بلوچستان حکومت نے خاتون افسر کو نصیر آباد کی ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا ہے، ڈپٹی کمشنر عائشہ زہری کو سبکدوش ہونے والے ڈپٹی کمشنر محمد حسین کی جگہ تعینات کیا گیا ہے
سروس اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق انجینئر عائشہ زہری ڈپٹی کمشنر کے طور پر نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گی
بلوچستان انتظامیہ کی تاریخ میں پہلی بار خاتون افسر کو ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ہے
حال ہی میں بولان میں شدید بارش اور ہنگامی صورتحال کے دوران انہوں نے بی بی نانی اور پنجرہ پُل کےدرمیان پھنسے ہوئے سیلاب زدگان مسافروں کی مدد بھی کی تھی
اس حوالے سے انہوں نے بتایا ’25 اور 26 اگست کو مسلسل 36 گھنٹوں تک ہونے والی تیز بارش کے بعد جب میں چار محافظوں کے ہمراہ بی بی نانی کے مقام پر پہنچیں تو وہاں تین ہزار سے زائد لوگ پھنسے ہوئے تھے۔ غیر آباد پہاڑی علاقے میں پھنسے بیشتر مسافر دو دنوں اور تین راتوں سے بھوکے پیاسے تھے اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بے ہوش ہو رہے تھے۔ ہم نے بڑی مشکلوں سے خوراک کا بندوبست کرکے انہیں بچایا۔ اگر مزید تاخیر ہوتی تو مری جیسا سانحہ رونما ہوسکتا تھا۔‘
عائشہ زہری کو بہترین خدمات سرانجام دینے پر بلوچستان حکومت نے سیلاب سے متاثرہ ضلع نصیرآباد کی ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا ہے
۔
عائشہ زہری نے کہا کہ ’ہمارے پاس اس ریسکیو آپریشن کے لیے وسائل نہیں تھے لیکن عزم، ہمت اور حوصلہ تھا۔ اس لیے اللہ نے کامیابی دی۔ مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کرنا میری ذمہ داری اور فرض بھی تھا۔‘
خیال رہے کہ کوئٹہ کو سبی اور سکھر سے ملانے والی این 65 شاہراہ بولان کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی طوفانی بارش کے بعد اس شاہراہ کا ایک بڑا حصہ اور دو پل پانی میں بہہ گئے جس کے باعث ضلع کچھی کے علاقے ڈربھی سے بی بی نانی کے درمیان غیر آباد اور پہاڑی علاقے میں ہزاروں مسافر پھنس گئے
عائشہ زہری نے بتایا کہ 25 اگست کو مسلسل بارش کی وجہ سے پورا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ سڑکیں بہہ گئیں، پل ٹوٹ گئے، راستے بند ہوگئے، لینڈ لائن اور موبائل فون نیٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مواصلاتی نظام بند ہونے کی وجہ سے صورتحال کا درست اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ اس دوران ہمیں اطلاع ملی کہ نصیرآباد سے کوئٹہ جانے والے کچھ ججز سیلاب میں پھنس گئے ہیں
’ہم بڑی مشکلوں سے وہاں تک پہنچے اور انہیں ریسکیو کیا تو ان میں سے ایک جج نے بتایا کہ بی بی نانی اور ڈربھی کے درمیان دونوں جانب سڑک اور پل ٹوٹنے کی وجہ سے ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور وہاں صورتحال بہت بری ہے آپ انہیں بچائیں۔‘
عائشہ زہری کے مطابق میرے پاس اس وقت صرف چار لیویز سپاہی تھے جنہیں ساتھ لے کر میں بڑی مشکلوں سے بی بی نانی کے علاقے تک پہنچیں تو دیکھا کہ صورتحال بہت خراب ہے۔ چار سو سے پانچ سو چھوٹی بڑی گاڑیاں، مسافر ویگن اور کوچز پھنسی ہوئی ہیں۔ ان میں تین ہزار سے چار ہزار لوگ تھے
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے پاس کھانے پینے کی تھوڑی بہت چیزیں تھیں وہ ختم ہوگئی تھیں پینے تک کا پانی موجود نہیں تھا۔
’گاڑیوں میں موجود خواتین اور بچے بھوک پیاس سے بے ہوش ہوگئے تھے۔ ان کی زندہ رہنے کی امید ختم ہوگئی تھی۔ بعض لوگ تو پولٹری سپلائی کرنے والی گاڑیوں میں سے مرغی کا کچا گوشت کھانے پر بھی مجبور ہوئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس گاڑی میں کچھ کھانے پینے کی چیزیں تھیں جو ان کو فراہم کیں۔ ایک خاتون کو جب میں نے پانی پلایا تو وہ ہوش میں آئیں۔‘
پھنسے ہوئے لوگوں میں شامل جوڈیشل مجسٹریٹ حنیف بادینی نے بتایا کہ ’وہ بد ترین وقت تھا۔ نہ آگے جانے کا راستہ تھا نہ پیچھے جانے کا، پہاڑی علاقے میں ہم محصور ہوکر رہ گئے تھے۔‘
’ہم نے دو دنوں سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا جب سیلاب کا پانی تھوڑا کم ہوا تو میں نے پیدل آگے جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ پیچھے خواتین اور بچے بھوک پیاس سے مر رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ اگر مزید وقت لگا تو قیمتی انسانی جانیں جاسکتی ہیں اس لیے پانی کو پیدل عبور کرکے ہم لیویز تھانے پہنچے اور وہاں سے وائرلیس کے ذریعے انتظامیہ کو آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری اطلاع پر انجینیئر عائشہ زہری وہاں پہنچیں اور انہوں نے پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کی۔‘
اس پورے راستے میں صرف ایک چھوٹا ہوٹل تھا، جس کے پاس موجود کھانے پینے کا سارا سامان ختم ہوگیا تھا
انتظامیہ کے پاس موجود تھوڑا بہت خشک راشن تھا جو ہوٹل والے کو فراہم کیا گیا تاکہ پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جاسکے۔
عائشہ زہری کا کہنا تھا کہ وہ 27 اگست کی صبح 11 بجے پہنچیں تھیں اور رات 11 بجے تک پھنسے ہوئے مسافروں میں موجود نوجوان رضا کاروں کے ہمراہ مل کر مسلسل 12 گھنٹے ریسکیو آپریشن کیا
سیلابی ریلے میں پھنسے بہت سے لوگوں کو قریب واقع لیویز تھانے منتقل کیا کیونکہ بالائی علاقوں سے مزید سیلابی ریلے داخل ہو رہے تھے اور پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہو رہا تھا
عائشہ زہری کے مطابق اس سے پہلے ہم نے مچھ میں بھی ریسکیو آپریشن کیا۔ طوفانی بارش سے مچھ میں ایک بھی کچا گھر محفوظ نہیں رہا۔ اسسٹنٹ کمشنر آفس، سرکاری گھر اور دیگر سرکاری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا
’لوگوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی۔ ہم نے فوری طور پر لوگوں کو سرکاری سکولوں میں 11 شیلٹر ہوم قائم کرکے وہاں منتقل کیا انہیں ہندو تاجروں سے ادھار لے کر خوراک اور بچوں کے لیے خشک دودھ پہنچایا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مچھ کو پورے ملک سے ملانے والا پُل ٹوٹنے کی وجہ سے پوری آبادی محصور ہوکر رہ گئی تھی۔ لوگ نہ کوئٹہ اور سبی جا سکتے تھے اور نہ وہاں سے کوئی آ سکتا تھا۔ جنازے پیاروں کے انتظار میں پڑے پڑے خراب ہو رہے تھے۔
’ہمارے پاس کوئی مشینری نہیں تھی۔ میں نے مچھ کے قریب نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی مخالفت کے باوجود ان کی مشینری کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
عائشہ زہری کے بقول ’نیشنل ہائی وے اتھارٹی والوں نے مجھے بدمعاش کہا اور کہا کہ آپ ہماری مشینری استعمال نہیں کرسکتیں لیکن میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ مچھ میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا تھا۔ لوگ علاج کے لیے تڑپ رہے تھے وہ کوئٹہ نہیں جاسکتے تھے۔ اس طرح ہماری ٹیم نے این ایچ اے کی مشینری کو استعمال کرکے رابطہ بحال کیا۔‘
بلوچستان کی پہلی خاتون ڈپٹی کمشنر بننے پر عائشہ زہری کا کہنا تھا کہ ’یہ میرے لیے اعزاز اور چیلنج بھی ہے کیونکہ جس ضلع کا ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ہے وہاں کی صورتحال بھی بہت خراب ہے اور بیشتر علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میری پہلی کوشش ہوگی کہ اپنے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دوں اور متاثرین کی بلاامتیاز مدد کروں اورامداد سامان سیاسی نہیں بلکہ شفافیت کی بنیاد پر تقسیم ہوں
عائشہ زہری کون ہیں؟
انجینیئر عائشہ زہری کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار سے ہے۔ انہوں نے تعلیم آبائی ضلع سے ہی حاصل کی ہے اور خضدار انجینیئرنگ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کر رکھی ہے۔ وہ اپنی یونیورسٹی کی دو مرتبہ گولڈ میڈلسٹ رہی ہیں
عائشہ زہری اس سے پہلے واپڈا میں ایس ڈی او رہیں۔ 2017 میں مقابلے کا امتحان پاس کر کے وہ صوبائی سول سروسز کا حصہ بنیں۔ کمشنر قلات کی سٹاف افسر کے طور کام کرنے کے بعد وہ صوبے کی اولین تین خواتین میں شامل ہوئیں جو اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات ہوئیں
دالبندین کے صحافی علی رضا کے مطابق 2020 میں افغانستان اور ایران کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے عائشہ زہری نے نڈر اور دبنگ افسر کے طور پر شہرت حاصل کی
’انہوں نے لیویز کے ہمراہ کئی ایسی کارروائیوں کی قیادت بھی کی جن میں مسلح ملزمان کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ انہوں نے فائرنگ کے تبادلے کے بعد ایک مغوی بچے کو بھی بازیاب کرایا۔‘
اسسٹنٹ کمشنر دالبندین کے طور پر عائشہ زہری ایک تنازع کے باعث خبروں کی زینت بھی بنیں۔ انہوں نے چھاپہ مار کر منشیات میں استعمال ہونے والی کیمیکلز برآمد کیں تاہم جب وہ برآمد شدہ کیمیکلز لے کر تھانے پہنچیں تو لیویز حکام نے اسے قبضے میں لینے اور مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا۔
عائشہ زہری نے اس وقت ڈپٹی کمشنر کا نام لے کر تنقید کی جس پر انہیں محکمانہ تادیبی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا
چھ ماہ کے کم عرصہ میں ہی اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے سے ہٹایا گیا اور ڈیڑھ سال تک انہیں کسی عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا
اس کے بعد انہیں اسسٹنٹ کمشنر مستونگ اور سول سیکریٹریٹ میں سیکشن افسر تعینات کیا گیا۔ انہیں چند ماہ قبل گریڈ 17 سے گریڈ 18 میں ترقی ملی
عائشہ زہری کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدوں پر چھ ماہ سے زیادہ نہیں گزارے۔ ’کئی بار ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر تعینات کرنے کا مرحلہ آیا تو لوگوں نے کہا کہ خاتون افسر ان مشکل علاقوں میں کیسے کام کریں گی لیکن آج وہ غلط ثابت ہوگئے۔ اللہ نے عزت بخشی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے مجھ پر ذمہ داریاں اور والدین کی توقعات بھی زیادہ تھیں اس لیے میں نے ہمیشہ محنت پر توجہ دی۔ والدین نے بھی ہمیشہ سپورٹ کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’واپڈا میں تعینات ہوئیں تو لوگوں نے کہا کہ آپ اب کھمبے پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کریں گی۔ سول سروسز میں آ کر بھی لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ اب بھی مشکلات پیدا کرنے والے لوگ کم نہیں لیکن عزم اور جذبہ ہوں تو یہ رکاوٹیں کچھ بھی نہیں۔‘