سیلاب زدہ پاکستان میں مون سون کی ریکارڈ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کی جان جا چکی ہے
اب بارش نے ملک کے مشہور اور پانچ ہزار سال پرانے آثار قدیمہ موہن جو دڑو کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ موہن جو دڑو کی تہذیب قدیم زمانے میں بنائے گئے نکاسی آب کے ایک وسیع نظام کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے
موہن جو دڑو کے کھنڈرات دریائے سندھ کے قریب جنوبی صوبہ سندھ میں واقع ہیں، جنھیں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے
ان آثار قدیمہ کو جنوبی ایشیا کی بہترین محفوظ شہری بستیوں میں شمار کیا جاتا ہے
ان آثار قدیمہ کو 1922ع میں دریافت کیا گیا او اس کی تہذیب کے مٹ جانے کے حوالے سے آج بھی اسرار موجود ہیں۔ یہ تہذیب قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے ہم عصر تھی
موسلا دھار بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب نے پاکستان کے بیشتر حصوں کو بری طرح متاثر کیا ہے
سیلاب سے کم از کم 1325 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں
بہت سے ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو مون سون میں غیر معمولی بارشوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں
سائٹ کے کیوریٹر احسن عباسی کہتے ہیں کہ سیلاب نے موہن جو دڑو کو براہ راست متاثر نہیں کیا، لیکن ریکارڈ توڑ بارشوں نے قدیم شہر کے کھنڈرات کو نقصان پہنچایا ہے
انہوں نے بتایا ’کئی بڑی دیواریں جو تقریباً پانچ ہزار سال پہلے تعمیر کی گئی تھیں، مون سون کی بارشوں کی وجہ سے گر چکی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ماہرین آثار قدیمہ کی نگرانی میں درجنوں تعمیراتی کارکنوں نے سائٹ کی مرمت کا کام شروع کر دیا ہے
تاہم انہوں نے موہن جو دڑو کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ نہیں بتایا
موہن جو دڑو کی ایک خاصیت وہاں موجود اسٹوپا ہے۔ یہ نیم کروی ڈھانچہ پوجا، مراقبے اور تدفین کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ عباسی نے بتایا کہ سیلاب نے اسے نقصان نہیں پہنچایا لیکن بارش سے اس کی بیرونی اور بعض بڑی دیوارں کو نقصان پہنچا جو انفرادی کمروں کو الگ کرتی ہیں
عباسی نے کہا کہ موہن جو دڑو کی تہذیب نے نکاسی آب کا ایک وسیع نظام بنایا، جو ماضی میں سیلاب میں بہت اہم رہا
اگرچہ سیلاب نے پورے پاکستان کو متاثر کیا لیکن صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پیر کو پاکستان کی سب سے بڑی میٹھی پانی کی جھیل منچھر کے پشتے میں دوسرا کٹ لگایا گیا تاکہ قریبی شہر سہون کو بڑے سیلاب سے بچایا جا سکے
اس وقت لاکھوں سیلاب متاثرین کیمپوں میں رہ رہے ہیں جبکہ اب بھی متاثرہ علاقوں میں بڑی تعداد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہے اور بلند مقامات پر سڑکوں کے کنارے پناہ لے رکھی ہے
سہون کے مضافاتی علاقے کے رہائشی 52 سالہ غلام صابر نے منگل کو بتایا کہ حکام کی جانب سے انہیں گھر خالی کرنے کے لیے کہنے کے بعد وہ تین دن قبل اپنا گھر چھوڑ گئے
ان کا کہنا تھا ’میں اپنے خاندان کے افراد کو اپنے ساتھ لے کر اس محفوظ جگہ پر آ گیا ہوں۔‘ صابر نے کہا وہ نہیں جانتے کہ ان کا گھر گر گیا یا بچ گیا۔