سابق وزیر اعظم کے معاون برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی ضرورت کے مطابق پی ٹی آئی کابینہ نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کیے گئے چودہ کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے کو خفیہ رکھنے کی منظوری دی تھی“
شہزاد اکبر نے یہ انکشاف اس دائر کردہ درخواست میں کیا ہے، جس میں انہوں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مذکورہ تصفیے کے سلسلے میں جاری کردہ کال اپ نوٹس کے جواب میں پاکستان ہائی کمیشن، لندن سے وڈیو لنک کے ذریعے گواہی دینے کی اجازت طلب کی ہے اور اپنا نام نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست کی ہے
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے درخواست پر سماعت کی اور نیب اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کر دیے
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپریل میں نیب چیئرمین سے پراپرٹی ٹائیکون کو ’بلا جواز فیور‘ دینے پر سخت سوالات کیے تھے اور انہیں این سی اے کی جانب سے پاکستان کو واپس کیے گئے چودہ کروڑ پاؤنڈز سے چار سو ساٹھ ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کی اجازت دی تھی
یہ جرمانہ 2019ع میں ضلع ملیر میں قائم کیے گئے ملک ریاض کے ہاؤسنگ پروجیکٹ ”بحریہ ٹاؤن کراچی“ سے متعلق تھا
نیب کے ریکارڈ کے مطابق نومبر 2019 میں لندن میں ملک ریاض فیملی سے برآمد ہونے والی رقم تقریباً چودہ کروڑ پاؤنڈ تھی
یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے زیر انتظام اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا، تصفیے کی مکمل مالیت 19 کروڑ پاؤنڈز میں سے این سی اے نے 14 کروڑ پاؤنڈز واپس ٹرانسفر کر دیے، جب کہ باقی رقم ملک ریاض سے ضبط کی گئی غیر منقولہ جائیداد کی قیمت تھی، جو ابھی موصول ہونا باقی ہے
کہا جاتا ہے کہ شہزاد اکبر نے مبینہ طور پر این سی اے سے حاصل ہونے والی رقم کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے 2019ع میں کابینہ کی منظوری حاصل کی تھی، این سی اے وہ ادارہ ہے جو منی لانڈرنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی غیر قانونی مالی معاملات کی تحقیقات کرتا ہے اور چوری شدہ رقم کو متاثرہ ملکوں کو واپس کرتا ہے
اپنی درخواست میں شہزاد اکبر نے مؤقف اپنایا ہے کہ یہ تصفیہ برطانیہ میں ایک معاملے سے متعلق ہے، جو برطانیہ کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے کنٹرول اور دائرہ اختیار میں آتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ نیب نے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ایک سول سیٹلمنٹ سے متعلق انکوائری شروع کی، جس میں وفاقی حکومت فریق بھی نہیں تھی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ تصفیہ کا اصل فریق این سی اے تھا
اپنی درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا ہے کہ وہ ٹرانزیکشن، جسے کال اپ نوٹس کا موضوع بنایا گیا ہے، وہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی جبکہ وفاقی حکومت ابتدائی تصفیہ میں فریق نہیں تھی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور یونٹ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے کابینہ کو معاملے سے آگاہ کرنے اور معاملے کو خفیہ رکھنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے اس وقت کی وفاقی کابینہ کے لیے سمری تیار کی
درخواست میں کہا گیا ہے کہ معاملے کو خفیہ رکھنا این سی اے کی جانب سے مطلوب تھا جب کہ اے آر یو نے ابتدائی طور پر پاکستان سے مطلوبہ معلومات فراہم کرکے اثاثہ منجمد کرنے کے آرڈر کے حصول میں این سی اے کی مدد کی تھی
سابق مشیر احتساب نے درخواست کی ہے کہ نیب کے 2 اگست کے کال اپ نوٹس کے جواب کے لیے ان کا انٹرویو وڈیو لنک، اسکائپ، واٹس ایپ، زوم یا کسی اور دستیاب آن لائن ذریعے سے کیا جائے
انہوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اگر نیب ایسا چاہے تو وہ پاکستان ہائی کمیشن لندن سے وڈیو لنک کے ذریعے انکوائری میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست کو بھی انہوں نے دوبارہ انٹرویو آن لائن کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا
درخواست گزار سمجھتا ہے کہ اگر نیب کا ارادہ معلومات حاصل کرنا اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوتا تو نیب آن لائن انٹرویو کی درخواست قبول کر لیتا
انہوں نے کہا کہ ملک سے ان کی غیر موجودگی میں ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت ان کے خلاف غیر قانونی کارروائیاں کر رہی ہے
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم کے معاون برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر ، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی مالی بدعنوانیوں کے معاملات کے حوالے سے کافی متحرک تھے۔