دنیا میں ایسے ملکوں کی تعداد بہت کم ہے، جو برازیل کی طرح قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہیں۔ اس کے باوجود یہاں غربت ایک عام سی بات ہے
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے نمائندے فلپ لشٹربیک اپنے تبصرے میں برازیل کے ماضی و حال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برازیل کی تاریخ ایک عظیم وعدے کی کہانی کے طور پر بیان کی جا سکتی ہے۔ ایک ایسی قوم کی کہانی، جس کے پاس امیر اور خوشحال ہونے کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں۔ برازیل کے پاس وسیع زرخیز علاقہ، طویل دریاؤں کے ہزاروں حصے، دنیا کا سب سے بڑا برساتی جنگل، بے پناہ حیاتیاتی تنوع، تقریباً گیارہ سو کلومیٹر ساحلی پٹی اور معدنی وسائل کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ چار براعظموں کے اثرات، تجربات اور صلاحیتوں سے بھری اس کی آبادی میں شاید ہی مزید تنوع ہو سکتا ہے
لیکن اہم ترین سوالات یہ ہیں کہ برازیل اب تک اپنے تمام تر ترقیاتی عزائم پورے کیوں نہیں کر سکا؟ برازیل کے تقریباﹰ 63 ملین عوام غربت کی سطح سے نیچے کیوں رہتے ہیں؟ اور 125 ملین افراد کو اپنی خوراک کی حفاظت کی ہر وقت فکر کیوں ستاتی رہتی ہے؟ کیوں ملک کے کسانوں کا محض ایک فیصد حصہ اپنی زمین کے صرف 45 فیصد حصے کا مالک ہے؟ سیاہ فام افراد ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ بنتے ہیں لیکن ابھی تک کوئی افرو-برازیلئن ملک میں سربراہی عہدے تک کیوں نہیں پہنچ سکا؟ اور کیوں ہر سال پچاس ہزار برازیلی قتل ہوتے ہیں، یعنی اوسطاً 130 یومیہ!
ویانا کے ایک مصنف اسٹیفن سوائیگ نے سن 1941 میں برازیل کی ان گنت صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے ’مستقبل کی سرزمین‘ قرار دیا تھا۔ لیکن یہ ملک اپنی آزادی کے دو سو سال بعد بھی اپنے سنہرے مستقبل کا انتظار ہی کر رہا ہے
برازیلی قوم کی داستان سن 1822ع کے دوران ایک داغ کے ساتھ شروع ہوئی۔ لاطینی امریکہ کے ہسپانوی زبان بولنے والے دیگر نوآبادی علاقوں کے برعکس، برازیل جمہوریہ کے بجائے شاہی نظام کے ساتھ سامنے آیا۔ ریاست کے پہلے سربراہ شہنشاہ پیڈرو اول تھے، جو پرتگال کے سابق ولی عہد تھے
اقتصادی طور پر برازیل کا سولہویں صدی سے شمال مشرق میں چینی کی پیداوار پر انحصار رہا۔ زراعت کی صنعت پر چند خاندانوں کا کنٹرول تھا، جو بادشاہت کی حمایت کرتے تھے اور انہیں بدلاؤ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسی دوران اٹھارہویں صدی میں ’گولڈ رش‘ کے عروج کے سبب برازیل کا جنوب مشرقی حصہ تجارت کا مرکز بننا شروع ہو گیا اور دارالحکومت سلواڈور سے ریو منتقل کر دیا گیا
نئی ریاست کی پہلی دہائیاں براعظم میں ہسپانوی بولنے والی ری پبلکس کے مقابلے میں کم افراتفری کا شکار تھیں۔ اس کے باوجود، پیڈرو کی مقبولیت میں کمی آئی۔ بڑے زمینداروں کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے، اس نے انگلینڈ کے ساتھ تجارتی معاہدے کیے جس میں برازیل نے غلاموں کی درآمد بند کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ تاہم غلاموں کے تاجروں نے اس کی پرواہ کیے بغیر اپنا کاروبار جاری رکھا
برازیل کی سفید فام اشرافیہ نے دوسرے لوگوں کے استحصال اور جبر کو اپنا حق سمجھا، جسے انہوں نے نسل پرستانہ سوچ کے اعتبار سے بھی جائز قرار دیا۔ یہ ذہنیت آج تک برازیل کی اشرافیہ کی خصوصیت بنی ہوئی ہے
برازیل کے سماجی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہاں کا طبقات پر مبنی سماجی نظام دو سو سالوں میں مشکل سے بدل سکا، اگرچہ اسے جدیدیت کی جانب بار بار دھکیلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ سن 1950ع کی دہائی میں، برازیل نے فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کی، سرکاری تیل کمپنی پیٹروبراس کی بنیاد رکھی گئی اور ایک نیا دارالحکومت بنایا گیا۔ برازیلیا، جس کا افتتاح سن 1960 میں ہوا۔ یہ شہر قوم کی خوابیدہ عظمت کی علامت بن گیا
صرف چار سال بعد فوج نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ یکم اپریل سن 1964ع کو جرنیلوں نے امریکہ کی حمایت سے بغاوت کی۔ انہوں نے کمیونسٹ سرگرمیوں کے ساتھ بغاوت کو جائز قرار دیا۔ نیشنل ٹروتھ کمیشن کے مطابق اکیس سالوں کے دوران 434 سیاسی قیدیوں سمیت تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار مقامی لوگوں کو قتل کیا گیا۔ ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا اور اذیتیں دی گئیں۔ ان جرائم سے قانونی طور پر کبھی بھی نہیں نمٹا گیا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ برازیل کی سیاست اب بھی فوج کے منفی اثر میں ہے
دوبارہ جمہوریت آنے کے بعد ابتدائی چند سالوں میں، برازیل میں ایک پرانا مسئلہ جو فوجی آمریت کے دوران کافی دب گیا تھا، دوبارہ واضح ہو گیا: اور وہ بدعنوانی کا مسئلہ تھا۔ یہ بھی بنیادی طور پر اشرافیہ اور اعلیٰ طبقے کا پیدا کردہ مسئلہ ہے، جو بظاہر عوامی فنڈز کو ضائع کرنا معمول سمجھتے ہیں
فیصلہ کن موڑ پر کھڑا پر ملک
اکیسویں صدی کے آغاز میں برازیل کو آخرکار بہتر بنانے کا احساس بائیں بازو کی ورکرز پارٹی (PT) کے لولا دا سلوا کو اقتدار میں لے آیا۔ سابق یونین لیڈر نے غربت سے لڑنے کے لیے پروگرام شروع کیے تھے۔ وہ اقتصادی ترقی کے سال تھے، اور جب لولا نے سن 2011 میں عہدہ چھوڑا تو برازیل دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن چکا تھا
لیکن ایک مرتبہ پھر سے حالات تبدیل ہو گئے۔ ملک ایک معاشی بحران میں پھنستا گیا۔ اس میں تیل کمپنی پیٹروبراس کے گرد گھومتا کرپشن اسکینڈل بھی شامل تھا۔ اس کے بعد ایک سیاسی، سماجی اور اخلاقی بحران پیدا ہو گیا، جس نے برازیل کو آج تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
بحران انتہا پسندوں کے لیے ہمیشہ اچھا وقت ہوتا ہے اور اسی طرح سن 2018ع میں انتہائی دائیں بازو کے سیاسی اعتبار سے ناتجربہ کار شخص جیئر بولسونارو صدر منتخب ہوگئے۔ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ریاست کو منہدم کرنا شروع کر دیا ہے۔ تعلیم، ثقافت اور سب سے بڑھ کر ماحولیاتی تحفظ کے لیے فنڈز میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کیں۔ ان کی حکومت میں برازیل کے سب سے بڑے خزانوں میں سے ایک، ایمیزون کے جنگل کی تباہی ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ بولسونارو فوج کو بھی ریاستی معاملات میں لے آئے ہیں اور انہوں نے انتہائی قدامت پسند ایوینجلیکل گرجا گھروں کو اپ گریڈ کر دیا ہے
اپنی آزادی کی دو صدیوں بعد برازیل ایک بار پھر ایک دوراہے پر کھڑا ہے: کیا یہ زیادہ جدید، منصفانہ ہوتا جا رہا ہے اور کیا یہ آخر کار اپنی صلاحیت کو سب کے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے- یا پھر یہ واپس ماضی کی جانب ہی لوٹ رہا ہے؟