بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے خوبصورت میدانوں میں واقع الموڑہ ضلع کے گاؤں بلٹی کی ’اونچی ذات‘ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی گیتا اور جگدیش نامی ایک دلت نوجوان کی محبت ایک ایسے خونی انجام پر منتج ہوئی، جس نے ہر ذی احساس شخص کو رلا دیا
گیتا جگدیش کی باتوں، اُن کی شخصیت اور وعدوں سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ پہلی نظر میں ہی دولت، ذات پات، مذہب، خاندان، اور دیگر تمام رکاوٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے جگدیش سے زندگی بھر کا رشتہ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا
اپنے اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے سماج کی پرواہ کیے بغیر اونچی ذات سے تعلق رکھنے والی گیتا نے ایک دلت نوجوان جگدیش سے شادی کے بندھن میں بندھ گئی، لیکن گیتا کے گھر والے ایک دلت داماد کو برداشت کرنے کے لیے کسی طور تیار نہ تھے
اور پھر بلآخر رواں ماہ کی پہلی تاریخ کو جگدیش کی موت ہو گئی
جگدیش کے اہل خانہ کے مطابق، گیتا کے خاندان نے جگدیش کو صرف اس لیے بیدردی سے قتل کیا کیونکہ اُس نے دلت ہونے کے باوجود ایک ’اعلیٰ ذات‘ کی لڑکی سے محبت اور شادی کرنے کی ہمت کی تھی
جگدیش کے قتل کے الزام میں گیتا کے اہل خانہ پولیس کی حراست میں ہیں اور گیتا فی الحال خواتین کی ایک پناہ گاہ میں قیام کیے ہوئے ہیں
جگدیش چندر الموڑہ ضلع کی تحصیل سالٹ کے گاؤں پنوادیوخان کے رہنے والے تھے۔ اس گاؤں میں تقریباً پچاس دلت خاندان بستے ہیں۔ جگدیش اپنے گاؤں سے چالیس کلومیٹر دور بھکیاسن نامی ایک علاقے میں ملازمت کرتے تھے
گیتا کا تعلق بھکیاسین علاقے کے بلٹی گاؤں سے ہے۔ دونوں کی شادی 21 اگست کو مقامی مندر میں انجام پائی تھی
ایک اونچی ذات والے گھرانے میں پیدا ہونے والی گیتا عرف گڈی اپنی والدہ، سوتیلے والد جوگا سنگھ اور سوتیلے بھائی کے ساتھ بلٹی گاؤں میں رہتی تھیں۔ جگدیش کے گھر والوں کا دعویٰ ہے کہ گیتا کے گھر والوں نے ابتدا میں اُن کے دلت ہونے کی وجہ سے یہ رشتہ قبول نہیں کیا تھا
شادی کے بعد جگدیش نے گیتا کو کہاں رکھا تھا، اس حوالے سے گاؤں والے متضاد باتیں کرتے ہیں۔ گاؤں والے اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے ہیں کہ دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی اور محبت کب پروان چڑھی۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے
اگرچہ گاؤں والے اس معاملے پر کُھل کر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں، لیکن جگدیش چندر کے گاؤں سمیت آس پاس کے علاقوں میں یہ بات ضرور مشہور ہے کہ دلت ہونے کی وجہ سے جگدیش کو محبت کی سزا موت کی شکل میں ملی
اتراکھنڈ میں دلتوں کے مفادات کے لیے گذشتہ چالیس برسوں سے کام کرنے والے سماجی کارکن درشن لال اس بارے میں کہتے ہیں ”گیتا نے ایک شیڈول ذات کے لڑکے سے اپنی رضامندی سے شادی کی، لیکن اس کے گھر والوں کو یہ بات سمجھ نہیں آئی اور اس کا انجام بُرا ہوا“
درشن لال کا کہنا ہے ”اتراکھنڈ میں دلتوں کے ساتھ اب بھی بہت زیادہ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور اس نوعیت کے زیادہ تر معاملات میں مقدمات درج ہی نہیں ہوتے“
واضح رہے کہ وقتاً فوقتاً اتراکھنڈ سے دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی کہانیاں منظر عام پر آتی رہتی ہیں
گیتا کا الموڑہ کے ایس ایس پی کو خط
گیتا کے ساتھ اس کے سوتیلے والد اور بھائی کا رویہ کبھی اچھا نہیں رہا۔ اپنے ہی خاندان کی طرف سے خطرے کا اندازہ لگاتے ہوئے گیتا نے 27 اگست کو ایس ایس پی الموڑہ کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے اپنی اور اپنے شوہر کی حفاظت کی درخواست کی تھی
گیتا کے خط کے مطابق ’26 مئی کو وہ جگدیش چندر کے ساتھ اپنے گھر سے الموڑہ آئی تھیں۔ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے پاس ضروری دستاویزات نہیں تھیں۔ وہ دستاویزات کا بندوبست کر ہی رہی تھیں کہ ایک دن اچانک ان کے سوتیلے والد انہیں الموڑہ میں مل گئے۔ 17 جون کو زبردستی وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور ان پر تشدد کیا۔ والد کی دھمکیوں سے پریشان ہو کر گیتا گھر سے بھاگیں اور 7 اگست کو جگدیش چندر کے پاس پہنچ گئیں۔ جس کے بعد 21 اگست کو دونوں نے مندر میں شادی کر لی“
الموڑہ کے ایس ایس پی پردیپ کمار رائے کا اس پورے معاملے کے بارے میں کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے
لیکن پولیس نے گیتا کے خط پر کوئی حفاظتی انتظامات کیوں نہیں کیے، اس پر انہوں نے کہا کہ 27 اگست کو جب متاثرہ لڑکی کی جانب سے سکیورٹی لیٹر موصول ہوا تو پولیس خط میں درج ایڈریس پر پہنچی اور تلاشی لی، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ خط میں دیے گئے فون نمبر پر بھی رابطہ نہیں ہو سکا
اب جگدیش کے قتل کے بعد الموڑہ کے ایس ایس پی کا دعویٰ ہے کہ قتل میں ملوث لوگوں کو کسی بھی حال میں بخشا نہیں جائے گا
ساتھ ہی اس معاملے کی تفتیش کرنے والے افسر آر ورما نے کہا ’لڑکا شیڈول کاسٹ دلت برادری سے تھا اور لڑکی کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا۔ لڑکے کی ذات کی وجہ سے لڑکی کے گھر والے بہت پریشان تھے۔‘
ٹی آر ورما نے کہا ‘پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کو اغوا کر کے مار دیا گیا۔’
جگدیش اور اس کا خاندان
جگدیش کا خاندان اُن کی والدہ بھاگولی دیوی، بڑے بھائی پرتھوی پال، چھوٹے بھائی دلیپ کمار اور چھوٹی بہن گنگا پر مشتمل ہے۔ جگدیش کی موت کے بعد پورا خاندان غم میں ڈوبا ہوا ہے
جگدیش کا بڑا بھائی پرتھوی پال گاؤں میں ہی معمولی مزدوری کر کے خاندان کو پالتا ہے۔ چھوٹا بھائی دلیپ کمار بجلی کے محکمے میں کام کرنے والے ٹھیکیدار کے ساتھ مزدوری کرتا ہے۔ چھوٹی بہن گنگا گاؤں کے اسکول سے بارہویں جماعت تک پڑھنے کے بعد گھر کے کاموں میں اپنی ماں کی مدد کرتی ہے
جگدیش نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی اسکول سے حاصل کی تھی۔ بچپن میں والد کی وفات کے بعد ان کی زندگی روزی روٹی کی جدوجہد میں گزری
گذشتہ بارہ برسوں سے جگدیش جل سنستھان میں ٹھیکے پر پائپ لائن کی دیکھ بھال اور مرمت کا کام کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا گزارہ کر رہے تھے
جگدیش ایک طویل عرصے سے ’اتراکھنڈ تبدیلی پارٹی‘ سے بھی منسلک تھے۔ جگدیش نے تبدیلی پارٹی کے ٹکٹ پر گذشتہ دو اسمبلی انتخابات لڑے تھے، اگرچہ انہیں دونوں مرتبہ شکست ہوئی تھی۔ لیکن انہوں نے پارٹی کے ایک سرگرم رکن کے طور پر اپنی ایک خاص شناخت بنا لی تھی
جگدیش کی موت کے بعد اس کی بوڑھی ماں بھاگولی دیوی غم سے نڈھال ہیں۔ ان کے گھر لوگ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔ جگدیش کی والدہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کے بیٹے کو محبت کرنے کی اس طرح سزا دی جائے گی۔ وہ حکام سے انصاف کی اپیل کرتی ہیں
گیتا کے گاؤں میں سب خاموش ہیں
گیتا کے گاؤں بلٹی کے لوگ بھی اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے
کافی کوششوں کے بعد کچھ لوگ جو بات کرنے پر راضی ہوئے، انہوں نے بتایا کہ انہیں جگدیش اور گیتا کے پیار کے بارے میں پہلے سے علم نہیں تھا اور یہ کہ یہ واقعہ ان کے لیے بھی انتہائی افسوسناک ہے
گاؤں کی سربراہ بھاونا دیوی نے کہا ’اگر گیتا آنے والے وقت میں کبھی گاؤں واپس جاتی ہے تو وہ اور گاؤں والے اسے باہمی مشاورت اور بات چیت کے بعد ہی واپس آنے کی اجازت دیں گے‘
واقعے کے حوالے سے پولیس کا کیا کہنا ہے؟
معاملے کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر ورما کے مطابق جگدیش اور اس کے ایک ساتھی کنٹریکٹر کویتا کے ساتھ کام کرتے تھے
یکم ستمبر کی صبح تقریباً آٹھ بجے کام پر جاتے وقت سیلپانی بھکیاسین روڈ پر اُن کی ملاقات دو لوگوں سے ہوئی۔ ان افراد نے زبردستی جگدیش کو روکا اور اس کے ساتھی کو ڈرایا دھمکایا
جگدیش کے ساتھی نے فرار ہونے کے بعد کویتا کو فون کیا اور واقعہ کی اطلاع دی لیکن وہ اس وقت علاقے میں موجود نہیں تھیں۔ واپسی پر وہ شام چھ بجے کے قریب تحصیل بھکیاسین پہنچیں اور ریوینیو سب انسپکٹر کے پاس ایف آئی آر درج کرائی، جس میں پورے واقعے کی معلومات دی گئیں
دراصل اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں پولس کا کام دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ کچھ علاقوں کی دیکھ بھال باقاعدہ پولیس کرتی ہے اور کچھ علاقوں کی دیکھ بھال ریوینیو پولیس کرتی ہے
جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہ ریوینیو پولیس کے تحت آتا ہے۔ ایف آئی آر کے بعد پولیس نے معاملے کی چھان بین شروع کر دی ہے
پولیس کے مطابق یکم ستمبر کی رات تقریباً ساڑھے دس بجے ایک وین کو پولیس نے روکا۔ وین کو گیتا کا سوتیلا بھائی چلا رہا تھا اور گیتا کے والدین پیچھے بیٹھے تھے
پولیس نے وین کی تلاشی لی تو جگدیش سیٹ کے نیچے مردہ حالت میں پایا گیا۔ پولیس گاڑی میں سوار سبھی افراد کو لے کر ہسپتال پہنچی، جہاں ڈاکٹروں نے جگدیش چندر کو مردہ قرار دیا
پولیس نے گیتا کے والدین اور بھائیوں کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعات 364 اور 302 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے
جگدیش اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ گیتا خود ناری نکیتن (خواتین کی پناہ گاہ) میں رہ رہی ہیں جبکہ گیتا کا خاندان جیل میں ہے۔