دو روز قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج قمبر شہدادکوٹ زاہد حسین میتلو نے خفیہ اطلاع پر سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رہنما کی نصیرآباد رائیس مل کے گودام پر چھاپہ مارا جہاں سے کثیر تعداد میں متاثرین کے لیے بھیجے گئے سرکاری خیموں سمیت امدادی سامان برآمد کرلیا گیا
یہ خبر ایک ایسے صوبے کی ہے، جس کے باسی اس وقت سیلاب تباہی کے بعد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں اور تیزی سے وبائی صورت اختیار کرتے امراض کی لپیٹ میں اور موت کے خطرات سے دوچار ہیں
ملک میں سیلاب نے جہاں ہر صوبے میں تباہی مچائی ہے وہیں متاثرین کے مصائب و آلام کی دل دہلا دینے والی داستانیں سامنے آ رہی ہیں، جہاں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں متاثرین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، سیلاب نے زندگی اتنی مشکل بنا دی ہے کہ متاثرین کے بھوک اور پیاس سے سسکتے اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں
سیلاب کے بعد پاکستان میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ کئی متاثرین اب بھی سیلاب متاثرہ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ پر ہجوم امدادی کیمپوں میں رہنے والے بے گھر لوگوں کا علاج کرنے کے لیے بھی ڈاکٹروں کے پاس ادویات دستیاب نہیں ہیں
سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقے اب بھی زیر آب ہیں اور سیلاب کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں صحت سے متعلق حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں کیونکہ سیلاب کے کھڑے پانی میں خطرناک جراثیم آسانی سے پھیلنے کا خدشہ ہے
سندھ کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کیمپ میں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر برکت نوناری بتاتے ہیں ”پورے سندھ اور خاص طور پر سیلاب متاثرہ علاقوں میں ملیریا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایک ملیریا ٹیسٹ پر ڈیڑھ سو روپے اور علاج پر تین سو روپے خرچ ہوتے ہیں۔ صرف پانچ سو روپے نہ ہونے کی وجہ سے ایک انسانی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے مسلسل بے حسی اور عدم توجہی کا رویہ برقرار ہے“
ڈاکٹر برکت نوناری کا کہنا ہے ”سیلاب میں پھنسے لوگ جلد کے امراض کے خطرے کی لپیٹ میں ہیں۔ سندھ ایک خطرناک وبائی پھیلاؤ Epidemic کا شکار ہونے والا ہے. معصوم بچوں کو حفاظتی ٹیکے EPI vaccines لگانے کی ضرورت ہے۔ سیلاب کا کھڑا پانی زہر میں تبدیل ہو رہا ہے، جو وبائی امراض کا سبب بن سکتا ہے“
انہوں نے کہا ”کھڑے پانی میں مسلسل چلنے کی وجہ سے لوگوں کے پیروں اور ٹانگوں میں زخم اور پھوڑے نکل آئے ہیں“
انہوں نے بتایا ”کئی سیلاب زدہ علاقوں میں چارہ نہ ملنے اور گندا پانی پینے کے باعث مرنے والے مویشی کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک طرف جہاں غذائی قلت کا خدشہ ہے وہیں اس سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔“
ڈاکٹر برکت نوناری کا کہنا تھا ”يونيسيف, ڈبليو ايچ او, ڈبليو ايف پي, ورلڈ بينک اور ريڈ کراس ہر سال کروڑوں ڈالر مالیت کی نیوٹریشن سندھ حکومت کو خیرات میں فراہم کرتے ہیں۔ سندھ حکومت اور نيوٹريشن پر کام کرنے والی اين جی او صرف گاڑیوں کا خرچ بچانے کے لیے یہ دوائیں ضایع کر کے جعلی ریکارڈ بناتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پندرہ سالوں سے سندھ کا نیوٹریشن اسٹیٹس بہتر نہیں ہو رہا“
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالغفور شورو کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جِلد کے انفیکشن عام ہوگئے ہیں کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد گزشتہ کئی روز سے پانی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہے، حال تو یہ ہوگیا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں پانی میں مچھروں کی افزائش ہونے لگ گئی ہے، لیکن غریب عوام کے پاس مچھر دانیاں ہیں اور نہ پناہ گاہیں موجود ہیں
انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”مجھے ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہوجائے گی اس لیے ہمیں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے“
ان کا کہنا تھا ”کھلے آسمان تلے بیٹھے سیلاب زدہ لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، انہیں غیر منافع بخش تنظیموں یا کسی مہربان زمیندار کی طرف سے تھوڑا کھانا مل رہا ہے“
انسٹیٹیوٹ آف اسکن ڈیزیز سندھ کی سربراہ ڈاکٹر روبی قریشی کے مطابق صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے جلدی امراض کے مریضوں کی بڑی تعداد ان کے ہسپتال میں آ رہی ہے۔ عام دنوں میں سر کے زخم میں کیڑوں والے مریض ایک یا دو آتے تھے مگر اب 10 سے 15 مریض روزانہ آتے ہیں۔ ہمارے ہسپتال کی او پی ڈی یا روزانہ معائنے کے لیے آنے والے مریضوں کی تعداد چار ہزار سے بڑھ کر آٹھ سے دس ہزار ہو گئی ہے
ڈاکٹر روبی قریشی کے مطابق مریضوں کی اکثریت میں بیکٹیرل انفیکشن، خارش اور جلد پر دانوں کی بیماریاں عام ہیں
متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث لوگوں میں ہیضہ اور پیچش جیسی پیٹ کی کئی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ لوگ پینے اور دیگر ضروریات کے لیے سیلاب کا کھڑا ہوا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جس کے باعث مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں
علاوہ ازیں مچھروں سے پھیلنے والے ڈینگی بخار اور ملیریا کے کیسز میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں مچھر دانیوں اور مچھر کے کاٹنے سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کی بھی شدید کمی ہے
جبکہ خواتین ماہواری سے متعلق حفظان صحت کے اصول بھی برقرار رکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ ایام حیض میں استعمال ہونے والی اشیا دستیاب نہیں۔ ان خواتین کو درد سے بچاؤ والی ادویات تک رسائی بھی حاصل نہیں
صوبہ سندھ کے اپنے دورے کے بعد یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاضل کا کہنا ہے ”بہت سے خاندان سڑکوں کے کنارے اونچی ڈھلوانوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں، جس سے بچوں کو مزید خطرات کا سامنا ہے، کیونکہ نیچے زمین کے وسیع رقبے پر تاحدِ نظر پانی کھڑا ہے۔ اس کے باعث سانپوں، بچھوؤں اور مچھروں سے اضافی خطرات بھی موجود ہیں‘‘
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مزید ادویات کی فوری ضرورت ہے۔ فی الحال فارمیسیوں میں درد کش ادویات، اینٹی بائیوٹکس، جلدی امراض اور امراض نسواں کے مسائل، ذیابیطس اور آنکھوں کے انفیکشن سے نمٹنے کے لیے ادویات موجود نہیں ہیں اور حالات مزید تیزی سے بگڑ رہے ہیں
رواں ماہ کے آغاز میں محکمہ صحت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق جولائی سے اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے طبی کیمپوں میں 6 لاکھ 60 ہزار 120 افراد میں مختلف بیماریوں کی تشخیص ہوئی ہے
اعدادوشمار کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں جلد اور اسہال کی بیماریاں تیزی کے ساتھ پھیلی ہیں، مجموعی طور پر ایک لاکھ 49 ہزار 551 افراد اسہال کی بیماریوں میں مبتلا ہیں جبکہ ایک لاکھ 42 ہزار 739 افراد جِلد کے انفیکشن کے کیسز رپورٹ ہوئے۔
حکام کے مطابق سانس کی بیماری کے ایک لاکھ 32 ہزار 485 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ملیریا کے 49 ہزار 420 کیسز، سانپ کے ڈسنے کے 101 کیسز اور کتے کے کاٹنے کے 550 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جبکہ دیگر بیماریوں کے ایک لاکھ 85 ہزار 274 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں
حکام کے مطابق حکومت کے زیر انتظام چلنے والے میڈیکل کیمپوں میں روزانہ جِلد کے انفیکشن کے 15 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ اسہال کی بیماریوں کے 14 ہزار سے زائد کیسز اور سانس کی بیماریوں کے 13 ہزار سے زائد کیسز روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں
تاہم سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف کارکنان کا خیال ہے کہ کیسز کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے
ایک طرف جہاں امراض پھیل رہے ہیں، وہیں دوسری جانب سیلاب سے صحت کے مراکز بھی تباہ ہو چکے ہیں، جبکہ ادویات کی شدید قلت اس کے علاوہ ہے
سب سے زیادہ صحت کی سہولیات سکھر میں تباہ ہوئیں، جس کی تعداد 230 ہے، اس کے بعد لاڑکانہ میں 199، حیدرآباد میں 183، میرپور خاص میں 171، شہید بے نظیر آباد میں 156 اور کراچی میں 27 سہولیات شامل ہیں
میرپورخاص میں 65 صحت کی سہولیات مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، اس کے بعد حیدر آباد میں 22، سکھر میں 17، لاڑکانہ میں 13، شہید بےنظیر آباد میں 7 اور کراچی میں ایک سہولت مکمل تباہ ہوئی۔