قدرتی آفات اچانک نہیں ہوتیں بلکہ ان سے قبل نشانیاں واضح ہوتی ہیں۔ اگر ہم لوگ ہی ان نشانیوں کو دیکھ کر کچھ نہ کریں یا نظر انداز کر دیں تو یہ ہماری غفلت ہے، نہ کہ یہ کہ ہم تیار نہیں تھے یا گذشتہ کئی سالوں سے اتنی بارش نہیں ہوئی جتنی اس بار ہوئی ہے اور اسی لیے اتنی تباہی ہوئی ہے
گذشتہ کئی سالوں سے ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا بھر میں باتیں ہو رہی ہیں اور سائنسدان شور مچا رہے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کو کم از کم جس سطح پر پہنچ چکی ہے، اسی جگہ ہر روکنے کے لیے اقدامات کیے جانے کی اشد ضرورت ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمی حالات میں تیزی سے تبدیلی کرہ ارض پر پائیدار زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ موسمی تبدیلی نہ صرف انسانی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ معیشت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ موسمی تبدیلی کے نتیجے میں سیلاب، قحط، خشک سالی اور سمندری طوفانوں جیسی قدرتی آفات آتی ہیں
’جرمن واچ‘ نامی ماحولیات کی عالمی تنظیم کے مطابق پاکستان میں موسمی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اثرات وسیع تر ہوں گے، جن میں زرعی پیداوار میں کمی، پانی کی فراہمی میں زیادہ اتار چڑھاؤ، سمندر کی سطح میں اضافہ اور شدید موسمی واقعات کے رونما ہونے میں اضافہ ہو گا۔ اس کے مطابق پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے، جو گذشتہ دو دہائیوں میں موسمی تبدیلی کے نتیجے میں بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اور گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کی سالانہ رپورٹ 2020 کے مطابق پاکستان کو 1999 سے لے کر 2018 تک 3.8 ارب ڈالر ڈالر کا معاشی نقصان ہو چکا ہے اور پاکستان میں 152 شدید موسمی واقعات پیش آ چکے ہیں
ایسی رپورٹوں اور تحقیق کے باوجود اگر پاکستان تیاری نہ پکڑے اور حکومت اس بات پر اپنا دامن چھڑا لے کے سیلاب زدہ علاقوں میں مون سون میں اب تک 1100 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے۔ اور صرف اگست میں 166 ملی میٹر بارش ہوئی جو اوسط بارش سے 241 فیصد زیادہ ہے جبکہ اس مون سون میں سندھ میں اوسط بارش سے 784 فیصد زیادہ ہوئی
اس تبدیلی کا عندیہ تو جرمن واچ اور گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کی سالانہ رپورٹ 2020 سمیت کئی ادارے جو ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کام کر رہے ہیں پہلے ہی دے چکی تھیں کہ زیادہ بارشیں ہونی ہیں اور اس کے لیے پاکستان جیسا ملک جو گذشتہ دو دہائیوں میں موسمی تبدیلی کے نتیجے میں بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے کو تیار رہنا چاہیے
اور دوسری جانب لوگ جن کے گھر تباہ ہو گئے وہ کھلے آسمانوں کے نیچے بیٹھے ہیں اور امداد کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان سب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے سفید پوش افراد ہوتے ہیں جو اپنے تباہ حال گھروں کے قریب کیمپ لگا کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں بہ نسبت کسی کیمپ بستی میں جانے کے
سنہ 2005 کے زلزلے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں امدادی کارروائیوں میں شریک رہنے کا موقع ملا۔ ایک دن چکار کے مقام پر پہنچے تو لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے کہ میڈیکل کیمپ لگا ہے میں اور میرا ساتھی چل پڑے۔ لوگوں سے ملنے اور ان کو اطلاع کرنے میں دیر ہو گئی تو مقامی افراد نے کہا کہ رات کے وقت سفر نہ کریں اور ادھر ہی رات بسر کر لیں۔ ایک فیلمی کے ہمراہ رہے اور رات کو عجیب سی آواز آئی۔ یہ آواز ہر تھوڑی بعد آتی تھی۔ چار سے پانچ بار آواز سن کر ان سے دریافت کیا کہ کیا کوئی جانور بول رہا ہے تو ہنس کر کہنے لگے کہ نہیں یہ پاڑ سرک رہا ہے
یہ بات انہوں نے جتنے پرسکون طریقے سے کہی ہم اتنا ہی زیادہ گھبرا گئے اور ہم نے کہا کہ صبح آپ ہمارے ساتھ چلیں اور متاثرین کے لیے کیمپ لگے ہیں وہاں رہیں۔ انھوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ عورتوں کے ہمراہ ہم کسی خیمہ بستی میں نہیں رہیں گے اور یہی رہیں گے
ان کا کہنا بھی درست تھا۔ میں نے تو خود دیکھا تھا کہ کیسے امدادی سامان بٹتا تھا۔ لوگ زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے جوق در جوق امدادی سامان لیے آ رہے تھے اور زیادہ تر امدادی سامان مظفر آباد سے آگے جاتا ہی نہ تھا۔ وہی چہرے ہر ٹرک کے پیچھے دوڑتی نظر آتے تھے اور جب ٹرک خالی ہوتا تو سڑک پر آدھے پیئے ہوئے جوس اور دودھ کے ڈبے، کھلا ہوا امدادی سامان روڈوں پر گرا ہوا ہی نظر آتا تھا۔ غیر منتظم طریقے سے امدادی سامان بانٹنے میں کتنے مستحقین کو امداد ملتی تھی اور کتنی نہیں معلوم نہیں
ایسے موقعوں ہی پر میڈیا کا کردار سامنے آتا ہے۔ کسی بھی متاثرہ شخص کا بیان بغیر کسی تحقیق کے چلا دینا اور اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے بہتر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں تھوڑی سے تحقیق کر لیں اور اگر واقعتاً اس علاقے میں امداد نہیں پہنچ رہی یا کم پہنچ رہی ہے تو اس پر شور مچانا بنتا ہے
پاکستان کے ہی زیر انتظام کشمیر کے ایک علاقے میں ایک نامور صحافی کی ٹیم کو لے کر گئے جہاں کمبل بانٹے گئے۔ لوگوں نے کمبل کے بنڈل ادھر ہی کھولے اور صحافی کے سامنے کھڑے ہو گئے کہ یہ ناقص کوالٹی کے کمبل دیے جا رہے ہیں۔ صحافی نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ یہ رپورٹ تو بنتی ہے۔ کرنا ایسا ہوا کہ ہمیں رات وہیں گزارنی پڑ گئی اور وہی کمبل لینے پڑے۔ صبح جب ہم اٹھے تو صحافی نے مقامی لوگوں سے کہا کہ ’میں کمبل ناقص کوالٹی کے ہونے کی رپورٹ نہیں چلا رہا کیونکہ یہی کمبل میں رات کو لے کر سویا ہوں اور یہ بہت گرم ہیں۔ صورت پر نہیں سیرت پر جاؤ۔‘ وہی مقامی لوگ چپ کر گئے
پاکستان نے قومی آفات کے خطرے اور نقصانات میں کمی کے حوالے سے پالیسی تو بنا لی ہے لیکن اس کے با اثر عمل درامد میں کئی مشکلات ہیں۔ حکومت نے قدرت آفات جیسے کہ موجودہ سیلاب ہیں کے حوالے سے ری ایکٹو اپروچ رکھی ہوئی جبکہ اس کو پرو ایکٹو اپروچ کی ضرورت ہے۔ آسان الفاظ میں حکومت کو پانی کے پیچھے پیچھے نہیں چلنا کہ یہ کہاں کہاں جا رہا ہے بلکہ اس سے آگے آگے چلنے کی ضرورت ہے تاکہ جانی اور مالی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے
اور پرو ایکٹو اپروچ کے لیے حکومت کو سائنسی بنیادوں پر معلومات کو اکٹھا کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے جیسے کہ جی آئی ایس کا استعمال۔ سنہ 2015 میں ایک سیمینار میں کہا گیا تھا کہ پاکستان یونیسکو کے ساتھ مل کر ملک بھر میں جی آئی ایس ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گی تاکہ سیلاب کا بروقت پتہ چلایا جا سکے اور نقصانات کو کم کیا جا سکے۔ اس نظام کے تحت سیلابوں کی میپنگ، نقصانات کا تخمینہ اور بچاؤ اور لوگوں کی زندگیاں دوبارہ بحال کرنے کے لیے منصوبہ بندی میں مدد ملے گی
اس سیمینار میں یونیسکو کے ایشیا اور پیسیفک کے سائنس ببیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر شہباز خان نے کہا تھا کہ اگر اقدامات نہ لیے گئے تو پاکستان کا موازنہ افغانستان سے کیا جانے لگے گا۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو