ایران آوارگی (قسط 2)

گل حسن کلمتی

چابہار کے معنی یہ ہیں کہ "چا” "چات” کنویں کو کہتے ہیں۔ اس علاقے میں کسی زمانے میں بہت سارے کنویں تھے، جس سے زراعت کرتے تھے۔ ان کنووں کے بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے کہا گیا کہ یہاں چاتوں (کنووں) کی بہار ہے۔ اس طرع یہ چابہار ہوا۔

چابہار میں بلدیہ ہے۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ بلدیہ کے سارے میمبر بلوچ ہیں۔ چابہار کو ضلع کی حیثیت حاصل ہے، جس میں بریس، پسا بندر، پشت، نگور، دشتیاری، باؤ، بھل، ریمدان، شاھبےزئی اور نوک بندیان کے علاقے آتے ہیں، یہاں پر جدگالوں کی اکثریت ہے۔ یہاں کے اسمبلی کے ممبر بھی جدگال ہیں

ایک بجے دن کو ہم نے چابہار کو الوداع کہا۔ سردار میر رستم سردارزھی اور حمزہ سردارزھی نے ہمیں الوداع کہا۔ ہم سعید ملازھی اور نواز کلمتی کی گاڑیوں میں نئے بننے والے ضلع دشتیاری کے گاؤں شاھبیک زئی کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں نو بندیان آیا جس کے نام پر دو روایتیں ہیں۔ ایک یہ یہاں نو بندے تھے، ان نو بندوں کی وجہ سے اس علاقےکو نو بندیان کہا گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس کا اصل نام نوک بندیان ہے۔ جب پہلی مرتبہ لوگوں نے کچھ گھر بنائے یہ نئی آبادی تھی، جسے لوگوں نے ’نوک بندیان‘ کہا۔ ’نوک‘ بلوچی میں ’نئے‘ کو کہتے ہیں ’بندیان‘ معنی بنائے گئے۔ آگے چل کر یہ نوک بندیان سے نو بندیان مشہور ہوا۔
نو بندیان کے بعد پھل دوراہی آیا۔ چھوٹے گاؤں سڑک کے دونوں طرف تھے۔ یہاں بھی جدگالوں کی اکثریت ہے۔

شاھبیک زئی میں ھمارے دوست ایوب واڈیلا کی والدہ اور محمد حسن کی فاتحہ خوانی کی۔ دوپہر کا کھانا وہیں نوش کیا چھ بجے دوستوں کو الوداع کہا اور پشین کے روانہ ہوئے

ایک سال پہلے جب دشتیاری کو ضلع بنایا گیا تو شہبیک زئی کو دشتیاری میں شامل کیا گیا، جس پر یہاں کے لوگوں نے اعتراض کیا کہ ہمارا علاقہ تاریخی طور پر باھو کلات کا حصہ ہے، اس لیے ہمیں باھو کلات میں شامل کیا جائے۔ ان کا یہ احتجاج اب تک جاری ہے۔

شہبیک ایک شخص کا نام ہے۔ اس کے خاندان والوں کو شہبیک زئی کہا جاتا ہے اور یہ علاقہ اسی نام سے مشہور ہے۔ یہ صدیوں پرانی بات ہے۔ شہبیک زئی واڈیلا ہیں۔

شہبیک زئی کے بعد باھو کلات دوراھی آیا، جہاں سے دو رستے نکلتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس علاقے کے نام کے ساتھ دوراہی لگاتے ہیں، معنی دو راستے۔ پھر رستم بازار ہے، جہاں ھوت رہتے ہیں۔ اس سے آگے دمپک کا علاقہ ہے، جہاں ھوت اور نوحانی رہتے ہیں، اس کے بعد نلینٹ کا علاقہ آتا ہے، جو باھو کلات کا حصہ ہے۔ نلینٹ میں ھوت، رئیس اور کھوسہ رہتے ہیں۔

نلینٹ ندی پر ڈیم بھی بنا ہوا ہے۔ اس ڈیم سے شہبیک زئی کے علاقے کو سیراب کیا جاتا ہے۔
چابہار سے باھو کلات تک کے علاقے میں پانی کی شدید قلت ہے، پینے کے لیے بھی پانی بہت کم ہے۔ بارشوں پر ان کی زندگی اور معیشت کا انحصار ہے۔ روڈ اور بجلی کے سوا یہ بلوچ علاقے سہولتوں سے محروم ہیں۔ باقی ایران ان علاقوں سے مختلف ہے ، اس لیے ان علاقوں کے لوگ صدیوں سے حکومت سے برسر پیکار ہیں ۔ بہت سی جنگیں لڑی گئی لوگ مارے گئے، مغربی بلوچستان میں مزاحمتی تحریکوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔
خمینی کے انقلاب کے لوگوں سے بات چیت ہوئی، اب یہاں کے لوگ حکومت کا حصہ ہیں۔ اپنی حقوق کے لیے اسمبلی جیسے مضبوط فورم سے اپنی اواز اٹھاتے ہیں۔ اب یہ آہستہ آہستہ سی ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی ایران کے باقی علاقوں کی طرح، جو پارسیوں کے علاقے ہیں، سہولتیں اور حقوق دیے جائیں۔

اسلام آباد کے بعد گبولانی نامی ایک علاقہ آیا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ اب یہاں گبول نہیں ہیں، ھوتوں کی اکثریت ہے۔ اسلام آباد میں بھی ھوت رہتے ہیں۔

دوراھی سید، جہاں ھوت اور نوحانی رہتے ہیں۔ آگے کھوسوں کے علاقے پاز گاھ شیر گواز اور جالا گٹ سے گزر ہوا، بالا گٹ میں رئیس، کھوسہ اور نوحانی رہتے ہیں۔

بڑی آبادی والا علاقہ درگس آیا، جہاں ملی جلی ابادی ہے۔ مذہبی حوالے سے ذکری بھی تھوڑے ہیں۔ نوحانی، لورا، شیدھی، رئیس یہاں اکثریت میں ہیں

یاد رہے ھر گاؤں میں شیدھی رہتے ہیں ، جو پرانے زمانوں میں غلام بنا کر لائے گئے تھے۔ یہ نسلی امتیاز ان علاقوں میں اب بھی ہے ۔ سید آباد مکس آبادی کا علاقہ ہے۔ آبادی کا ایک حصہ رئیس ایک حصہ نوحانی ایک حصہ میں شاھ ہیں، کچھ گھر ذکریوں کے بھی ہیں۔

گرم بیٹ کا علاقہ آیا۔ دشتیاری اور گرم بیٹ یہ جدگالوں کے سرداروں ھیڈ کوارٹر رہے ہیں

ریکوکش واحد بازار ہے، جہاں شیعہ بلوچ رہتے ہیں۔ پورے سیستان بلوچستان میں یہ ہی ایک شیعہ بلوچ گوٹھ ہے۔ یہاں نوحانی اور رئیس بستے ہیں۔ جن کا واجہ رحیم بخش نوحانی ہیں۔ ریکو کش میں روڈ سے پیشین جاتے ہوئے دائیں جانب کچھ گھر سنیوں کے ہیں اور بائیں جانب بلوچ شیعہ رہتے ہیں۔ یہاں کے بلوچ کہتے ہیں کہ ان کو ہر قسم سہولت دی گئی ہے۔ترقی میں ہمیں مذہب کے بنیاد پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

کہیر برز کا علاقہ آیا، جہاں نوحانی، رئیس ذکری رہتے ہیں۔ مستری زرائی ذکری یہاں کا مشہور شخص ہے ۔ گز منزل علاقہ آیا۔ پھر کشاری کے بعد گوات کش کا علاقہ ہے، جو باھو کلات کا آخری سرا ہے، باھو قلات پیشن کنٹری میں ہے ، کنٹری کی حثیت ضلع کی ہے

گوات کش پہاڑ کا علاقہ شروع ہوا، گوات کش ڈن جہاں باھو کلات علاقہ کا ختم ہوتا ہے، پیشن کا علاقہ شروع ہوا۔

جاری ہے


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close