہے تعلیمی اداروں میں منشیات کی سپلائی لائن کاٹی جائے

ڈوپ ٹیسٹ کے لیے قانون لانے کی کوششیں

رواں سال جون میں قومی اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے اراکین عبدالکبر چترالی اور صلاح الدین کی جانب سے طلبہ کے لیے ڈوپ ٹیسٹ لازمی کرانے کے لیے ایک بل بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، تاہم اس بل کو منظور نہیں کیا گیا تھا

اس بل پر بحث کے دوران بعض اراکین نے تنقید کر کے بتایا کہ ڈوپ ٹیسٹ لازمی کرانے کے بعد یہ طلبہ سمیت ان کے والدین کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ اس حوالے سے پہلے قوانین موجود ہیں، جن میں طلبہ کے نمونے لیے جاتے ہیں اور اس پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت اینٹی نارکوٹکس فورس کام رہے ہیں

یاد رہے کہ طلبہ کے لیے ڈرگ ٹیسٹ لازمی کرانے کے لیے 2018ع میں بھی ایک کوشش کی گئی تھی اور اسمبلی میں دو ایکٹ لائے گئے تھے، تاہم وہ بھی اس وقت اسمبلی سے پاس نہیں ہوئے تھے

ان میں سے ایک ایکٹ پاکستان مسلم لیگ کے اس وقت کی رکن اسمبلی آسیہ نیاز جبکہ دوسرا بل پاکستان پیپلز پارٹی کے اس وقت کی رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی نے پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ نویں جماعت سے یونیورسٹی تک کے طلبہ کے لیے سالانہ ڈرگ ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے۔ تاہم یہ قانون بھی اسمبلی سے پاس نہیں ہو سکا تھا

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ڈرگ کنٹرول کے 2013ع میں کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں ساٹھ لاکھ سے زائد افراد نے کسی نہ کسی نشے کا استعمال کیا ہے۔ منشیات کا استعمال پچیس سے انتالیس سال عمر کے افراد میں بہت عام ہے اور سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جو تقریباً دس فیصد ہے

اس کے بعد سے اس حوالے سے ادارے کا کوئی اور سروے موجود نہیں

اسی رپورٹ کے مطابق منشیات کا استعمال کرنے والوں میں آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہیروئین استعمال کرنے والے ہیں جبکہ تین لاکھ سے زائد افراد افیون استعمال کرنے ہیں

رپورٹ کے مطابق منشیات استعمال کرنے والوں میں چالیس لاکھ ایسے افراد ہیں، جو کسی نہ کسی نشے کے عادی بن چکے ہیں اور ان کو فوری علاج کی ضرورت ہے

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر اعزاز جمال مردان میڈیکل کمپلیکس میں شعبہ سائیکائٹری کے رجسٹرار ہیں اور نشہ کرنے والے مریضوں کا بھی علاج کرتے ہیں

انہوں نے بتایا ”گو کہ ملک میں طلبہ میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے کوئی سروے موجود نہیں ہے، تاہم تعلیمی اداروں اور زیادہ تر ہاسٹلز میں رہنے والے طلبہ علاج کے لیے ان کے پاس آتے ہیں“

یاد رہے کہ 2019 میں اس وقت کے وفاقی وزیر مملکت برائے انسداد منشیات شہریار آفریدی نے بھی کہا تھا کہ گلی محلوں میں آئس و کرسٹل جیسی منشیات پھیل رہی ہیں اور اسکولوں و کالجوں سمیت دیگر اداروں میں منشیات عام ہے

ڈاکٹر اعزاز کے مطابق ”ہسٹری لینے کے وقت ہم ان نوجوانوں سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ انہوں نے نشہ کیوں شروع کیا ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ دوستوں کے درمیان بیٹھ کر نشہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے عادت پڑ جاتی ہے“

ڈاکٹر اعزاز طلبہ کے ڈوپ ٹیسٹ کے حق میں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جتنی جلدی ڈرگ ٹیسٹ میں نشے کی تشخیص ہوجائے، اتنا ہی ان طلبہ کا علاج با آسانی کیا جا سکتا ہے

انہوں نے کہا ”اگر ابتدائی دنوں میں نشے کا استعمال معلوم ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں ایسے طلبہ کا علاج ہو سکتا ہے“

اس سوال پر کہ کیا تعلیمی اداروں میں ماہر نفسیات رکھنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا ”تعلیمی ادارے تو کیا صوبے میں ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں ہسپتالوں میں سائیکائٹرسٹ نہیں ہیں“

تاہم ان کا کہنا ہے ”تعلیمی اداروں میں ماہر نفسیات کو تعینات کیا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اضلاع کی سطح پر کم از کم ایک ماہر نفسیات تو ہونا چاہیے تاکہ وہ دیگر ذہنی دباؤ کے مسائل سمیت منشیات کا استعمال کرنے والوں کا علاج بھی کر سکے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close