اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، لاپتہ افراد کو بازیاب کروائیں ورنہ وزیراعظم عدالت کے سامنے پیش ہوں
بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں رہنما تحریک انصاف شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے لاپتہ افراد معاملے پر بات کی کہ کوئی حکومت اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیتی
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ طاقت میں بیٹھا شخص طاقت کے غلط استعمال کو انجوائے کرتا ہے اور بیماری یہ ہے کہ اپوزیشن میں جس چیز کو برا بھلا کہا جائے، حکومت میں آکر وہی کیا جائے
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پشتون تحفط موومنٹ کیس میں کہا تھا کہ اب بغاوت کا کیس نہ بنے، اٹارنی جنرل صاحب وہ کیس بھی بن گیا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جو دُشنام طرازی کرے گا، اداروں کے خلاف بدزبانی کرے گا، اس کے خلاف کارروائی ہوگی
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بہت اہم نوعیت کا ہے۔ کیا کبھی کوئی سول چیف ایگزیکٹو کہہ سکتا ہے کہ وہ بے بس ہے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ خود بھی متاثر رہے تو آپ کی حکومت کو تو زیادہ کام کرنا چاہیے۔ ایسا ضابطہ کار بنائیں کہ آئندہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اسے اٹھایا گیا یا تشدد ہوا۔ جو لوگ اپنے رسک پر آواز اٹھاتے ہیں ریاست ان سے کیوں ڈرتی ہے؟ آواز اٹھانے والوں پر مشتمل کمیشن بنائیں، یہ بیوروکریٹس کا کام نہیں رہا
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ افراسیاب خٹک ابھی عدالت میں موجود تھے۔ اگر آپ نے یہ سب روکنا ہے تو افراسیاب خٹک جیسے لوگوں کو کمیشن کا حصہ بنائیں۔ یہ عدالت آج کچھ نہیں کر رہی آپ پر چھوڑتی ہے کہ ان تمام ایشوز کو کیسے حل کرتے ہیں
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی عام شہری جو عدالت نہیں پہنچ سکتا اس کا شکوہ نہیں رہنا چاہیے کہ اسے اٹھایا گیا۔ آپ یقینی بنائیں کہ کوئی لاقانونیت کا گلہ لے کر عدالت نہ آئے
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو اقدامات کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو بتائیں کمیشن بنا رہے ہیں یا کیا کر رہے ہیں؟ ہم اس پر تحریری آرڈر بھی جاری کریں گیا۔ ٹارچر اور غیر قانونی اقدمات ختم کرنے کیلئے کیا کرنا ہے آئندہ سماعت پر بتائیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی
سماعت میں مزید کیا ہوا؟
بدھ کے روز چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیری مزاری کی گرفتاری اور دیگر ٹارچر کیسز سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل اشرف اوصاف عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے اُن سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب نو ستمبر کو لاپتہ افراد کا کیس بھی مقرر ہے، امید ہے نو ستمبر سے پہلے لاپتہ افراد بازیاب ہو جائیں گے۔ دوسری صورت میں وزیراعظم جوابدہ ہوں گے ۔ عدالت نہیں چاہتی کہ معاملہ وہاں تک پہنچے
چیف جسٹس نے مدثر نارو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ کابینہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس بھی ایک متاثرہ فیملی اور بچے کو بھیجا تھا۔ یہ عدالت کیسز وفاقی کابینہ کو بھیجتی رہی لیکن وہ کچھ نہیں کرتے۔ وفاقی دارالحکومت میں لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ یہ عدالت اختیارات کی تقسیم پر یقین رکھتی ہے اور ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔