ٹھاکر پردمن سنگھ ایک ممتاز وکیل تھے اور اپنے حوصلہ ہمت کے لئے سارے شہر میں مشہور۔۔ ان کے اکثر احباب کہا کرتے کہ اجلاس عدالت میں ان کے یہ مردانہ کمالات زیادہ نمایاں طور پر ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ اسی کی برکت تھی کہ باوجود اس کے کہ انہیں شاذ ہی کسی معاملہ میں سرخروئی حاصل ہوتی تھی۔ ان کے مؤکلوں کے حسنِ عقیدت میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں آتا تھا۔ صدر انصاف پر جلوہ فرما ہونے والے بزرگوں کی بے خوف آزادی پر کسی قسم کا شبہ کرنا کفر ہی کیوں نہ ہو مگر شہر کے واقف کار لوگ اعلانیہ کہتے تھے کہ ٹھاکر صاحب جب کسی معاملہ میں ضد پکڑ لیتے تو ان کا بدلا ہوا تیور اور تمتمایا ہوا چہرہ انصاف کو بھی اپنا تابع ِ فرمان بنا لیتے تھے۔ ایک سے زیادہ موقعوں پر ان کے جیوٹ اور جگر وہ معجزے کر دکھاتے تھے، جہاں انصاف اور قانون نے جواب دے دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹھاکر صاحب مردانہ اوصاف کے سچے جوہر شناس تھے۔ اگر موکل کو فنِ زورآزمائی میں کچھ دستریں ہو تو یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ ان کی خدمت حاصل کرنے کے لئے مال و زر کا منت کش بنے۔ اسی لئے ان کے یہاں شہر کے پہلوانوں اور پھکیتوں کا ہمیشہ جمگھٹ رہتا تھا اور یہی وہ زبردست پُر تاثیر اور عملی نکتہ قانون تھا، جس کی تردید کرنے میں انصاف کو بھی تامل ہوتا تھا۔ وہ غرور اور سچے غرور کی دل سے قدر کرتے تھے۔ ان کے خانہ میں تکلف کے آستانے بہت اونچے تھے، وہاں جھکنے کی ضرورت نہ تھی۔ انسان خوب سر اٹھا کر جا سکتا تھا۔
یہ معتبر روایت ہے کہ ایک بار انہوں نے کبھی مقدمہ کو باوجود بہت منت و اصرار کے ہاتھ میں لینے سے انکار کیا۔ موکل کوئی اکھّڑ دہقانی تھا۔ اس نے جب منت سے کام نکلتے نہ دیکھا تو ہمت سے کام لیا۔ وکیل صاحب کرسی سے نیچے گر پڑے اور بپھرے ہوئے دہقان کو سینہ سے لگا لیا۔
دولت کو زمین سے ازلی مناسبت ہے۔ زمین میں عام کشش کے سوا ایک خاص طاقت ہوتی ہے، جو ہمیشہ دولت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ سود اور تمسک اور تجارت، یہ دولت کی درمیانی منزلیں ہیں۔ زمین اس کی منزل مقصود ہے۔ ٹھاکر پردمن سنگھ کی نگاہیں بہت عرصہ سے ایک بہت زرخیز موضع پر لگی ہوئی تھیں۔ لیکن بینک کا اکاؤنٹ کبھی حوصلہ کو قدم نہیں بڑھانے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ اسی موضع کا زمیندار ایک قتل کے معاملہ میں ماخوذ ہوا۔ اس نے تو صرف رسم و رواج کے موافق ایک اسامی کو دن بھر دھوپ اور جیٹھ کی جلتی ہوئی دھوپ میں کھڑا رکھا تھا، لیکن اگر آفتاب کی تمازت یا جسمانی کمزوری یا پیاس کی شدت اس کی جان لیوا بن جائے تو اس میں زمیندار کی کیا خطا تھی۔ یہ وکلائے شہر کی زیادتی تھی کہ کوئی اس کی حمایت پر آمادہ نہ ہوا یا ممکن ہے زمیندار کی تہہ دستی کو بھی اس میں کچھ دخل ہو۔ بہرحال اس نے چاروں طرف سے ٹھوکریں کھا کر ٹھاکر صاحب کی پناہ لی۔ مقدمہ نہایت کمزور تھا۔ پولس نے اپنی پوری طاقت سے دھاوا کیا تھا اور اس کی کمک کے لئے حکومت اور اختیار کے تازہ دم رسالے تیار تھے۔
ٹھاکر صاحب آزمودہ کار سپیروں کی طرح سانپ کے ماند میں ہاتھ نہیں ڈالتے تھے لیکن اس موقع پر انہیں خشک مصلحت کے مقابلہ میں اپنی مدعاؤں کا پلّہ جھکتا ہوا نظر آیا۔ زمیندار کی تشفی کی اور وکالت نامہ داخل کر دیا اور پھر ایسی جانفشانی سے مقدمہ کی پیروی کی، کچھ اس طرح جان لڑائی کہ میدان سے فتح و نصرت کے شادیانے بجاتے ہوئے نکلے۔ زبانِ خلق اس فتح کا سہرا ان کی قانونی دسترس کے سر نہیں، ان کے مردانہ اوصاف کے سر رکھتی ہے۔ کیونکہ ان دنوں وکیل صاحب نظائر و دفعات کی ہمت شکن پیچیدگیوں میں الجھنے کے بجائے دنگل کے حوصلہ بخش دلچسپیوں میں زیادہ منہمک رہتے تھے لیکن یہ مطلق قریں قیاس نہیں معلوم ہوتا۔ زیادہ واقف کار لوگ کہتے ہیں کہ انار کے بم گولوں اور سیب و انگور کی گولیوں نے پولس کے اس حملہِ پرشور کو منتشر کر دیا۔ الغرض میدان ہمارے ٹھاکر صاحب کے ہاتھ رہا۔ زمیندار کی جان بچی۔ وہ موت کے منہ سےباہر نکل آیا۔ ان کے پیروں پر گر پڑا اور بولا ’’ٹھاکر صاحب! میں اس قابل تو نہیں کہ آپ کی کچھ خدمت کر سکوں۔ ایشور نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے لیکن کرشن بھگوان نے غریب سداما کے سوکھے چاول خوشی سے قبول کئے تھے۔ میرے پاس بزرگوں کی یادگار ایک چھوٹا سا ویران موضع ہے۔ اسے آپ کی نذر کرتا ہوں۔ آپ کے لائق تو نہیں، لیکن میری خاطر سے اسے قبول کیجئے۔ میں آپ کا جس کبھی نہیں بھولوں گا۔‘‘
وکیل صاحب پھڑک اٹھے۔ دوچار بارعارفانہ انکار کے بعد اس نذر کو قبول کر لیا۔ منہ مانگی مراد بر آئی۔
اس موضع کے لوگ نہایت سرکش اور فتنہ پرداز تھے، جنہیں اس بات کا فخر تھا کہ کبھی کوئی زمیندار انہیں پابندِ عنان نہیں کر سکا لیکن جب انہوں نے اپنی باگ ڈور پردمن سنگھ کے ہاتھوں میں جاتے دیکھی تو چوکڑیاں بھول گئے۔ ایک بدلگام گھوڑے کی طرح سوار کو کنکھیوں سے دیکھا، کنوتیاں کھڑی کیں، کچھ ہنہنائے اور تب گردنیں جھکا دیں۔ سمجھ گئے کہ یہ جگر کا مضبوط اور آسن کا پکا شہسوار ہے۔
اساڑھ کا مہینہ تھا۔ کسان گہنے اور برتن بیچ بیچ کر بیلوں کی تلاش میں دربدر پھرتے تھے۔ گاؤں کی بوڑھی بنیائن نویلی دلہن بنی ہوئی تھی اور فاقہ کش کمہار بارات کا دولہا تھا۔ مزدور موقع کے بادشاہ بنے ہوئے تھے۔ ٹپکی ہوئی چھتیں ان کے نگاہ ِکرم کی منتظر، گھاس سے ڈھکے ہوئے کھیت ان کے دستِ شفقت کے محتاج۔ جسے چاہتے تھے بساتے تھے، جسے چاہتے تھے اجاڑتے تھے۔ آم اور جامن کے پیڑوں پر آٹھوں پہر نشانہ باز، منچلے لڑکوں کامحاصرہ رہتا تھا۔ بوڑھے گردنوں میں جھولیاں لٹکائے پہر رات سے ٹپکے کی کھوج میں گھومتے نظر آتے تھے۔ جو باوجود پیرانہ سالی کے بھجن اور جاپ سے زیادہ دلچسپ اور پُرمزہ شغل تھا۔ نالے پر شور، ندیاں اتھاہ، چاروں طرف ہریالی اور سبزہ اور نزہت کا حسنِ بسیط۔
انہیں دنوں ٹھاکر صاحب مرگ ِبے ہنگام کی طرح گاؤں میں آئے۔ ایک سجی ہوئی بارات تھی۔ ہاتھی اور گھوڑے اور سازوسامان، لٹھیتوں کا ایک رسالہ ساتھ! گاؤں کے لوگوں نے یہ طمطراق اور کروفر دیکھا تو رہے سہے ہوش اڑ گئے۔ گھوڑے کھیتوں میں اینڈنے لگے اور گنڈے گلیوں میں۔ شام کے وقت ٹھاکر صاحب نے اپنے اسامیوں کو بلایا اور تب بہ آوازِ بلند بولے، ’’میں نے سنا ہے کہ تم لوگ بڑے سرکش ہو اور میری سرکشی کا حال تم کو معلوم ہی ہے۔ اب اینٹ اور پتھر کا سامنا ہے۔ بولو کیا منظور ہے!‘‘
ایک بوڑھے کسان نے بے دل لرزاں کی طرح کانپتے ہوئے جواب دیا، ’’سرکار! آپ ہمارے راجہ ہیں، ہم آپ سے اینٹھ کر کہاں جائیں گے۔‘‘
ٹھاکر صاحب تیور بدل کر بولے، ’’تم لوگ سب کے سب کل صبح تک تین سال کا پیشگی لگان داخل کر دو اور خوب دھیان دے کر سن لو میں حکم کو دہرانا نہیں چاہتا تھا۔ ورنہ میں گاؤں میں ہل چلوادوں گا اور گھروں کو کھیت بنادوں گا، سارے گاؤں میں کہرام مچ گیا تین سال کا پیشگی لگان! اور اتنی جلد فراہم ہونا غیرممکن تھا۔ رات اسی حیص بیص میں کٹی۔ ابھی تک منت و سماجت کے برتی تاثیر کی امید باقی تھی۔ صبح بہت انتظار کے بعد آئی تو قیامت بن کر آئی۔ ایک طرف تو جبر و تشدد اور ظلم و تحکم کے ہنگامے گرم تھے۔ دوسری طرف دیدہِ گریاں اور آہ ِسرد اور نالہ بیداد کے۔ غریب کسان اپنے اپنے بقچے لادے بیکسانہ انداز سے تاکتے، آنکھوں میں التجا، بیوی بچوں کو ساتھ لئے روتے بلکتے کسی نامعلوم دیارِ غربت کو چلے جاتے تھے۔ شام ہوئی تو گاؤں شہرِخموشاں بنا ہوا تھا۔
یہ خبر بہت جلد چاروں طرف پھیل گئیں۔ لوگوں کو ٹھاکر صاحب کے انسان ہونے پر شکوک ہونے لگے۔ گاؤں ویران پڑا تھا۔ کون اسے آبادکرے! کس کے بچے اس کی گلیوں میں کھیلیں۔ کس کی خواتین کنوؤں پر پانی بھریں! راہ چلتے مسافر تباہی کا یہ نظارہ آنکھوں سے دیکھتے اور افسوس کرتے، نہیں معلوم بے چارے غربت زدوں پر کیا گزری۔ آہ! جو محنت کی کمائی کھاتے تھے اور سر اٹھا کر چلتے تھے، اب دوسروں کی غلامی کر رہے ہیں۔
اس طرح ایک پورا سال گزر گیا۔ تب گاؤں کے نصیب جاگے۔ زمین زرخیز تھی، مکانات موجود۔ رفتہ رفتہ ظلم کی یہ داستاں پھیکی پڑ گئی۔ منچلے کسانوں کی ہوس ناک نگاہیں اس پر پڑنے لگیں۔ بلاسے زمیندار ظالم ہے، جابر ہے، بے رحم ہے، ہم اسے منالیں گے، تین سال کی پیشگی لگان کا کیا ذکر، وہ جیسے خوش ہوگا اسے خوش کریں گے! اس کی گالیوں کو دعا سمجھیں گے، اس کے جوتے اپنے سر اور آنکھوں پر رکھیں گے۔ وہ راجہ ہیں، ہم ان کے چاکر ہیں۔ زندگی کشمکش اورجنگ میں خودداری اور غربت کو نباہنا کیسا مشکل کام ہے! دوسرا اساڑھ آیا تو وہ گاؤں پھررشکِ گلزار بنا ہوا تھا۔ بچے پھر اپنے دروازوں پر گھروندے بنانے لگے۔ مردوں کے بلند نغمے کھیتوں میں سنائی دینے لگے اور عورتوں کی سہانی گیتیں چکیوں پر زندگی کی دلفریب جلوے نظر آنے لگے۔
سال بھر اور گزرا جب ربیع کی دوسری فصل آئی تو سنہری یادو کو کھیتوں میں لہراتے دیکھ کر کسانوں کے دل لہرانے لگتے تھے۔ سال بھر کی افتادہ زمین نے سونا اگل دیا تھا۔ عورتیں خوش تھیں کہ اب کی نئے نئے گہنے بنوائیں گے۔ مرد خوش تھے کہ اچھے اچھے بیل مول لیں گے۔ اور داروغہ جی کے مسرت کی تو کوئی انتہا نہ تھی۔
ٹھاکر صاحب نے یہ خوش آئند خبریں سنیں اور دیہات کی سیر کو چلے۔ وہی تزک و احتشام، وہی لٹھیتوں کا رسالہ، وہی گنڈوں کی فوج! گاؤں والوں نے ان کے خاطر و تعظیم کی تیاریاں کرنی شروع کیں۔ موٹے تازے بکروں کا ایک اور پورا گلہ چوپال کے دروازہ پر باندھا۔ لکڑی کے انبار لگا دیئے۔ دودھ کے حوض بھر دیئے۔ ٹھاکر صاحب گاؤں کے مینڈے پر پہنچے تو پورے ایک سو آدمی ان کی پیشوائی کے لئے دست بستہ کھڑے تھے۔ لیکن پہلی چیز جس کی فرمائش ہوئی وہ لیمونیڈا اور برف تھا۔ اسامیوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ یہ پانی کا بوتل اس وقت وہاں آبِ حیات کے داموں بک سکتا تھا مگر بے چارے دہقان! امیروں کے چونچلے کیا جانیں۔۔ مجرموں کی طرح سر جھکائے دم بخود کھڑے تھے۔ چہرہ پر خفت اور ندامت تھی۔ دلوں میں دھرکن اور خوف، ایشور! بات بگڑ گئی ہے، اب تمہیں بٹھالو۔ برف کی ٹھنڈک نہ ملی تو ٹھاکر صاحب کے پیاس کی آگ اور بھی تیز ہوئی۔ غصہ بھڑک اٹھا۔ کڑک کر بولے ’’میں شیطان نہیں ہوں کہ بکروں کے خون سے پیاس بجھاؤں۔ مجھے ٹھنڈابرف چاہئے۔ اور یہ پیاس تمہارے اور تمہارے عورتوں کے آنسوؤں سے ہی بجھے گی۔ احسان فراموش کم ظرف، میں نے تمہیں زمین دی، مکان دیئے اور حیثیت دی اور اس کاصلہ یہ ہے کہ میں کھڑا پانی کو ترستا ہوں۔ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہارے ساتھ کوئی رعایت کی جائے۔ کل شام تک میں تم میں سے کسی آدمی کی صورت اس گاؤں میں نہ دیکھوں۔ ورنہ قہر ہوجائے گا۔ تم جانتے ہو کہ مجھے اپنا حکم دہرانے کی عادت نہیں ہے۔ رات تمہاری ہے جو کچھ لے جا سکو لے جاؤ، لیکن شام کو میں کسی کی منحوس صورت نہ دیکھوں یہ رونا اورچیخنا فضول ہے۔ میرادل پتھر کا ہے اور کلیجہ لوہے کا۔ آنسوؤں سے نہیں پسیجتا۔‘‘
اور ایسا ہی ہوا۔ دوسری رات کو سارے گاؤں میں کوئی دیا جلانے والا تک نہ رہا۔ پھولتا پھلتا ہوا گاؤں بھوت کاڈیرہ بن گیا۔
عرصہ دراز تک یہ واقعہ قرب وجوار کے منچلے قصہ گویوں کے لئے دلچسپیوں کا ماخذ بنا رہا۔ ایک صاحب نے اس پر اپنی طبع موزوں کی جولانیاں بھی دکھائیں۔ بے چارے ٹھاکر صاحب ایسے بدنام ہوئے کہ گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا۔ بہت کوشش کی کہ گاؤں آباد ہوجائے لیکن کس کی جان بھاری تھی کہ اس اندھیرنگری میں قدم رکھتا، جہاں فربہی کی سزا پھانسی تھی۔ کچھ مزدور پیشہ لوگ قسمت کا جوا کھیلنے لگے مگر چند مہینوں سے زیادہ نہ جم سکے۔ اجڑا ہوا گاؤں کھویا ہوا اعتبار ہے، جو بہت مشکل سے جمتا ہے۔ آخر جب کوئی بس نہ چلا تو ٹھاکر صاحب نے مجبور ہو کر اراضی معاف کا عام اعلان کر دیا لیکن اس رعایت نے رہی سہی ساکھ بھی کھو دی۔
اس طرح تین سال گزر جانے کے بعد ایک روز وہاں بنجاروں کا قافلہ آیا۔ شام ہو گئی تھی اور پورب طرف سے تاریکی کی لہر بڑھتی چلی آتی تھی۔ بنجاروں نے دیکھا تو سارا گاؤں ویران پڑاہوا ہے، جہاں آدمیوں کے گھروں میں گدھ اور گیدڑ رہتے تھے۔ اس طلسم کا راز سمجھ میں نہ آیا۔ مکانات موجود، زمین زرخیز، سبزہ سے لہرائے ہوئے کھیت اور انسان کا نام نہیں۔ کوئی اور گاؤں قریب نہ تھا۔ وہیں فروکش ہو گئے، جب صبح ہوئی، بیلوں کے گلوں کی گھنٹیوں نے پھر اپنا نغمہ الاپنا شروع کیا اور قافلہ گاؤں سے کچھ دور نکل گیا تو ایک چرواہے نے جورو جبر کی یہ داستانِ طویل انہیں سنائی۔ سیروسیاحت نے انہیں مشکلات کا عادی بنا دیا تھا۔ آپس میں کچھ مشورہ کیا اور فیصلہ ہو گیا۔ ٹھاکر صاحب کے درِ دولت پر جا پہنچے اور نذرانے داخل کردئے۔ گاؤں پھر آباد ہوا۔
یہ بنجارے بلا کے جفاکش، آہنی ہمت اور ارادے کے لوگ تھے۔ جن کے آتے ہی گاؤں میں لکشمی کا راج ہو گیا۔ پھر گھروں میں سے دھنویں کے بادل اٹھے۔ کولہواروں نے پھر دخانی چادریں زیبِ تن کیں کہ تلسی کے چبوترہ پر پھر چراغ جلے، رات کو رنگین طبع نوجوان کی الاپیں سنائی دینے لگیں۔ سبزہ زاروں میں پھر مویشیوں کے گلے دکھائی دیئے اور کسی درخت کے نیچے بیٹھے چرواہے کی بانسری کی مدھم اور رسیلی صدا درد اور اثر میں ڈوبی ہوئی، اس قدرتی منظر میں جادو کی کشش پیدا کرنے لگی۔
بھادوں کا مہینہ تھا۔ کپاس کے پھولوں کی سرخ وسفید ملاحت، تل کی اودی بہار اور سن کی شوخ زردی کھیتوں میں اپنے بوقلموں حسن کے جلوے دکھاتی تھی۔ کسانوں کے منڈھیوں اور چھپروں پر بھی گل وثمر کی رنگ آمیزیاں نظر آتی تھیں۔ اس پر پانی کی ہلکی ہلکی پھواریں حسنِ قدرت کے لئے مشاطہ کا کام دے رہی تھیں۔ جس طرح عارفوں کے دل نورِحقیقت سے لبریز ہوتے ہیں، اسی طرح ساگر اور تالاب شفاف پانی سے لبریز تھے۔ شاید راجہ اِندر کیلاش کی طراوت بیز بلندیوں سے اتر کر اب میدانوں میں آنے والے تھے، اسی لئے سیرچشم قدرت نے حسن اور برکت اور امید کے توشے خانے کھول دیئے تھے۔ وکیل صاحب کو بھی تمنائے سیر نے گدگدایا۔ حسبِ معمول اپنے رئیسانہ کروفر کے ساتھ گاؤں میں آ پہنچے۔ دیکھا تو قناعت اورفراغت کی برکتیں چاروں طرف نمودار تھیں۔
گاؤں والوں نے ان کی تشریف آوری کی خبر سنی۔ سلام کو حاضر ہوئے۔ وکیل صاحب نے انہیں اچھے اچھے کپڑے پہنے خودداری کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ ان سے بہت خندہ پیشانی سے ملے۔ فصل کی کیفیت پوچھی۔ بوڑھے ہرداس نے ایک ایسے لمحہ میں، جس سے کامل ذمہ داری اور امامت کی شان ٹپکتی تھی، جواب دیا، ’’حضور کے قدموں کی برکت سے سب چین ہے۔ کسی طرح کی تکلیف نہیں۔ آپ کی دی ہوئی نعمت کھاتے ہیں اور آپ کا جس گاتے ہیں۔ ہمارے راجہ اور سرکار جو کچھ ہیں آپ ہیں اور آپ کے لئے جان تک حاضر ہے۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے تیور بدل کر کہا، ’’میں اپنی خوشامد سننے کا عادی نہیں ہوں۔‘‘ بوڑھے ہرداس کی پیشانی پر بل پڑے، غرور کو چوٹ لگی۔ بولا، ’’مجھے بھی خوشامد کرنے کی عادت نہیں ہے۔‘‘
ٹھاکر صاحب نے اینٹھ کر جواب دیا، ’’تمہیں رئیسوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں۔ طاقت کی طرح تمہاری عقل بھی بڑھاپے کے نذر ہو گئی۔‘‘
ہرداس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ غصہ کی حرارت سے سب کی آنکھیں پھیلی اور استقلال کی سردی سے ماتھے سکڑے ہوئے تھے۔ بولا، ’’ہم آپ کی رعیت ہیں، لیکن ہم کو اپنی آبرو پیاری ہے اور چاہے اپنے زمیندار کو اپنا سر دے دیں، آبرو نہیں دے سکتے۔‘‘
ہرداس کے کئی منچلے ساتھیوں نے بلند آواز میں تائید کی، ’’آبرو جان کے پیچھے ہے۔‘‘
ٹھاکر صاحب کے غصہ کی آگ بھڑک اٹھی اور چہرہ سرخ ہو گیا۔ زور سے بولے، ’’تم لوگ زبان سنبھال کر باتیں کرو، ورنہ جس طرح گلے میں جھولیاں لٹکائے آئے تھے، اسی طرح نکال دیئے جاؤ گے۔ میں پردمن سنگھ ہوں، جس نے تم جیسے کتنے ہی ہیکڑوں کو اسی جگہ پیروں سے کچل ڈالا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے رسالے کے سردار ارجن سنگھ کو بلا کر کہا، ’’ٹھاکر! اب ان چیونٹیوں کے پر نکل آئے ہیں۔ کل شام تک ان حشرات سے میرا گاؤں پاک وصاف ہو جائے۔‘‘
ہرداس کھڑا ہو گیا۔ غصہ اب چنگاری بن کر آنکھوں سے نکل رہا تھا۔ بولا، ’’ہم اس گاؤں کو چھوڑنے کے لئے نہیں۔۔ بسایا ہے، جب تک جئیں گے، اسی گاؤں میں رہیں گے۔ یہیں پیدا ہوں گے اور یہیں مریں گے۔ آپ بڑے آدمی ہیں اور بڑوں کی سمجھ بھی بڑی ہوتی ہے۔ ہم لوگ اکھڑ گنوار ہیں۔ ناحق غریبوں کی جان کے پیچھے نہ پڑیئے۔ خون خرابہ ہوجائے گا۔ لیکن آپ کو یہی منظور ہے تو ہماری طرف سے بھی آپ کے سپاہیوں کو چنوتی ہے۔ جب چاہیں دل کے ارمان نکال لیں۔‘‘
اتنا کہہ کر اس نے ٹھاکر صاحب کو سلام کیا اور چل دیا۔ اس کے ساتھی بھی اندازِ پُرغرور کے ساتھ اکڑتے ہوئے چلے۔
ارجن سنگھ نے ان کے تیور دیکھے۔ سمجھ گیا کہ یہ لوہے کے چنے ہیں۔ لیکن شہدوں کا سرغنہ تھا۔ کچھ اپنے نام کی لاج تھی۔
دوسرے دن شام کے وقت جب رات اور دن میں مڈبھیڑ ہو رہی تھی، ان دونوں جماعتوں کا سامنا ہوا۔ پھر وہ دھول دھپا ہوا کہ زمین تھرّا گئی۔ زبانوں نے منہ کے اندر وہ معرکے دکھائے کہ آفتاب مارے خوف کے پچھم میں جا چھپا۔ لاٹھیوں نے سر اٹھایا لیکن قبل اس کے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی دعا اور شکریہ کی مستحق ہوں، ارجن سنگھ نے دانشمندی سے کام لیا۔ تاہم ان کے چند آدمیوں کے لئے گڑ اور ہلدی پیسنے کے سامان ہو چکے تھے۔
وکیل صاحب نے اپنی فوج کی یہ حالتِ زار دیکھی۔ کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے، کسی کے جسم پر گرد جمی ہوئی، کوئی ہانپتے کانپتے بے دم، خون بہت کم نظر آیا۔ کیونکہ یہ ایک بیش بہا جنس ہے اور اسے ڈنڈوں کی زد سے بچا لیا گیا تھا۔ تو انہوں نے ارجن سنگھ کی پیٹھ ٹھونکی اور ان کی شجاعت و جانبازی کی خوب داد دی۔ رات کو ان کے سامنے لڈو اور امرتیوں کی ایسی بارش ہوئی کہ یہ سب گردوغبار دھل گیا۔
صبح کو اس رسالہ نے ٹھنڈے ٹھنڈے گھر کی راہ لی۔ اور قسم کھا گئے کہ اب بھول کر بھی اس گاؤں کا رخ نہ کریں گے۔ تب ٹھاکر صاحب نے گاؤں کے آدمیوں کو چوپال میں طلب کیا۔ ان کے اشارہ کی دیر تھی۔ سب لوگ اکٹھے ہوئے۔ اختیار اور حکومت اگر مسندِ غرور سے اتر آئے، تو دشمنوں کو بھی دوست بنا سکتی ہے۔
جب سب آدمی آگئے تو ٹھاکر صاحب ایک ایک کر کے ان سے بغل گیر ہوئے اور کہا، ’’میں ایشور کا بہت مشکور ہوں کہ مجھے اس گاؤں کے لئے جن آدمیوں کی تلاش تھی وہ لوگ مل گئے۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ گاؤں کئی بار اجڑا اور کئی بار بسا۔ اس کا سبب یہی تھا کہ وہ لوگ میرے معیار پر پورے نہ اترتے تھے۔ میں ان کا دشمن نہیں تھا۔ لیکن میری دلی خواہش یہ تھی کہ اس گاؤں میں وہ لوگ آباد ہوں، جو ظلم و ستم کا مردوں کی طرح سامنا کریں، جو اپنےحقوق اور رعائتوں کی مردوں کی طرح حفاظت کریں۔ جو حکومت کے غلام نہ ہوں، جو رعب اور اختیار کی نگاہِ تیز دیکھ کر بچوں کی طرح خوف سے سہم نہ جائیں۔ مجھے اطمینان ہے کہ بہت نقصان اور ندامت اور بدنامی کے بعد میری تمنائیں پوری ہو گئی ہیں۔ مجھے اطمینان ہے کہ آپ ناموافق ہواؤں اور متلاطم موجوں کا کامیابی سے مقابلہ کریں گے۔۔ میں آج اس گاؤں سے دست بردار ہوتا ہوں۔۔ آج سے یہ آپ کی ملکیت ہے۔ آپ ہی اس کے زمیندار اور مختار ہیں۔ ایشور سے میری یہی دعا ہے کہ آپ پھولیں پھلیں اور سرسبز ہوں۔‘‘
ان الفاظ نے دلوں پر تسخیر کا کام کیا۔ لوگ آقاپرستی کے جوش سے مست ہو ہو کر ٹھاکرصاحب کے پیروں سے لپٹ گئے اور کہنے لگے، ’’ہم آپ کے قدموں سے جیتے جی جدا نہ ہوں گے۔ آپ کا سا مربی اور قدرداں اور رعایا پرور بزرگ ہم کہاں پائیں گے۔‘‘
جانبازانہ عقیدت اور ہمدردی، وفاداری اور احسان کاایک بڑا دردناک اور موثر نظارہ آنکھوں کے سامنے پیش ہو گیا۔ لیکن ٹھاکر صاحب اپنے فیاضانہ ارادہ پر ثابت قدم رہے اور گو پچاس سال سے زیادہ گزر گئے ہیں، لیکن انہی بنجاروں کے ورثاء ابھی تک موضع صاحب گنج کے معافی دار ہیں۔ عورتیں ابھی تک ٹھاکر پردمن سنگھ کی پوجا اور منتیں کرتی ہیں۔ اور گواب اس موضع کے کئی نوجوان دولت اور حکومت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں لیکن بوڑھے اور اکھڑ ہری داس کے نام پر اب بھی فخر کرتے ہیں اور بھادوں سدی ایکادشی کے دن اب بھی اس مبارک فتح کی یادگار میں جشن منائے جاتے ہیں۔