اختر بلوچ کو دنیا ’کرانچی والا‘ کے نام سے بھی جانتی ہے۔ ان کا اپنا ایک الگ ہی طرزِ مزاحمت تھا
انہوں نے ڈان کے لیے لکھے گئے اپنے بلاگز میں ہمارے ورثے کی بربادی کو نمایاں کیا اور اس طرح ہمارے ثقافتی زوال کے خلاف مزاحمت کی۔ ان کی تحریروں کو اندرون و بیرونِ ملک بہت پذیرائی ملی۔ انہوں نے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) میں اپنے کام کے ذریعے پاکستان میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مزاحمت کی
اختر بلوچ نے کمزور طبقے کے حقوق کی جنگ لڑی، ان میں چھوٹے لسانی و مذہبی گروہوں سے لے کر مخنث اور متنوع جنسی رجحانات رکھنے والے گروہ بھی شامل تھے۔ وہ ایک سرگرم کارکن تھے جن پر علم کا تڑکا بھی لگا ہوا تھا۔ پرانی کتابوں، عمارتوں اور مخطوطات پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ وہ فرض عین سمجھ کر پرانی کتابوں کے اسٹالز پر جاتے اور شاعری و نثر میں انسان دوستی کے پہلو تلاش کرتے تھے
31 جولائی 2022ء کو وہ پچپن سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ ایک بہت ہی اچھے صحافی اور خیال رکھنے والے دوست تھے جن کے جانے سے ہماری ختم ہوتی ہوئی دانشورانہ میراث کو مزید نقصان پہنچا ہے
اس تحریر کا مقصد وفیات لکھنا نہیں ہے بلکہ قارئین کو یہ بتانا ہے کہ اختر بلوچ کی جدوجہد کن چیزوں کے لیے تھی۔ اختر بلوچ 1967ع میں میرپورخاص میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی تیس سال وہیں گزارے۔ کالج کے دنوں میں انہوں نے کئی ادبی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ یہ جنرل ضیاءالحق کی حکومت کا تاریک دور تھا
اختر بلوچ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے عینی شاہد تھے۔ نو عمری میں ہونے کے باوجود وہ اس درد اور عتاب کو محسوس کرسکتے تھے جو جنرل ضیا اور ان کے ساتھی اپنے مخالفین پر ڈھاتے تھے۔ اختر بلوچ کا ادبی سفر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے سندھی زبان میں موجود چیزوں کا مطالعہ شروع کیا اور کچھ منتخب چیزوں کا اردو ترجمہ کیا۔ زبانوں سے ان کے لگاؤ نے ایک معروف مترجم کے طور پر ان کی مہارت میں اضافہ کیا۔ تیس سال کی عمر میں وہ ایک صحافی اور مترجم کے طور پر معروف ہو چکے تھے
اس کے بعد اختر بلوچ نے حیدرآباد کا رخ کیا، جہاں وہ انسانی حقوق کے ایک بے خوف کارکن کے طور پر سامنے آئے۔ ایچ آر سی پی کو بھی ان کی کوششوں سے بہت فائدہ ہوا کیونکہ وہ اس کے صوبائی کوآرڈینیٹر تھے۔ چونکہ ملک اس وقت ایک دوسرے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے زیرِ حکومت تھا اس وجہ سے اختر بلوچ بھی جابروں کے ہدف پر آگئے۔ 2003ع میں یومِ پاکستان پر انہیں ‘نامعلوم افراد’ نے اغوا کیا۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں اور انہیں چھوڑنے سے قبل کئی دنوں تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا
اختر بلوچ نے اپنی زندگی کے آخری بیس سال کراچی میں گزارے جہاں دوستوں، صحافیوں، قارئین اور طلبہ سمیت کئی لوگ انہیں جانتے تھے۔ ان کے ہمیشہ مسکراتے چہرے نے انہیں بہت سے لوگوں کے لیے پسندیدہ بنادیا تھا۔ وہ ان کے لیے ایسے مسائل کے بارے میں معلومات کا ذریعہ بن گئے تھے جنہیں عام طور نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سندھ میں مخنث افراد کے ساتھ کام کرنے کے بعد وہ ایک معروف محقق بھی بن گئے تھے۔ 2010ع میں کراچی میں سٹی پریس نے ان کی کتاب بعوان ‘تیسری جنس’ شائع کی۔ علم و ادب نے اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن 2020ع میں شائع کیا
تیسری جنس بنیادی اور ثانوی تحقیق کا ایک شاندار کام ہے۔ اس سے سندھ میں رہنے والے مخنث افراد کو درپیش مشکلات کا ایک خاکہ سامنے آتا ہے اور ان کی مخصوص زبان ‘فارسی چاند’ عوام کے سامنے آتی ہے۔ مخنث افراد کی اپنی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے جو عام افراد مشکل سے ہی سمجھتے ہیں۔ اختر بلوچ نے مخنث افراد کے ساتھ خاصا وقت گزارا اور ان کی زبان کی پیچیدگیوں کو دستاویزی صورت میں لائے۔ یہ مختلف زبانوں کا مجموعہ تھا۔ کچھ معروف مخنث افراد بشمول بندیہ رانا، گُرو گیتا، شاہانہ عرف شانی اور یاسمین فقیر نے اختر بلوچ پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں وہ باتیں بھی بتائیں جو وہ کسی اور کو نہیں بتاتے
انہوں نے سندھ میں ایسے کئی شہروں کا دورہ کیا جہاں مخنث افراد کا ’ڈیرہ‘ موجود ہے۔ حیدرآباد شہر میں مخنث افراد کا مرکز گھدڑا گلی میں ہے جہاں اختر بلوچ جایا کرتے تھے۔ اس کتاب میں سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ اس میں مخںث افراد کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اختر بلوچ نے مخنث افراد کے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کے انٹرویوز کے ذریعے وہ قیمتی معلومات جمع کی ہیں جو پہلے کہیں دستیاب نہیں تھیں۔ تقریباً دو درجن انٹرویوز پر مبنی یہ کتاب مخنث افراد کے استحصال اور پسماندگی کی ایک خوفناک کہانی سناتی ہے
یہ کتاب فوراً ہی مقبول ہوگئی اور آج بھی علمی معلومات کا ایک منفرد ذریعہ ہے۔ مستند واقعات اور حوالوں نے ان کے بیانیے کو معتبر بنایا اور اختر بلوچ نے ایک ایسے طبقے کو آواز دی جو جبر کا شکار ہے
اختر بلوچ کی ایک اور کتاب ’اردو ادب میں انسان دوستی‘ بھی بہت مقبول ہوئی۔ یہ ایک خالص علمی کام ہے جس میں انہوں نے سترہویں سے انیسویں صدی تک کے اردو ادب میں انسان دوستی کی روایت کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسا خزانہ ہے جو پڑھنے والوں کو اردو ادب میں شامل انسان دوستی کے تصورات سے روشناس کرواتا ہے۔ اس کتاب میں اختر بلوچ نے انسان دوستی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ کس طرح ادب سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تخلیقی تحریر کا اصل ہی یہ ہے کہ زندگی کے حوالے سے انسان دوستی کا رجحان رکھا جائے۔ اس تصور کے مطابق جب نفرت اور محبت کسی خلا کو پُر کرنے کے لیے آمنے سامنے آجائیں تو جیت محبت کی ہوگی
انہوں نے اپنی تحقیق کا آغاز دکن میں تخلیق پانے والے اردو کے ابتدائی ادب سے کیا۔ انہوں نے دکن کے ماحول میں انسان دوستی کے عناصر کی کھوج کی جہاں اردو پرورش پارہی تھی۔ اس کے بعد وہ اٹھارہویں صدی پر چلے گئے جہاں اس دور کے ادب اور شاعری کے موضوعات میں سیاسی انحطاط کا رنگ نظر آتا ہے
اختر بلوچ نے تیزی سے بدلتے معاشرے کے بارے میں میر جعفر زٹلی اور ان کے ہم عصر شاعروں کے تحفظات پر گفتگو کی۔ ہندوستان بھر میں جاری افراتفری نے اس وقت کے ادب کو بھی متاثر کیا اور مصنفین اور شاعر سماجی اور سیاسی حقائق سے دُور نہ رہ سکے۔ اختر بلوچ نے اس کتاب میں میرؔ اور سوداؔ جیسے شاعروں سے لے کر اٹھارہویں صدی کے آخر میں ابھرتی ہوئی اردو نثر تک کئی جوہر پیش کیے ہیں
اختر بلوچ کی دلچسپی ادب کی کسی ایک صنف میں نہیں تھی۔ انہوں نے سترہویں سے انیسویں صدی تک کی مختلف اصناف کو دیکھا۔ انہوں نے یہ بات ثابت کی کہ اردو ادب کی تمام اصناف میں انسان دوستی کا موضوع مشترک ہے۔ ممتاز ادیبوں کی خوبیوں اور خامیوں کا مطالعہ کرکے اختر بلوچ نے نوآبادیاتی دور کی پہلی صدی میں سامنے آنے والے ادبی رجحانات سے پردہ اٹھایا۔ ان میں اختر بلوچ کے پسندیدہ شاعر مرزا غالبؔ بھی شامل ہیں، وہ بھی انسان دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور وہ آج بھی اردو شاعری پر غالب ہیں
اس کتاب کا اختتام 1857ع کی جنگِ آزادی کے بعد تشکیل پانے والے معاشرے پر بحث سے ہوتا ہے۔ اس میں اختر بلوچ انیسویں صدی کے نصف آخر اور خصوصاً سر سید احمد خان کی تحریک کے تناظر میں اردو ادب میں آنے والی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہیں
اختر بلوچ نے 2013ع میں ’کرانچی والا‘ کے نام سے بلاگز لکھنا شروع کیے، جن میں وہ کراچی کی پرانی عمارتوں، شخصیات اور سڑکوں کے بارے میں لکھتے تھے۔ ان کی تحریریں انٹرنیٹ پر بیک وقت انگریزی، اردو اور سندھی زبان میں شائع ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے بلوچستان میں انتخاب اخبار اور آزادی اخبار اور لاہور اور پشاور میں مشرق اخبار ان کی تحریریں شائع کرتے۔ تاریخی درستگی کے لیے ان کی کوششیں بے مثال تھی کیونکہ وہ انتہائی غیر متوقع لوگوں اور مقامات سے حوالہ جات تلاش کرتے تھے۔ ان کے منفرد انداز نے انہیں علمی برادری کے اندر بھی ایک معتبر حوالہ بنا دیا تھا
انہوں نے سندھ میں کاروکاری (غیرت کے نام پر قتل)، جرگہ نظام، اور شیڈول کاسٹ اور دیگر پسماندہ گروہوں کے درپیش مشکلات کے حوالے سے بھی لکھا۔ وہ وفاقی اردو یونیورسٹی سے بطور جزوقتی استاد بھی وابستہ رہے۔ اپنے مقبول بلاگز کے ذریعے ‘کرانچی والا’ کے طور پر ان کی شناخت کو خوب پذیرائی ملی
ان بلاگز میں تاریخ کے ان موضوعات کا بھی احاطہ کیا گیا، جنہیں بہت سے لوگ ممنوع سمجھتے تھے یا بحث کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر 2016ع میں جب ان کے بلاگز کا پہلا مجموعہ کتابی صورت میں سامنے آیا تو اس میں محمد علی جناح اور رتی کے درمیان شادی کا پیغام دینے کے واقعے نے قارئین کی دلچسپی حاصل کی۔ اس واقعے کی تصدیق کے لیے ہمارے اختر بلوچ نے شریف الدین پیرزادہ کی کتاب تلاش کی اور اس کا صحیح حوالہ دیا۔ انہوں نے اس واقعے کو بغیر کسی سنسنی کے بیان کیا
حقائق کی چھان بین کرنا ان کی خاصیت تھی اور بعض اوقات اپنے بلاگز میں استعمال ہونے والے ذرائع کی تصدیق کے لیے مواد کی تلاش میں وہ ہفتوں بلکہ بعض اوقات تو مہینوں تک کوشش کرتے۔ چونکہ وہ اپنی جستجو میں پُرجوش اور اپنے تجزیے میں بالکل غیر جذباتی ہوتے تھے اس وجہ سے ان کی تحریریں غیر جانبدارانہ ہوتی تھیں۔ اپنے بلاگز کے آخر میں وہ قارئین سے کہتے کہ وہ اس موضوع کے حوالے سے انہیں اضافی معلومات سے روشناس کروائیں۔ یہ چیز انہیں فکری طور پر ایک لچکدار شخص کے طور پر پیش کرتی ہے۔ وہ اکثر ڈاکٹر مبارک علی، حسین نقی، آئی اے رحمٰن، صبا دشتیاری اور توصیف احمد خان کے حوالے دیا کرتے تھے جنہیں وہ اپنا سرپرست اور رہنما بھی سمجھتے تھے
ان افراد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہی انہوں نے تاریخ کے اس عمومی راستے سے مختلف راستہ اختیار کیا جو پاکستان کی درسی کتابوں میں بتایا جاتا ہے۔ ان کی اس کوشش نے تاریخ کے حوالے سے ایک غیر روایتی انداز کو جنم دیا جو ماضی قریب کے کچھ کھوئے ہوئے صفحات کو دریافت کرنے کا باعث بنا۔ ان کی سب سے زیادہ دلچسپی ان عمارتوں اور لوگوں کو سامنے لانا تھی جو ہماری تعریف اور توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کے بلاگز سندھ کے شہروں اور قصبوں اور اس کے لوگوں کے حوالے سے تحقیق پر مبنی ہوتے تھے۔ یہ بلاگز ان افراد کی مرکزی دھارے سے دُوری کو بھی ختم کرتے تھے
اختر بلوچ کا تمام کام ہمارے ماضی کو مسخ کرنے والے تاریخ سے متعلق تمام سرکاری بیانیے کی مزاحمت اور اسے چیلنج کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے کام کے ذریعے تاریخ کے حوالے سے غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے۔ انہوں نے جو کام کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ وہ سندھ میں عوام کی تاریخ کے حقیقی حامی تھے اور انہوں ںے اپنے ساتھی محققین اور طلبہ کے لیے ایک متبادل راستہ ہموار کیا جو غیر موافقت پسندانہ تھا
وقت کے ساتھ ساتھ چالیس بلاگز پر مشتمل پہلی کتاب ’کرانچی والا 1‘ کے تین ایڈیشن شائع ہوئے، جس نے انہیں اس کتاب کا دوسرا حصہ مرتب کرنے کی ترغیب دی۔ تیس بلاگز پر مشتمل یہ کتاب 2020ع میں شائع ہوئی جس میں بہت اہم معلومات تھیں۔ انہوں نے مارچ 1940ع کی قراردادِ لاہور کے حوالے سے لکھے گئے اپنے بلاگ میں اس قرارداد کی منظوری کی تاریخ کو چیلنج کرتے ہوئے ثابت کیا کہ اس کی درست تاریخ 23 نہیں بلکہ 24 مارچ ہے۔ اسی طرح ایک اور بلاگ میں انہوں ںے یہ بیان کیا کہ پاکستان کا اصل یومِ آزادی 15 اگست ہے
جام ساقی اور نذیر عباسی کے حوالے سے لکھے گئے بلاگ میں انہوں نے ماضی قریب میں سول اور فوجی حکومتوں کے دوران بائیں بازو اور ترقی پسند سیاسی سرگرمیوں میں حائل مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ ایک سیکولر ایکٹوسٹ ہونے کے باوجود سندھ کی مختلف مذہبی برادریوں کی جانب سے کیے گئے مثبت اقدامات کو بھی بیان کیا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت جس نے ان کی دلچسپی حاصل کی وہ بھگت کنور رام تھے جو مختلف برادریوں کے درمیان ہم آہنگی اور محبت کو فروغ دینے والے تھے۔ بھگت ایک ہندو موسیقار، گلوکار اور بے لوث شخص تھے۔ اختر بلوچ نے بتایا کہ پیر بھرچونڈی شریف کے ایک جنونی پیروکار نے 1939ع میں بھگت کو قتل کردیا تھا
اختر بلوچ کو تحقیق کا جنون تھا لیکن وہ اکثر دوسرے نام نہاد صحافیوں اور اینکر پرسن کی جانب سے سرقے کا نشانہ بنتے تھے۔ اس کی ایک قابلِ ذکر مثال یہ ہے کہ ایک اینکر پرسن نے حوالہ دیے بغیر کراچی میں یہودی عبادت گاہ پر لکھے گئے اختر بلوچ کی مکمل تحقیق کا سرقہ کیا۔ حتیٰ کہ اختر بلوچ نے جو تصاویر لی تھیں اور اپنے بلاگ کے لیے استعمال کی تھیں وہ بھی بغیر کسی حوالے یا اجازت کے ڈاؤن لوڈ اور استعمال کی گئیں
یہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں تھا کیونکہ اسی اینکر نے بعد میں فاطمہ جناح کے جنازے پر لکھے گئے اختر بلوچ کے بلاگ کو نقل کیا تھا۔ اسے بعد میں بہت سے اخبارات نے دوبارہ پیش کیا، جن میں سے کچھ نے اختر بلوچ کے کام کو تسلیم کیا جبکہ دوسروں نے نہیں کیا۔ اسی طرح ایک شخص نے تو فاطمہ جناح کے جنازے کے حوالے سے 36 صفحات پر مشتمل کتابچہ بھی شائع کیا جس میں اختر بلوچ کا بلاگ استعمال کیا گیا، مگر اس میں اختر بلوچ کا کوئی حوالہ نہیں تھا
اختر بلوچ خوش تھے کہ ان کا کام بڑے پیمانے پر شائع ہورہا ہے لیکن یہ بدقسمتی تھی کہ اس کی داد دوسروں کو مل رہی تھی۔ آدرش ایاز لغاری اور عارف انجم نے ڈان کے لیے لکھے گئے ان کے اردو بلاگز کا انگریزی میں ترجمہ کیا جبکہ کچھ دیگر سندھی میگزینوں نے بھی ان کے بلاگز ترجمہ کرکے شائع کیے
دوسری جانب اختر بلوچ کا حال یہ تھا کہ اگر کسی نے ان کے بلاگ کے لیے ذرا سا بھی تعاون کیا ہوتا تو وہ اس کا حوالہ ضرور دیتے۔ اس کے حوالے سے وہ ہمارے مرحوم دوست مصدق سانول کا ذکر کرتے تھے، جن سے انہوں بہت کچھ سیکھا تھا
’کرانچی والا‘ سلسلے کی ان کی تیسری کتاب، جو انہوں نے نظرثانی کے لیے مجھے دی تھی، وہ 2020ع میں شائع ہوئی۔ افسوس کی بات ہے کہ میں اسے کسی نہ کسی وجہ سے ٹالتا رہا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ جب میں آخرکار ان کے بارے میں لکھنے بیٹھوں گا تو شاید وہ یہاں موجود نہ ہوں۔ وسعت اللہ خان نے انہیں کراچی کا سر جان مارشل کہا ہے۔ جان مارشل نے موہنجودڑو کے کھنڈرات دریافت کیے تھے۔ اختر بلوچ پرانے کراچی کو ہمارے سامنے لے آئے اور ہمیں اس کے شاندار ماضی کو سراہنے کی ترغیب دی۔
نوٹ: یہ مضمون 28 اگست 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔ جسے ادارے کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔