توجہ دینا چاہتا ہوں، لیکن دے نہیں پاتا، ذہن ادہر ادہر بھٹک جاتا ہے۔۔ اگر آپ ایسی یا اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں تو دنیا میں آپ اکیلے اس طرح کے انسان نہیں
جی ہاں ، صرف آپ ہی توجہ بھٹک جانے کے مسئلے کا شکار نہیں، ذہنی ارتکاز میں کمی ایک عمومی شکایت ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو مل جل کر حل کیا جا سکتا ہے
بارسلونا میں فنانس کی اکیس سالہ طالبہ مینا کہتی ہیں ”آپ چاہے مجھے ڈرامہ کوئین ہی کیوں نہ کہیں، مگر سچ یہ ہے کہ مجھے لگ رہا ہے کہ ارتکاز کی کمی کی وجہ سے دھیرے دھیرے میں اپنی زندگی کا کنٹرول کھو رہی ہوں۔‘‘
مینا پروگرامنگ کے شعبے میں اپنا کریئر بنا چاہتی ہیں تاکہ ایک اچھی تنخواہ والی نوکری تلاش کر پائیں، لیکن توجہ اور ارتکاز کی کمی کی وجہ سے انہیں پڑھائی میں سخت مشکل کا سامنا ہے
وہ جب بھی پڑھنے بیٹھتی ہیں کہ کوڈنگ کا کام ختم کر سکیں، تو وہ فون اٹھا کر کبھی انسٹاگرام میں گم ہو جاتی ہیں، کبھی کسی کو میسج کرنے لگتی ہیں اور کبھی کوئی گیم کھیلنے میں مگن ہو جاتی ہیں
انہوں نے بتایا ”مسئلہ صرف میری تخلیقی صلاحیت اور سیکھنے کا نہیں، مجھے اپنی پسند کی کتاب اور ناول پڑھنے حتیٰ کہ مشغلے کے لیے بھی کسی حد تک ذہنی توانائی قائم رکھنے کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے‘‘
مینا نے اپنے نام کا دوسرا حصہ ظاہر نہیں کیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ممکن ہے کہ ان کا نام گوگل کرنے اور ان کے اس دماغی مسئلے سے آگہی پر ان کے لیے مستقبل میں ملازمت کی تلاش میں مسائل پیدا ہو جائیں
مینا ان ہزاروں افراد میں سے ایک ہیں، جو ذہنی ارتکاز کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہیں اور اس بابت سوشل میڈیا پر پوسٹس کے ذریعے اپنے مسائل بتاتے رہتے ہیں
نئی نسل خاص طور پر توجہ اور ارتکاز کے مسئلے کا شکار ہے اور ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ توجہ کو ایک جگہ مرکوز اور دماغ کو دوبارہ فوکس کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ جب کہ گوگل سرچ میں why cant I concentrate? یا میری توجہ کیوں مرکوز نہیں ہوتی، ایک معروف سوال ہے۔
اب تک ایسی کوئی تفصیلی مطالعاتی تحقیق نہیں کی گئی، جس میں دو نسلوں کے بڑے نمونوں کو استعمال کر کے ارتکاز کے ہنر کا جائزہ لیا گیا ہو۔ تاہم بعض تحقیقی پرچوں میں کہا گیا ہے کہ دفتروں میں کام کرنے والے افراد اور طالب علموں میں ارتکاز کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ لیکن ان تحقیقی مقالوں کو دیگر مطالعوں میں چیلنج بھی کیا گیا ہے اور دلیل دی گئی ہے کہ توجہ کا انحصار کام اور ورک فلو پر بھی ہوتا ہے، جب کہ کسی کمرہِ جماعت کا ماحول بھی بہت حد تک توجہ اور ارتکاز کو طے کرتا ہے
دوسری جانب کئی افراد ارتکاز کے وقت میں کمی اور کمپیوٹر اور موبائل اسکرینز دیکھنے کے وقت میں اضافے کو غلط بھی نہیں سمجھتے
توجہ کی بحالی اجتماعی کاوش سے
نیویارک ٹائمز سے وابستہ مصنف جوہان ہیری کے مطابق ”اگر آپ نے اسے انفرادی مسئلہ سمجھا، تو آپ پھنس جائیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر ایسی قوتوں کو سنجیدہ سمجھ کر ان کا تدارک کرنا ہوگا، جو ہماری توجہ کو کم زور بنا رہی ہیں۔‘‘
ہیری کے مطابق اجتماعی کاوشوں کے بغیر اس مسئلے سے نجات آسان نہیں ہوگی
ہیری کا کہنا ہے کہ گھنٹوں کمپیوٹر یا موبائل فونز کی اسکرینز دیکھنے والوں کو اپنے آپ کو دھیرے دھیرے تربیت دینا ہوگی، تاکہ توجہ کی کمی کا مسئلہ حل ہو پائے۔ تاہم ایسی ملازمتیں، جن میں گھنٹوں کمپیوٹر اسکرینز کو دیکھنا نوکری کا حصہ ہے، وہاں نئے لیبر قوانین درکار ہیں
فرانس میں حال ہی میں ایسے ملازمین کی مدد کے لیے ایک قانون ‘ڈسکنکٹ کا حق‘ متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ قانون یورپی پارلیمان نے بھی منظور کیا ہے اور کہا جا رہا ہےکہ اس سے کروڑوں یورپی باشندوں کو اپنی توجہ دوبارہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی
فون کس طرح ارتکاز کو برباد کرتے ہیں؟
ملٹی ٹاسکنگ کم سوچ اور کام کرنے میں زیادہ وقت گزارنے کا باعث بنتی ہے، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو توجہ مرکوز کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں
آج کے بچے اپنے فون سے کبھی دور نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ جب وہ ہوم ورک کر رہے ہوتے ہیں، بچے اکثر ایک نیا پیغام چیک کرنے یا سوشل میڈیا پر فوری وقفہ لینے کے لیے رک جاتے ہیں۔ بالغ بھی یہ کرتے ہیں، اور ہم اکثر اسے ’ملٹی ٹاسکنگ‘ کہتے ہیں
ملٹی ٹاسکنگ کام کرنے کا ایک اچھا طریقہ لگتا ہے۔ آپ سب کچھ کر رہے ہیں اور شاید کچھ مزہ بھی آ رہا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ملٹی ٹاسکنگ دراصل توجہ مرکوز کرنا مشکل بنا دیتی ہے۔ بچوں کے لیے، اس کا مطلب اکثر ہوم ورک پر زیادہ وقت گزارنا ہوتا ہے
ہم جانتے ہیں کہ ڈرائیونگ کے دوران ٹیکسٹنگ کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے، تو پھر ہوم ورک کرتے وقت ٹیکسٹنگ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
یہ وہ کام ہے جو تقریباً تمام بچے کرتے ہیں، اور زیادہ تر والدین کو بھی اپنی میز پر اپنے ٹیکسٹ پیغامات چیک کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اگر ہم ایماندار ہیں، تو ہم میں سے اکثر کے پاس کام پر ہوتے وقت ہمارا سیل فون ہاتھ کی پہنچ میں ہوتا ہے، اور ہم وقتاً فوقتاً اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ جب ہم مشق کا دفاع کرتے ہیں تو ہم اسے "ملٹی ٹاسکنگ” کہتے ہیں۔ یہ واقعی کتنا برا ہو سکتا ہے؟
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جس میں بتایا گیا ہے کہ اسمارٹ فون کی محض موجودگی ہی کسی شخص کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ مطالعہ میں، انڈر گریجویٹوں نے اپنے فون کو دوسرے کمرے میں چھوڑنے کو کہا، وہ علمی ٹیسٹوں میں ان لوگوں کے مقابلے میں بہتر کام کرتے تھے جن سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے فون کو سائلینٹ پر کر دیں اور انہیں اپنی میز پر الٹا یا بیگ میں چھوڑ دیں
علمی ٹیسٹ میں ان لوگوں کے مقابلے میں جن سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے فون کو خاموش کر دیں اور انہیں ان کی میز پر یا بیگ میں منہ کے بل چھوڑ دیں
تجربے میں، یہاں تک کہ طلباء جنہوں نے کہا کہ وہ اپنے سیل فون کے بارے میں شعوری طور پر نہیں سوچ رہے تھے، پھر بھی صلاحیت میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، جس کا مطلب ہے کہ اس خلفشار میں سے کچھ لاشعوری سطح پر ہو رہا ہے۔ یہ ہم میں سے ان لوگوں کے لیے بری خبر ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم کام کر رہے ہوتے ہیں تو فون کی طرف سے توجہ نہ ہٹانے میں ہم بہت اچھے ہیں
مجموعی شواہد نے ثابت کیا ہے کہ موبائل فون کا خلفشار، خاص طور پر ابھرتے ہوئے بالغوں میں، توجہ اور ارتکاز کے حوالے سے ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے
موبائل فون ٹیکنالوجی لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ بن چکی ہے۔ لوگ، خاص طور پر نوجوان مختلف مقاصد کے لیے موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔ موبائل فون مینوفیکچررز نئی خصوصیات اور افعال پیش کرتے ہیں، جنہوں نے صارفین کو انہیں استعمال کرنے پر مجبور کیا ہے۔ موبائل فون کی استعداد کام، تفریح، سماجی تعامل کے ہموار انضمام کی اجازت دیتی ہے اور زندگی کے معیار کو کئی طریقوں سے بہتر بناتی ہے
موبائل فون پر فون کالز، ای میل، ٹیکسٹنگ، گیمز کھیلنے، براؤزنگ اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے متعلق علمی طلب صارف کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے یا ان کی توجہ دوسری چیزوں سے ہٹا دیتی ہے تاکہ وہ کام سے متعلق سرگرمیوں پر توجہ نہیں دے پاتے۔ موبائل فون صارف کی توجہ کو محدود کرتا ہے اور بالآخر ان کی نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق ارتکاز کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کا ایک بہترین حل اپنے اسکرین ٹائم کو کم سے کم رکھنے میں مضمر ہے۔