پاکستان فوج کے ذیلی ادارے فوجی فاؤنڈیشن کے تحت ڈیرہ غازی خان میں فوجی سیمنٹ فیکٹری کا ایک یونٹ لگانے کی تیاری شروع ہو چکی ہے
اس مقصد کے لیے حکومت پنجاب سے نیلامی میں آٹھ سو ایکڑ سے زائد رقبہ چار لاکھ تیس ہزار فی ایکڑ کے ریٹ سے خریدنے کا عمل آخری مراحل میں ہے
واضح رہے کہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں سیمنٹ کی یہ دوسری فیکٹری ہوگی۔ اس سے پہلے بھیاسی علاقے میں ڈی جی سیمنٹ فیکٹری موجود ہے
فوجی فاؤنڈیشن کے شعبہ ایکسٹرنل اسٹیٹ اینڈ نیو پروجیکٹس کرنل راجہ یاور نے بتایا کہ فوجی سیمنٹ کے کئی یونٹ مختلف مقامات پر کام کر رہے ہیں، جس میں ڈیرہ غازی خان کا یونٹ ایک اضافہ ہوگا
انہوں نے کہا کہ ایک سال سے اس منصوبے پر کام جاری ہے اور آئندہ دو سالوں میں یہ مکمل ہو جائے گا
کرنل راجہ یاور کا کہنا تھا ’پہلے مرحلے میں کوہ سلمان کی طرف سے بارشوں کا پانی روکنے کے لیے بند تیار کیے جا رہے ہیں، جس سے مقامی آبادیوں میں بھی سیلاب آنے سے روکنے میں مدد ملے گی۔‘
ان کے مطابق ”اس کے علاوہ ’فیکٹری لگنے سے دس سے پندرہ ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس کے ساتھ علاقے میں ہسپتال، صاف پانی کے پلانٹ اور اسکول بنایا جا رہا ہے تاکہ مقامی آبادی مستفید ہو سکے“
کرنل راجہ یاور کے بقول یہ بنجر علاقہ ہے، جہاں آٹھ سو سے زائد ایکڑ پر فیکٹری لگائی جا رہی ہے کیونکہ یہیں سیمنٹ کی تیاری کے لیے خام مال پایا جاتا ہے
انہوں نے بتایا کہ منصوبے کے لیے محکمہ ماحولیات سے باقاعدہ این او سی حاصل کر لیا گیا ہے
ان کے مطابق ’فیکٹری ایریا میں درخت اور پودے لگائے جائیں گے تاکہ ماحول پر کوئی اثر نہ پڑے جبکہ فیکٹری چلنے سے پیدا ہونے والی آلودگی کو قابو کرنے کے لیے محکمہ ماحولیات کی شرائط پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
فوجی فاؤنڈیشن کے شعبہ ایکسٹرنل اسٹیٹ اینڈ نیو پروجیکٹس کرنل راجہ یاور کے مطابق منصوبے پر تیس سے چالیس ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو مختلف بینکوں سے قرض کی صورت میں لیا جائے گا
ان کے بقول، پنجاب حکومت نے ہمیں زمین سرکاری ریٹ کی نسبت مہنگی دی۔ سرکاری ریٹ ایک لاکھ ساٹھ ہزارفی ایکڑ ہے جبکہ تھرڈ پارٹی سے تخمینہ لگوا کر چار لاکھ روپے فی ایکڑ کم از کم ریٹ رکھا گیا
انہوں نے کہا ’ہم نے چار لاکھ تیس ہزار فی ایکڑ میں سب سے زیادہ بولی دے کر ٹینڈر اپنے نام کیا، جس کے بعد معاملہ کابینہ کمیٹی برائے پرائیوٹائزیشن کے پاس ہے“
انہوں نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی نے ابھی تک زمین فوجی فاؤنڈیشن کو منتقل کرنے کی منظوری نہیں دی، جس کے لیے کوششیں جاری ہیں اور طے شدہ شرائط کے مطابق 50 فیصد ایڈوانس ادا کی جا چکی ہے
ماہر ماحولیات رافع عالم نے بتایا کہ فیکٹریاں عمومی طور پر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا سبب ہوتی ہیں لیکن اگر قواعد و ضوابط پر مکمل عمل درآمد ہو تو مسائل پیدا نہیں ہوتے
انہوں نے کہا ’ڈیرہ غازی خان میں لگائی جانے والی فوجی سیمنٹ فیکٹری کے لیے پہاڑوں سے جو خام مال نکالا جائے گا اگر اس میں احتیاطی تدابیر پر عمل نہ ہوا تو آلودگی پھیل سکتی ہے۔‘
رافع عالم کے بقول دوسرا مرحلہ فیکٹری لگنے کے بعد اس میں استعمال ہونے والے ایندھن سے کاربن یا سلفر گیس کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی پھیلنا ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ ماحولیات کے 2018ع میں بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کرایا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے جیسے پہاڑوں کی کھدائی کے دوران جدید مشینری کا استعمال، جو غبار نہ پھیلنے دے اور فیکٹری کے ایندھن سے پیدا ہونے والی آلودگی کو مشینوں میں جدید نظام کے ذریعے پھیلنے سے پہلے ناکارہ بنا دیا جائے
انہوں نے کہا کہ اگر پہاڑوں پر سبزہ یا درخت ہیں تو انہیں کاٹنے سے اجتناب کیا جائے
’ہمارے ہاں محکمہ ماحولیات سے این او سی جاری ہونے سے قبل ماہرین کی سروے رپورٹ کا جائزہ لینے کی زحمت نہیں کی جاتی، سروے کرنے والے تھرڈ پارٹی ماہرین میں اکثر سرٹیفائیڈ ہی نہیں۔‘
رافع کے مطابق ایسے قوانین اور ضابطے موجود ہیں جن سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جاسکتا ہے مگر عمل درآمد میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔