یہ منظر ہے بلوچستان کے ضلع جھل مگسی کے علاقے کوٹ مگسی میں لگے ایک میڈیکل کیمپ کا، جہاں ایک عورت اپنی بچی کا چیک کروانے لائیں ہیں
ننھی بچی کا پورا چہرہ زخموں سے بھرا ہوا ہے اور ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ ماں بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتا کہ اپنی حالتِ زار کا شکوہ کریں بھی تو کس سے
وہ بے بسی کے ساتھ کہتی ہیں ”ہم بلوچستان والوں کی قسمت ہی خراب ہے۔۔ یا تو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا یا پھر اتنا پانی برستا ہے کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہو جاتا ہے۔“
انہوں نے کہا ”خشک سالی انسان اور جانور کو ایک گھاٹ پر اکٹھا کر دیتی ہے اور سیلاب آجائے تو دونوں کی قسمت بھی اسی گدلے پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ ہر طرف تو سیلاب کا پانی کھڑا ہے۔۔ میں اس کے زخموں کی صفائی کے لیے صاف پانی کہاں سے لاؤں؟“
میڈیکل کیمپ میں اس وقت بھی سو سے زائد مریض تھے، جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی، جن کے چہرے، ہاتھوں اور پیروں پر جلدی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والے زخم انفیکشن کی وجہ سے خراب ہو چکے تھے۔ بہت سے بچوں کے سر پر بڑے بڑے زخم تھے، جو رس رہے تھے
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں مون سون کی بارشوں سے ہونے والی تباہ کاری جولائی کے دوسرے ہفتے میں شروع ہو گئی تھی لیکن زیادہ نقصان 24 اگست سے شروع ہونے والی بارش کے بعد ہوا۔ بارشوں اور سیلاب سے ضلع جھل مگسی بھی بری طرح متاثر ہوا ہے
بارش کے اس سلسلے نے ضلعے کا رابطہ ملک کے باقی حصوں سے ختم کر دیا۔ سیلابی پانی کی وجہ سے ضلعی ہیڈ کوارٹر گنداوہ کی دیہاتی علاقوں تک رسائی بھی ختم ہو گئی
سندھ کے بعد سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ بلوچستان کے کئی اضلاع زیرِ آب آنے سے صوبے کا باقی ملک سے رابطہ بھی منقطع ہو گیا تھا
سیلاب آنے کے کئی روز بعد بھی بلوچستان کے کئی اضلاع میں اب بھی پانی جمع ہے، جس کی وجہ سے مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ مچھروں اور سانپ کے کاٹنے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں ملیریا پھیلنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ جبکہ کئی علاقوں میں لوگ اب بھی امداد نہ ملنے کی شکایات کر رہے ہیں
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہیضے سمیت پیٹ کی دیگر بیماریوں کے کیسز بھی رپورٹ ہو رہے ہیں
بعض بچوں کے سر کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے ہیں
کوٹ مگسی مرکز صحت میں میڈیکل آفیسر تعینات ڈاکٹر اظہر بتاتے ہیں ”سیلاب کے ابتدائی دنوں میں زیادہ تر گیسٹرو اور ہیضے کے مریض ہی آ رہے تھے لیکن آج کل طبی امداد کے لیے آنے والوں میں زیادہ تعداد جلدی امراض، پھوڑے، زرد چھالے، خارش اور الرجی کے مریضوں کی ہے“
انہوں نے بتایا ”ہمارے پاس آنے والے بیشتر مریضوں میں گھر کے تمام افراد جلدی امراض میں مبتلا نظر آتے ہیں اور بعض بچوں کے سر کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔ دیہات میں صاف پانی، ڈیٹول اور ضروری ادویات کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے بھی مریضوں کے زخم خطرناک حد تک خراب ہو رہے ہیں“
2017 کی مردم شماری کے مطابق جھل مگسی کی کل آبادی 148900 افراد پر مشمل ہے، جن میں 72173 خواتین ہیں۔ شہری آبادی کا تناسب صرف 5.25 فیصد ہے جبکہ باقی علاقہ دیہاتی ہے۔ اس ضلعے میں چار سے 14 سال تک کے بچوں کی تعداد 75812 ہے
بلوچستان کے محکمہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 3615 مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیلے جھل مگسی میں ایک ضلعی ہسپتال، 11 بنیادی مراکز صحت اور 16 ڈسپنسریاں ہیں۔ ان طبی مراکز میں تعینات ڈاکٹروں کی کل تعداد سات ہے
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رخسانہ نے بتایا ”ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہم نے جو دوائیاں اکٹھی کی تھیں وہ اب ختم ہونے کے قریب ہیں۔ جلدی امراض کی ادویات جھل مگسی میں میسر ہی نہیں، جس کی وجہ سے ہمیں خطرہ ہے کہ یہ کہیں وبا میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ پورے ضلعے میں ایک بھی جلدی امراض کا ماہر ڈاکٹر نہیں“
ڈاکٹر رخسانہ نے بتایا کہ جہاں ادویات کا نہ ملنا ایک بڑا مسئلہ ہے وہیں فیلڈ میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی فوری ضرورت ہے کیونکہ صرف سات ڈاکٹروں کے لیے اتنے بڑے علاقے میں اس تیزی سے بگڑتی ہنگامی صورت حال کو سنبھالنا مشکل ہے
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اگر ضلع جھل مگسی کے لیے منظور شدہ پچاس ڈاکٹروں کی اسامیوں پر تقرریاں کر دے تو اس سے بھی عوام کو طبی سہولیات پہنچانے میں مدد ملے گی
علاقے میں امدادی کاموں میں مصروف سماجی کارکن اریبہ الماس نے بتایا کہ جھل مگسی کے دیہات میں رہنے والوں کی ہسپتال تک رسائی سڑکوں کے بہہ جانے اور سیلابی پانی کی موجودگی کی وجہ سے بہت مشکل ہو گئی ہے۔ گاؤں کے گاؤں جلدی امراض کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ سیلاب میں بہت سے لوگوں کے گھر بہہ گئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ابھی تک کھلے آسمان تلے سڑکوں پر پناہ لیے ہوئے ہیں
انہوں نے جلدی امراض کے پھیلاؤ کی ایک وجہ یہ بھی بتائی: ’ان حالات میں بچوں کے زخموں کی دیکھ بھال اور ان کی صفائی کا خیال رکھنا ایک عام دیہاتی ماں کے لیے بہت مشکل ہے۔ خواتین اور بچے اگر نہانا چاہیں بھی تو صاف پانی کہاں سے آئے گا؟ صاف کپڑے کہاں سے آئیں گے؟‘
ان کا کہنا تھا: ’علاقے میں موجود ہمارے رضاکار محکمہ صحت کے ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر دور دراز علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگا رہے ہیں، جہاں پر مریضوں کو طبی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماہر ڈاکٹروں کی کمی پورا کرنے کے لیے لاہور اور کراچی سے رضاکار ڈاکٹر فیلڈ اسٹاف کو ٹیلی فون اور وڈیو کے ذریعے مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں“
’بچے بیمار ہیں، لیکن بخار کی دوا نہیں ہے‘
بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں سڑک کنارے خیمے میں موجود فاطمہ بی بی کا خاندان بھی سیلاب کے باعث کئی مشکلات سے دوچار ہے۔ پانی سے بچ کر خیمے میں پناہ لینے والے اس خاندان کے بچے اب بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں
فاطمہ بی بی کا کہنا تھا کہ شدید گرم موسم اور خوراک کی قلت نے اُن کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے، جبکہ مچھروں کی بہتات کی وجہ سے بچے ملیریا کا شکار ہو چکے ہیں اور بخار سے تپ رہے ہیں لیکن ان کے پاس دوا نہیں ہے
انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد بار مقامی انتظامیہ کو بتایا کہ اس علاقے میں پانی کھڑا ہے اور مچھروں کی بہتات ہے، اس لیے یہاں اسپرے کیا جائے مگر اب تک کوئی اسپرے نہیں ہوا۔ پورے علاقے میں بچے اور بڑے ملیریا کا شکار ہو رہے ہیں راستے بند ہیں اور اسپتالوں تک رسائی نہیں ہے
دوسری جانب نصیر آباد ڈویژن کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں سانپوں کے ڈسنے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں
ڈیرہ اللہ یار کے محکمۂ صحت کے مطابق ڈیرہ اللہ یار، نصیر آباد اور صحبت پور سے روازنہ کی بنیاد پر سانپ ڈسنے کے آٹھ سے دس کیسز سامنے آ رہے ہیں
سانپ کے ڈسنے سے زخمی ہونے والے شخص پناہ بلوچ نے بتایا کہ وہ اپنے خیمے سے گھر کی جانب سامان اُٹھانے جا رہے تھے کہ راستے میں پانی میں موجود سانپ نے اُنہیں ڈس لیا
محکمہ صحت بلوچستان کا مؤقف ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیس فری میڈیکل کیمپس قائم کیے گئے ہیں، جہاں ہیضے، جلدی امراض، ملیریا، سانس کے امراض اور سانپ ڈسنے سے بچاؤ کے لیے دوائیں اور ویکسین فراہم کی گئی ہے
ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی کے مطابق متاثرہ علاقوں میں فری میڈیکل کیمپس کے ذریعے ہزاروں افراد کا علاج کیا گیا ہے
اُانہوں نے دعویٰ کیا کہ تین جولائی سے اب تک محکمہ صحت نے دیگر این جی اوز اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر میڈیکل کیمپس میں چار لاکھ 28 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا
محکمہ تعلیم بلوچستان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے 32 اضلاع میں اسکولوں کی عمارتوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے اور ان علاقوں میں تدریسی عمل بھی متاثر ہوا ہے
محکمے کے مطابق صوبے میں سیلاب سے 574 اسکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جس سے 78 ہزار سے زائد طلبہ متاثر ہوئے ہیں
بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب سے اب تک صوبے کے 32 اضلاع میں 299 افراد ہلاک جب کہ 181 افراد زخمی ہوئے ہیں
صوبے میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور سیلاب سے اب تک 46 ہزار گھر مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں 2 ہزار کلومیٹر تک رابطہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ 22 پل تباہ ہو گئے ہیں۔