سندھ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور صوبے کے بیشتر اضلاع زیر آب ہیں
حالیہ طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے صوبے بھر میں تباہی مچا دی ہے اور قدرتی آفتوں سے نمٹنے کے لیے فعال صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق 70 لاکھ کے قریب افراد ان طوفانی بارشوں سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ 40 لاکھ کے قریب افراد بےگھر ہیں
جتنے بھی متاثرہ افراد محفوظ مقامات تک پہنچے ہیں ان میں سے بیشتر اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات کا سامنا کر کے پہنچے ہیں۔ ابھی بھی ہزاروں افراد سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں
حالیہ بارشوں کی وجہ سے مشکلات اور اذیت کا سامنے کرنے والے یہ تمام افراد پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹر ہیں، جو گذشتہ 14 سال سے صوبے میں برسرِ اقتدار ہے۔ سوشل میڈیا کی کچھ پوسٹس کے مطابق اس بار متاثرہ افراد نے اپنے منتخب نمائندگان کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے اور شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے
یہ پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ اس کے وزرا و مشیران کو اندرونِ سندھ سے سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جب بلاول بھٹو زرداری اپنے آبائی حلقے لاڑکانہ میں بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر رہے تھے تو متاثرہ افراد نے بروقت امداد نہ ملنے پر سندھ حکومت کے خلاف شکایت کی اور ان راستہ روکا
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے گاڑی سے اتر کر متاثرہ افراد کو راستے سے ہٹایا تو بلاول بھٹو کو راستہ ملا
سکھر میں وفاقی وزیر خورشید شاہ کے بیٹے زیرک شاہ، دادو میں ایم این اے رفیق جمالی، نوشہرو فیروز میں صوبائی وزیر عبد الباری پتافی، خیرپور میں سابق صوبائی وزیر منظور وسان اور شکارپور میں قائم مقام گورنر سندھ اور صوبائی اسپیکر آغا سراج کو متاثرہ افراد کی طرف سے شدید مزاحمت اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا
حالیہ بارشوں کے باعث آنے والا یہ بدترین سیلاب ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ یہ آگ لوگوں کے اندر گذشتہ کئی سالوں سے موجود تھی اور حالیہ بارشوں نے اس کو بھڑکانے کا کام کیا ہے
جس طرح متاثرہ افراد نے اپنے منتخب کردہ نمائندگان کے سامنے شدید مزاحمت اور ردعمل کا اظہار کیا ہے، اگر یہی ردعمل اور سیاسی شعور عام انتخابات تک برقرار رہا تو پاکستان پیپلز پارٹی کا انجام کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) جیسا ہوگا، جن کو بھارتی ریاست مغربی بنگال میں 2011 میں 34 سال بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا
مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے 1977 سے لے کر 2011 تک مسلسل حکومت کی تھی۔ 2006 میں مندی گرام اور سنگور میں کسانوں کی طرف احتجاجی تحریک چلانے کے بعد لوگوں کا غصہ جو گذشتہ کئی سالوں سے ان کے اندر تھا وہ باہر آ گیا اور 2011 کے ریاستی انتخابات میں اس کو اقتدار سے ہٹا دیا
ترینمول کانگریس کی ممتا بنرجی کانگریس کی حمایت سے ریاست کی وزیراعلیث بن گئیں اور کمیونسٹ پارٹی کے 34 سالہ طویل اقتدار کا خاتمہ ہوا
اب حالت یہ ہے کہ گذشتہ برس ہونے والے ریاستی انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی نے 294 میں سے 136 سیٹوں پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ایک سیٹ بھی جیت نہیں سکی اور پارٹی کے ووٹوں کی شرح محض 4.73 فیصد ہی رہی
2014 میں کلکتہ یونیورسٹی کے نزدیک انڈین کافی ہاؤس میں میری چند یونیورسٹی کے طلبہ سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک نوجوان جن کا تعلق ضلع بنکورا سے تھا۔ اس نے بتایا کہ کمیونسٹ پارٹی کے دور اقتدار میں ان کے گاؤں میں کوئی بنیادی سہولت نہیں تھی۔ ہسپتال گاؤں سے 15 کلومیٹر دور تھا اور نہ لوگوں کے پاس روزگار تھا اور نہ ہی پینے کا صاف پانی تھا
انہوں نے بتایا کہ گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک تالاب کھودا تھا، جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا تھا اور بعد میں گاؤں والے وہ پانی استعمال کرتے تھے۔ انتخابات کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے مقامی کارکنان نے اس تالاب کو سیل کر دیا تھا اور صرف ان لوگوں کو پانی دیتے تھے جنہوں نے ان کی پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ ان نوجوانوں نے کمیونسٹ پارٹی کی بدترین حکمرانی کے کئی قصے سنائے جو اس کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنے
پیپلز پارٹی بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کمیونسٹ پارٹی نے چل کر اپنی حکومت کا خاتمہ کیا اور عوامی مقبولیت کھو دی۔ اگر سندھ کے ہر شہر میں سڑکیں بنی ہوئی ہوتیں، نکاسی آب کا نظام بہتر انداز میں کام کر رہا ہوتا اور پانی کی قدرتی گزرگاہوں پر قبضہ نہ ہوتا تو اتنی تباہ کاریاں کبھی نہیں ہوتیں۔ یہ قدرتی آفت صرف اس خطے میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ طوفانی بارشیں، سیلاب اور دیگر آفتیں دینا کے دوسرے ممالک میں بھی آتی ہیں
وہاں حکومتوں کو اپنی زمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ لوگوں کو بروقت آفت زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے، انہیں کھانے پینے فراہم کی جاتی ہیں اور ان کو طبعی سہولت مہیا کی جاتی ہے پھر دوسرے مرحلے میں ان کی بحالی کا کام کیا جاتا ہے
لیکن اس ملک میں بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب میں لاکھوں افراد کے مکان تباہ ہو گئے، ان کے ہزاروں مویشی پانی میں بہہ گئے، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں اور متاثرین کے کھانے کے لیے اناج نہیں رہا۔ حکومت ان کو بروقت امداد پہنچانے کے بجائے اس انتظار میں تھی کہ کتنے لوگ مر جاتے، کتنا نقصان ہوتا، کتنے لوگ بے گھر ہوتے ہیں اور کتنی فصلیں تباہ ہوتی ہیں
سی این این نے اپنے تازہ انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی طرف ملنے والی امداد ایمان داری سے متاثرین تک پہنچی گی یا اس میں بدعنوانی کی جائے گی جیسا کہ ماضی ہوتا آیا ہے تو بلاول صاحب نے اس سوال کا جواب گول کر دیا
بین الاقوامی میڈیا اور امداد دینے والے اداروں کی تشویش جائز ہے۔ اس وقت بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی کے تمام ووٹر سخت اذیت اور شدید مشکلات کا شکار ہیں
قمبر شہدادکوٹ کی مرکزی شاہراہِ پر سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان افراد کے ابھی تک سرکاری امداد نہیں پہنچی ہے۔ بچے سیلاب کا پانی پینے کی وجہ سے پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں
نواب شاہ میں متاثرین اپنے زیر آب مکانات سے بچا کھچا سامان اکٹھا کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک کشتی تیار کی ہے۔ متاثرین کے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے اور سر ڈھانپے کے لیے ٹینٹ
اگر صحافی اپنے محدود وسائل کے باوجود ان تک پہنچ سکتے ہیں تو بےشمار وسائل کے باوجود ضلعی انتظامیہ کیوں نہیں پہنچ پائی ہے؟ پورا خیرپور ناتھن شاہ ڈوبا ہوا ہے اور پورا شہر خالی ہو گیا یے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کراچی اور دیگر شہروں کی طرف نکل گئے ہیں
حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے اعلان کردہ ٹینٹ سٹی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ چند فلاحی تنظیمیں اور لوگ اپنی آپ مدد آپ کے تحت سیلاب متاثرین کی مدد کر رہے ہیں
بلاول بھٹو زرداری نے بین الاقوامی سفارت کاروں کو سیلاب متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کروایا۔ جب وہ موہن جو دڑو کے اوپر گئے ہوں گے تو موہن جو دڑو کو پہچان نہیں پائے ہوں گے کیونکہ پورا سندھ موہن جو دڑو بنا ہوا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو