میں سندھ ہوں

محمد عارف میمن

سندھ، جسے قدیم روایتوں کا امین کہا جاتا ہے، میں تہذیب کا ایک مکمل باب ہوں، لیکن آج ایک مرتبہ پھر میں ڈوب رہا ہوں۔ میرے ساتھ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ میرا ڈوبنا اور پھر ڈوب کر بچ جانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ میرے بچے میری چھاتی پر آئے سیلاب میں ڈوبتے رہتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے ان کی لاشیں دیکھ دیکھ کر اب میرا دل پتھر ہو چکا ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ میں روتا نہیں، میں بے حس ہو گیا ہوں، لیکن یاد رکھو۔ جسے تم سیلاب کا پانی کہہ رہے ہو، اس میں میرے آنسو بھی شامل ہیں۔ میں اپنے معصوم بچوں کو بچانے سے قاصر رہا۔ میں کبھی کمزور نہیں ہوا، لیکن آج میں کمزور ہو چکا ہوں۔ میں تہذیب کا امین ضرور ہوں مگر مجھ میں اب طاقت ذرہ برابر بھی نہیں

کسی نے مجھے ہند کہہ کر پکارا تو کسی نے مجھے سندھو کہا، کسی نے مجھے برہمن آباد کا لقب دیا تو کسی نے مجھے موہن جو دڑو کہا۔ مگر میں ہر کسی کے ساتھ خوش رہا۔ مجھے نام سے کوئی غرض نہیں تھی، میرے بچے مجھے کسی بھی نام سے بلاتے، میں دوڑ کر انہیں اپنے سینے سے لگاتا۔ مجھے کسی کے مذہب، کسی کے رہن سہن، کسی کے کلچر اور کسی کی ذات پات سے کوئی لینا دینا نہیں رہا۔ میں تو بس خوش حال رہنا چاہتا تھا، جو میں کئی عرصے تک رہا بھی تھا۔ 1947 میں پاکستان کے نام سے ایک ملک وجود میں آیا۔ میں خوشی خوشی اس کا حصہ بن گیا۔ میں نے ہجرت کرنے والوں کو بھی اپنے سینے میں پناہ دی۔ میں نے کسی کو پرایا نہیں سمجھا۔ یہ سب میرے اور میں ان کا ہی ہوں

پاکستان کا حصہ بننے کے بعد میری تہذیب، میرے کلچر، میرے ادب میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں کی گئیں، میں نے اس پر بھی دل کو کشادہ کیا اور یہ سوچ کر اسے اپنے اندر سمولیا کہ یہ بھی میرے وجود کا حصہ ہیں۔ لیکن پھر کچھ عرصے بعد میرے اپنے ہی مجھے ڈسنے لگے۔ میرے نام پر سیاست شروع ہوئی، اور یہ سیاست مفاہمت سے شروع ہوکر لسانیت کے عروج پر پہنچ گئی۔ میں اپنے بچوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا، مگر میری پرواہ کسی نے نہیں کی۔ ہر کوئی اپنی مستی اور اپنی عیاشی میں ڈوبا رہا۔ میرا نام لے لے کر کام غیروں کا کرتے رہے

جو ترقی میں نے صدیوں پہلے کی وہ مجھ سے چھین کر غیروں کو دے دی۔ میں خوشحالی سے آہستہ آہستہ بدحالی کی طرف آنے لگا۔ ایک وقت تھا جب میرے سینے میں کھیت کھلیان ہوا کرتے تھے، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوا کرتا تھا، میں دنیا میں مہمان نواز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مگر یہ سب آہستہ آہستہ میری آنکھوں کے سامنے ہی مجھ سے چھین لی گئی۔ آج میرے دوست چاند کو چھو رہے ہیں، اور میں زمین کی خاک ہوچکا ہوں۔ کل تک میں صادق وامین کا درجہ رکھتا تھا، آج میں کرپشن کے نام سے دنیا میں جانا جاتا ہوں۔ میرے نام پر میرے اپنوں نے مجھ سے بے وفائی کی۔ میرے نام پر پیسہ بنایا۔ میرے نام پر کاروبار شروع کیے، میرے نام پر خود کو زمین کی خاک سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ مگر میں آج کہاں کھڑا ہوں؟

مختلف لوگوں نے سیاسی نعرے لگا کر مجھے لوٹا ہے۔ اس میں میرے اپنے بھی شامل قدم رہے۔ مجھے نوچ نوچ کر کھا گئے۔ میں یہ سوچ کر خاموش رہا کہ شاید آج میرے بچے میرے لیے کچھ کہیں۔ آج میرے حق کےلیے آواز اٹھائیں۔ مگر میری خاموشی کو ظالموں نے رضامندی سمجھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج میرے بچے اپنی کم عقلی اور شعور کی کمی کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ڈوب رہے ہیں۔ کل تک جو دسترخوان سجھائے بیٹھے تھے، آج وہ ایک ایک نوالے کےلیے ایک دوسرے کے گریبانوں تک پہنچ گئے ہیں۔ جن کی اوطاق میں ادب وتہذیب کے گیت سنائے جاتے تھے، آج وہاں موت کا سناٹا ہے۔ جنہوں نے میرے سینے پر ہل چلاکر مجھے سینچا، آج وہاں سیلاب کا راج ہے۔ میرے بچوں نے مجھے کبھی مجھے سنبھالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مجھے سمجھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کل تک میں امداد دینے والوں میں شامل تھا، مگر آج میں امداد لینے والوں کی لائن میں کھڑا ہوں

مجھ پر عرصہ دراز سے حکومت کرنے والوں نے مجھے بہتر انداز میں چلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ الٹا مجھے سونے کی مرغی سمجھ کر میرے انڈوں کو کھانے میں مصروف رہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ میری حالت دیکھ کر آج مجھے سنبھالنے کی کوشش کی جاتی، لیکن یہاں بھی الٹ ہورہا ہے۔ مجھ پر آئے عذاب سے سبق سیکھنے کے بجائے ہمیشہ کی طرح اسے کاروبار بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ میرے کانوں نے 2010 کے سیلاب میں یہ الفاظ بھی سنے کہ یہ تو ہمارے لیے رحمت ہے۔ یہ تو ہمارے کاروبار کو چار چاند لگا دے گا۔ ایسے سیلاب روز روز آیا کریں۔ یہ ہی الفاظ میں آج بھی سن رہا ہوں۔ مجھے ہر طرح سے چوٹ پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ میرے زخموں کو ناسور بناکر رکھ دیا ہے۔ میرے معصوم بچوں کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ بھوک سے بلکتے بچے مٹی کھانے پر مجبور ہیں، لیکن میرے نام پر لوگوں سے پیسہ اینٹھا جارہا ہے۔ میرے بھوکے بچوں کے نام پر آٹا، کھانا اپنی دوزخ میں ڈالا جارہا ہے

مجھ پر یہ ظلم وستم آخر کب تک رہے گا۔ میرے دکھ کے دن کب جائیں گے۔ کب میں وہ طلوع آفتاب دیکھوں گا جو میرے لیے خوشیاں لائے۔ میں زخموں سے چور چور ہوں، میرے لیے یہ سیلاب کوئی نہیں بات نہیں، میں اسے سنبھال سکتا تھا، مگر مجھے میرے اپنوں نے ڈبو دیا۔ ان کی غلط پالیسیوں، کرپشن، لوٹ مار اور سیاسی مفاہمت نے آج مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا

اب میں اور کیا کہوں۔۔۔ یہ کام کوئی غیر کرتا تو پھر بھی مجھے اتنا دکھ نہ ہوتا۔ لیکن میری پیٹھ پر چھرا گھونپنے والے میرے اپنے ہی ہوں تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میری بربادی کے پیچھے میرے اپنے ہی ہوں تو بھلا پھر میں کیا کرسکتا ہوں۔ میں سوائے تماشا دیکھنے کے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن اب میں اپنے ان سیاسی بچوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجھ میں اب اتنی سکت نہیں رہی۔ وقت سے پہلے ہی میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔ اگر میں مرگیا تو پھر یاد رکھنا یہاں تہذیب کا امین کوئی نہیں رہے گا، یہاں ادب کی سرزمین بھی تم سے چھن جائے گی، مہمان نوازی تو مجھ سے پہلے ہی چھن چکی ہے۔ تعلیم وشعور مجھ سے پہلے ہی چھن چکا ہے۔ لیکن اب بھی نہ سنبھلے تو رہی سہی کسر بھی ختم ہوجائے گی۔ پھر تم لاکھ چاہ کر بھی مجھے زندہ نہیں کرپاؤ گے۔ میں واپس لوٹ کر نہیں آنے والا۔ میں اب الوداع کہنے والا ہوں

اس سے پہلے کے دیر ہوجائے، سنبھل جاؤ اور مجھے بھی سنبھال لو۔ اپنی آنے والی نسلوں کےلیے، اپنے بہتر کل کےلیے اور اپنے بہتر مستقبل کےلیے مجھے سنبھال لو۔ کیوں کہ میں تہذیبوں کا امین ہوں۔ میں سندھ ہوں۔

بشکث: ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close